نوی ممبئی کی ۷۹؍سالہ زرینہ عبدالسلام انصاری نے زندگی بھرتدریسی خدمات انجام دیں اور صدر جمہوریہ کے آر نارائنن کے ہاتھوں قومی ایوارڈ حاصل کیا، اُس موقع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے بھی ایوارڈ یافتگان سے ملاقات کی تھی۔
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 3:41 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
نوی ممبئی کی ۷۹؍سالہ زرینہ عبدالسلام انصاری نے زندگی بھرتدریسی خدمات انجام دیں اور صدر جمہوریہ کے آر نارائنن کے ہاتھوں قومی ایوارڈ حاصل کیا، اُس موقع پر اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے بھی ایوارڈ یافتگان سے ملاقات کی تھی۔
نیرول، نوی ممبئی میں مقیم مومن پورہ بائیکلہ کی ۷۹؍ سالہ زرینہ عبدالسلام انصاری کی ولادت ۶؍جولائی ۱۹۴۵ء کو ہوئی تھی۔ مومن پورہ میونسپل اُردو اسکول سے ساتویں اور بیلاسس روڈ کے انجمن اسلا م سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول سے میٹر ک کا امتحان پاس کر کے فورٹ پر واقع سدھارتھ کالج سے بارہویں تک تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران اپنی بڑی بہن رابعہ انصاری کے کہنے پر امام باڑہ بی ایڈ کالج سے پرائمری ٹیچرس سرٹیفکیٹ(پی ٹی سی) کا امتحان بھی پاس کیا۔ پی ٹی سی کرنےکے ساتھ ہی اگست ۱۹۹۶ء میں وکھرولی میونسپل اُردو اسکول میں بحیثیت معلمہ ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے گھاٹ کوپر، مصطفیٰ بازار، صفرا بادی، بالا رام اسٹریٹ، مدنپورہ اور مومن پورہ میونسپل اُردو اسکول میں تدریسی خدمات پیش کیں۔ مومن پورہ میونسپل اسکول سے ابتدائی پڑھائی کرنے والی زرینہ انصاری بحیثیت ہیڈ مسٹریس اسی ادارہ سے ۳۱؍جولائی ۲۰۰۳ء میں سبکدوش ہوئیں۔ ۳۷؍سال تک تدریسی خدمات سے وابستہ رہیں۔ اس دوران انہیں ان کی تعلیمی اور تدریسی خدمات کیلئے متعدد اعزاز سے نوازا گیا جن میں ۱۹۸۷ء میں ملنے والا میئر اور ۱۹۹۹ء میں صدرجمہوریہ کےآر نارائنن کے ہاتھوں تفویض کیا گیا قومی ایوارڈ امتیازی اہمیت کےحامل ہیں۔ سبکدوش ہونے کے بعد حج کا فریضہ انجام دیا۔ گزشتہ ۲۴؍سال سے سیکٹر ۲۱؍نیرول میں مقیم ہیں اور گھریلو امور میں اب بھی شریک رہتی ہیں ۔
تدریسی خدمات کے دوران زرینہ انصاری نے صحت اطفال کے تعلق سے ایک تخلیقی کارنامہ بھی انجام دیا ہے جو قابل تقلید ہے۔ مومن پورہ اسکول میں ملازمت کے دوران اکثر طلبہ کے بیمار ہونے کا تجربہ ہونے پر انہوں نے بچوں کی ٹفن کی جانچ ساتھ ہی ان بچوں کے ساتھ کھانا خود بھی کھانا شروع کیا۔ اسے دیکھ کر اسکو ل کادیگر عملہ کہا کرتا تھا کہ میڈم آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں ؟ ان لوگوں کی باتوں پر انہوں نے توجہ نہیں د ی اور اپنی مہم جاری رکھی۔ اس سے انہیں اندازہ ہوا کہ والدین بچوں کو صحت بخش اور معیاری غذا نہیں دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بیمار پڑ تےہیں۔ ایک خاندان کے ۳؍ بھائی بہن پہلی، چوتھی اور پانچوں جماعت میں پڑھائی کرتے تھے۔ ایک دن ان کے ٹفن کو دیکھ کر زرینہ انصاری کو شدید صدمہ پہنچا۔ والدہ نے ایک ڈبہ میں چائے میں ۲؍ بُورون پائوبھگا کر دیا تھا۔ گھنٹوں چائے میں ڈوبے رہنے سے پاؤپھول کر غبارہ ہوگیا تھا۔ تینوں بھائی بہن وقفہ میں ہاتھ سے بُورون نکال کر جس طرح کھا رہے تھے، اسے دیکھ کر بڑی کراہیت ہو رہی تھی۔ زرینہ انصاری نے مومن پورہ کے قریب واقع جھوپڑپٹی میں جاکر ان کی والدہ سے ملاقات کی۔ ان سے کہا کہ جھاڑوبرتن کا کام کر کے جو پیسہ کماتی ہو۔ ان پیسوں سے ۱۰؍کلو آٹا خرید کر بچوں کو روٹی بنا کر دیا کرو۔ اس سے تمہارے بچوں کو قوت ملے گی۔ اس کے بعد انہوں طلبہ کی صحت کیلئے ایک اور مہم شروع کی۔ وہ بائیکلہ سے روزانہ ڈھائی کلو گاجر، ڈھائی کلو ککڑی، ڈھائی کلو مولی اور ڈھائی کلو چقندر، چپراسی سے منگواتی تھیں ۔ ان پھلوں کو دھوکر کٹواتی تھیں اور وقفہ میں طلبہ کے درمیان تقسیم کردیا کرتی تھیں۔ اس سے یہ فائدہ ہواکہ اکثر بیمار پڑنے والے طلبہ صحت مند ہونے لگے۔ وہ روزہ دار بچوں کو انعام بھی دیتی تھیں۔
یہ بھی پڑھئے:’’شبیر احمد راہیؔ آگے بڑھےاوریونین جیک ہٹاکر ترنگا لہرادیا‘‘
ایک مرتبہ اسمبلی الیکشن میں زرینہ انصاری کو پریسائڈنگ آفیسر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ناگپاڑہ کے مستان تالاب میدان میں پولنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا۔ ان کی نگرانی میں ۱۲۔ ۱۰؍عملہ الیکشن ڈیوٹی پر مامور تھا۔ دوپہر میں تقریباً ۱۲؍بجے نامعلوم کیسے وہاں کا پورا بیلٹ پیپر غائب ہوگیا۔ یہ سنتے ہی ان کے اوسان خطاہوگئے۔ بیلٹ پیپر کیسے غائب ہوا اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ اس کی وجہ سے پولنگ روک دی گئی۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ قریب کے پولنگ اسٹیشن پر مذکورہ بیلٹ پیپر کے سارے ناموں کے ووٹ ڈال دیئے گئے ہیں ۔ اس بات کاپتہ چلنے سے زرینہ انصاری کو راحت ملی تھی لیکن قانونی چارہ جوئی اور پولیس کی کارروائی کے دوران انہیں تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ اس روزوہ رات میں ایک بجے گھرلوٹی تھیں جس کی وجہ سے پورا گھر فکرمند تھا۔
دسمبر ۲۰۰۴ء میں زرینہ انصاری اپنے اہل خانہ کے ساتھ حج بیت اللہ پر گئی تھیں ۔ اسی سال شیطان کو کنکری مارنےکے دوران بھگدڑ مچنے سے سیکڑوں حاجی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس پورے دلخراش منظر کو زرینہ انصاری نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر گرے جا رہے تھے، جو لوگ ایک بار گرجاتے، ان کے اُٹھنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں پر سے لوگوں کو بھاگتے دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی تھی۔ شدید زخمیوں کو ایمبولنس میں جانوروں کی طرح بھر کر اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ اس خوفناک اور ہیبت ناک منظر کو دیکھ کر زرینہ انصاری کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
