بھیونڈی تکیہ امانی شاہ کے ۹۴؍سالہ محمد اجمل محمداسلم نعمانی کاتعلق اُترپردیش کے اعظم گڑھ سے ہے،گھرکے معاشی حالات نے ابتدائی تعلیم کے بعد آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو ممبئی آگئے، بعد میں پونے گئے اور آخر میں بھیونڈی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 2:40 PM IST | Mumbai
بھیونڈی تکیہ امانی شاہ کے ۹۴؍سالہ محمد اجمل محمداسلم نعمانی کاتعلق اُترپردیش کے اعظم گڑھ سے ہے،گھرکے معاشی حالات نے ابتدائی تعلیم کے بعد آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو ممبئی آگئے، بعد میں پونے گئے اور آخر میں بھیونڈی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔
تکیہ امانی شاہ محلہ ،بھیونڈی کے۹۴؍ سالہ محمد اجمل محمداسلم نعمانی کا تعلق اُترپردیش کے بندول گائو ں ضلع اعظم گڑھ سے ہے ۔ ۱۹۳۰ء میں بندول میں وہ پیدا ہوئے تھے ۔ گائوں کےمدرسے سےچوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ معاشی حالات نے آگے کی پڑھائی کی اجازت نہیں دی۔اس کے بعدوالد کے ساتھ کھیتی باڑی کے کام سے جڑ گئے۔ ان کے بڑے بھائی ممبئی میں کام کرتے تھے۔ بھائی کے ساتھ ۲۲؍سال کی عمر میں ۲۹؍ جولائی ۱۹۵۲ء کو ممبئی آگئے اورپھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ابتدائی دنوں میں مجگائوں پر واقع ڈاک میں چپراسی کی ملازمت کی۔ بعد ازیں روزگار کی تلاش میں پونے منتقل ہوگئے۔ وہاں ۹؍سال تک بیکری میں کام کیا۔اس کےبعد بھیونڈی آئے اور پھر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ۱۵؍ دسمبر ۱۹۶۲ء میں بھوسار محلہ ،بھیونڈی میں پونے بیکری کے نام سے اپنی بیکری قائم کی جو ۱۳؍ستمبر۲۰۲۳ء تک جاری رہی۔ عمر کے اس مرحلے پربھی پوری طرح سے ہشاش بشاش ہیں ۔عبادت گزاری میں زیادہ وقت گزرتا ہے ۔ حافظہ روشن ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوامی خدمت کا جذبہ بھی قائم ہے۔
۱۹۳۹ء میں ہونےوالی دوسری جنگ عظیم کے وقت محمد اجمل کی عمر ۹؍سال تھی۔ اس کےباوجود بھی اُس وقت کے حالات کے بارے میں انہیں بہت کچھ یاد ہے۔ ان کی والدہ’ ہٹلر کاجہاز آیا‘ کہہ کرانہیں ڈرایا کرتی تھیں۔جہازوں کے آسمان سے گزرنے پر والدہ انہیں گھر میں لحاف کے اند ر چھپا دیتی تھیں۔ انگریز پولیس گائوں میں مارچ کرتی، جنہیں دیکھ کر لوگ گھروں میں گھس جاتے تھے ۔ ڈر وخوف کا ماحول تھا۔ نوجوان سڑکوںپر ’ہمارا ملک چھوڑو‘اور’ بھاگو غدارو‘ کے نعرے بلند کرتے تھے۔ چوڑے سینے والے نوجوانوں کو پولیس پکڑ کر فوج میں بھرتی کرنے کیلئے لے جاتی تھی۔ جنگ کی وجہ سے عوام معاشی بحران کا شکار تھی ۔ کھانے پینے کی قلت تھی ۔ لوگ فاقہ کشی پر مجبور تھے ۔بڑا صبرآزما دور تھا۔