زرینہ انصاری کی شادی ۱۳؍دسمبر۱۹۶۴ءکو ہوئی تھی۔ نکاح اور طعام کے بعد رخصتی کے وقت گھر کی عورتوں نے کہا کہ دلہن کار میں نہیں بلکہ بگھی میں سسرال جائے گی۔ اس دورمیں دلہن کیلئے الگ قسم کی گھوڑا گاڑی ہوتی تھی جس میں پردے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ اس گھوڑا گاڑی کو پھول اور گجرے سے سجایا جاتا تھا۔ انہیں گھر کی ۲؍عورتوں کے ساتھ بگھی میں رخصت کیا گیا تھا۔ شادی میں عموماً دال گوشت اور چاول سے مہمانوں کی ضیافت کی جاتی تھی لیکن زرینہ کے بڑے بھائی نے ان کی شادی میں بکرے کے گوشت کا قورمہ بنوایا تھا۔ اس دورمیں بکرے کے گوشت کاانتظام کرنا بڑی بات تھی۔ مومن پورہ کی عوامی لائبریری کے سامنے کشادہ کھلی جگہ پر فرش پر ٹاٹ بچھا کر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا تھا۔
زرینہ انصاری کو جب قومی ایوارڈ ملاتھا، اس وقت کے آرنارائنن صدر جمہوریہ اور اٹل بہاری واجپئی ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ایوارڈ حاصل کرنے کے دوسرے دن اٹل بہاری واجپئی نے مہاراشٹر کے سبھی ایوارڈ یافتہ اساتذہ کو ناشتے پر اپنی سرکاری رہائش گاہ پر مدعوکیا تھا۔ اس موقع پر اٹل بہاری واجپئی نے زرینہ اور ان کے دیگر ساتھی اساتذہ سے کہا تھا کہ میرے والد بھی ٹیچر تھے۔ ان کے دورمیں تنخواہ اتنی کم تھی کہ اس سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔ اس کی وجہ سے ہماری پڑھائی لکھائی میں مشکلیں آرہی تھیں ۔ اسلئے میں چاہتا ہوں کہ شکشک کی تنخواہ اچھی رہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں اور اپنےد یگر کاموں کو انجام دے سکیں ۔ اساتذہ قوم کے معمار ہیں ۔ ان تمام اساتذہ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ اپنی قدروں کو پہچانیں۔ مجھے آپ لوگوں سے ملاقات کرنے پرخوشی ہوئی ہے۔ آپ لوگو ں نے کچھ اچھا ہی کام کیا ہے تب ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔
زرینہ انصاری کے خاوند کو ۲؍سال قبل رات میں ۳؍ بجے دمہ کا حملہ پڑا تھا۔ چونکہ گھر میں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ زرینہ نے گھبرا کر اپنے بھتیجے کو فون کیا۔ جب ان کے ہمسایوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے زرینہ سے کہا کہ پہلے پڑوسیوں کو اطلا ع دی جاتی ہے، کیا ہم لوگ یہاں نہیں تھے، ہم آپ کی مدد نہیں کرتے۔ وہ لوگ کسی طرح علاج کیلئے انہیں ممبئی لے جانے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے خاوند کا علاج یہیں کروائیں گے، پیسوں کی فکر آپ کو نہیں کرنی ہے حالانکہ جس بلڈنگ میں زرینہ انصاری رہائش پزیر ہیں ، وہاں صرف ان کی واحد مسلم فیملی ہے۔ بلڈنگ کے برادران وطن ان کی بڑی عزت اور احترام کرتےہیں۔ ان کےگھر کےبچے امتحان دینےکیلئے اسکول جانے سے قبل زرینہ انصاری سے آشیرواد لے کر جاتے ہیں۔