محمد اجمل کا آبائی پیشہ کھیتی باڑی رہاہے۔ کھیتی کیلئے بارش کاہونا بہت ضروری ہے ۔ جس سال بارش نہیں ہوتی، گائوں کے کنویں اور تالاب سوکھ جاتے تھے۔ قحط سالی جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ اناج کی قلت سے فاقہ کشی کی نوبت آجاتی۔ لوگ بھوک سے تڑپنے لگتے تھے۔بیشتر گھروں میں یہی کیفیت ہوتی تھی۔ انہیں کئی کئی دنوں تک فاقے کرنے پڑتے تھے۔ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد لوگ رات کو کچاگُڑ پانی سے کھا کر سو جاتے تھے۔ اس دور میں گھرکی متعدد عمررسیدہ خواتین پان کھانے کی عادی تھیں ۔ کھانا نہ ملے تو برداشت کرلیتی تھیں لیکن ان کیلئے پان کھانا ضروری تھا۔ قحط سالی میں پان کا ایک پتا تک نہیں ملتا تھا ،جس کی وجہ سے ان کی حالت غیر ہوجایا کرتی تھی۔پان نہ ملنے کی وجہ سے محمد اجمل کی دادی کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ ٹھیک سے سو نہیں پاتی تھیں۔
ملک کی تقسیم کے بعد ایک قانون ایسا بنا تھا،جس کے مطابق کسی کی زمین پرکھیتی کرنے والا اس زمین کامالک ہو جاتا تھا۔اس قانون کے تحت محمد اجمل کی ۴۰؍ بیگھہ زمین تنازع میں پھنس گئی تھی۔ اس زمین کے مقدمہ کے تعلق سے وہ روزانہ ۱۰؍ کلومیٹر پیدل سفر کیا کرتے تھے ۔ اس کیلئے انہیں تیز دھوپ میں روزانہ ۳؍گھنٹے پیدل چلنا پڑتا تھا۔راستے میں بھوک پیاس لگنےپر رک جاتے تھے۔راستے میںجہاں کہیں بھی پیاس لگتی، کسی کے بھی گھر سے پانی مانگ کر پی لیتے تھے۔ برادران وطن کے گھروں سے بھی پانی مانگ لیتے تھے اور وہ اکثر انہیں پانی کے ساتھ گُڑ بھی دیتےتھے۔ پانی پی کر پھر سفر پر روانہ ہوجاتے تھے۔
کچھ دنوں تک محمد اجمل نے پونے میں معروف شاعر یونس مظفر نگری کے یہاں ملازمت کی ہے۔ انہوں نے ۱۹۵۷ء میں پونے میں ایک مشاعرے کااہتمام کیا تھا جس میں ممبئی سے بھی کئی شعرائے کرام شریک ہوئے تھے۔ ان میں کیفی اعظمی بھی شامل تھے۔ کیفی صاحب کے ساتھ ان کی بیٹی فلم اداکار ہ شبانہ اعظمی بھی مشاعرے میں پہنچی تھیں۔ اس وقت وہ بہت چھوٹی تھیں۔ مشاعرے کے بعدیونس مظفرنگری نے اپنی رہائش گاہ پر ایک ادبی نشست اور عشائیہ کا اہتمام کیا تھا ۔ اس موقع پر یونس مظفر نگری کے کہنے کی وجہ سے شبانہ اعظمی کومحمد اجمل گھر کے باہر واقع ندی کے آس پاس گھمانے لگے گئے تھے۔
محمد اجمل کو فلم دیکھنے کا بڑا شوق تھا ۔ ایک دور تھا کہ وہ کوئی فلم نہیں چھوڑتے تھے ۔فلم ’پتنگا‘کا مقبول گیت ’ میرے پیا گئے رنگون، وہاں سے آیا ہے ٹیلی فون،تمہاری یاد ستاتی ہے‘ گانے کو سن کر ٹیلی فون دیکھنےکیلئے وہ فلم دیکھنے گئے تھے ۔اسی طرح ایک مرتبہ وہ اپنے والد کو بھیونڈی کے نذرانہ سنیماہال میں فلم ’ناگن‘ دکھانے لے گئے تھے ۔ پوری فلم سانپوں کے اردگرد ہونے سے ان کے والد نے محمد اجمل سے کہا تھا’ ’کونسی بیہودہ فلم دکھانے لے آیا، جس میں صرف سانپ ہی سانپ ہیں ۔‘‘
بھسار محلہ میں ۶؍دہائی تک برادران وطن کے درمیان کام کاج کرنے سے ان سے محمد اجمل کے مراسم بہت قریبی ہوگئے تھے ۔ وہ ان سے بڑی عزت و احترام سے پیش آتے تھے ۔ ان کے جانے پر برادران وطن کرسی چھوڑ کر انہیں اپنی کرسی پر بٹھاتے تھے۔ ہاتھ جوڑ کر ان کا استقبال کرتے اور پیر چھوکر ان کی عزت بڑھاتے تھے ۔ بھیونڈی میں ایک چھگن سیٹھ تھے جن سے ان کےبہت اچھے تعلقات تھے۔ ایک مرتبہ چھگن سیٹھ کی راشن کی دکان کاکوئی مسئلہ پھنس گیا تھا ۔ اسے حل کرنے کیلئے اس وقت بھیونڈی کے چیئرمین زبیر پٹیل سےمحمد اجمل نے چھگن سیٹھ کا کام کروایا تھا۔ محمد اجمل کے اس احسان کو چھگن سیٹھ کبھی نہیں بھولے۔ ان کے انتقال کے بعد اب ان کے فرزند بھی محمد اجمل کی اسی طرح عزت کرتے ہیں ۔
محمد اجمل جب بھیونڈی منتقل ہوئے تھے اس دورمیں یہاں پاور لوم کا جال بچھا ہوا تھا۔ ہر گلی محلے سے لوم چلنےکی آواز آتی تھی۔ یہاںدن رات لوم چلنے سے رات ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کیونکہ رات بھر مزدور کام کیا کرتے تھے ، اسلئے تکیہ امانی شاہ میں رات بھر ہوٹلیں کھلی رہتی تھیں تاکہ مزدورکسی بھی وقت کھانا کھاسکیں ۔ اس دور میں مدینہ ، دربار اور تکیہ ہوٹل کافی مقبول تھے ۔ رات کو صفائی کیلئے صرف ایک گھنٹہ کیلئے ہوٹل بندہوتے تھے۔ لوم کی آواز اور ہوٹلوں کے کھلے رہنے سے رات بھر چہل پہل کا ماحول ہوتا تھا ۔ بھیونڈی میں آج بھی لوگ زیادہ چائے پیتےہیں ۔
اعظم گڑھ میں ۱۹۴۸ء میں ہیضہ کی وباء پھیلی تھی۔ وباء سے متاثر ہونے کے سبب گائوں کا گائوںویران ہوگیا تھا۔ جان لیوا بیمار ی کے خوف سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر گائوں کے باہر لگائے گئے کیمپ میں پناہ لے رہے تھے ۔ ہیضہ ، طاعون اور میعادی بخار کو لوگ چھوت کی بیماری سمجھنے لگے تھے۔اس کی وجہ سےایک دوسرے کے گھر آناجانا بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ رشتہ دار بھی اپنے عزیزوں سے ملنے سے کتراتے تھے ۔ اسی بیماری میں ۲؍دنوں کے وقفے میں انہوں نے اپنی والدہ اور بہن کو کھودیا تھا۔ میعادی بخار کی وجہ سے ایک گھر میں ۳؍بھائی بہنوں کی ایک گھنٹے میں ہونے والی موت اور مغرب کی نماز کے بعد ایک ساتھ ان تینوں کا جنازہ نکلنے کا کرب ناک منظربھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