• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’وزیراعظم جواہر لال نہرو کھڑے ہوئے تو پورا مجمع احتراماً کھڑا ہوگیا‘‘

Updated: July 14, 2024, 5:05 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

آکولہ کے ۷۶؍ سالہ خواجہ افتخار احمد ۳۲؍سال تک شعبہ درس و تدریس سے وابستہ رہے، ۲۰۰۶ء میں سبکدوش ہوئے، لیکناس کے بعد بھی ان کی تدریسی سرگرمیاں جاری ہیں، اس کے ساتھ ہی تعلیمی اور فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

Khawaja Iftikhar Ahmed. Photo: INN
خواجہ افتخار احمد۔ تصویر : آئی این این

بامبے ڈاک میں برسرروزگار واصف الرحمان نے تقریباً ۲۔ ۳؍ ماہ قبل فون کر کے اپناتعارف پیش کیا تھا۔ بعد ازیں کالم گوشۂ بزرگاں کےتعلق سے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بڑی پابندی سے کالم کا مطالعہ کرتا ہوں ۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق آکولہ سے ہے، اسلئے میری خواہش ہے کہ وہاں کی ایک معزز شخصیت خواجہ افتخار احمد بھی اس کالم کی زینت بنیں ۔ کالم نویس کی جانب سے اثبات میں جواب ملنے پر انہوں نے خواجہ افتخار احمد کاتعار ف پیش کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ وہ ۲؍ دن کیلئے ممبئی تشریف لائے ہوئے ہیں اور ملت نگر، اندھیری میں مقیم ہیں ، کہیں تو ان سے ملاقات کاوقت طے کر لوں۔ بعد ازاں انہوں نے افتخار احمد سے ملاقات کا وقت مقرر کر کے ملت نگر کا پتہ ارسال کردیا۔ مقررہ وقت پر افتخار احمد سے ہونے والی ملاقات بہت دلچسپ اور معلوماتی رہی۔ تقریباً ایک گھنٹہ کی گفتگو کے دوران انہوں نے اپنی زندگی کے متعدد واقعات بڑی دلچسپی اور گرمجوشی سے بیان کئے۔ 
 خواجہ افتخار احمد کی پیدائش آکولہ کے گوولی پورہ، منکرناپلاٹس علاقے میں ۶؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم آکولہ کے میونسپل کونسل اسکول سے حاصل کی۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کی پڑھائی بھی وہیں سے پوری کی۔ امراوتی کے کنگ ایڈورڈ کالج سے انٹر اور ناگپور کے سینٹ فرانسس کالج سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی میں ۳۲؍ سال تک درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ ۲۰۰۶ء میں سبکدوش ہوئے لیکن آج بھی ان کی تدریسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تعلیمی اور فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’تاج محل ہوٹل میں ہم ۳؍ساتھیوں نے مل کر ۲؍چائے پی تھی جس کی قیمت ۱۰؍ روپے تھی‘‘

افتخار احمد کے دادا اور خاندان کے دیگر افراد آزادی سے قبل پانی پت میں مقیم تھے۔ آزادی کے بعد پھوٹ پڑنے فساد کے دوران ان کےاہل خانہ نے پانی پت کے تھانیدار سے جاکر دریافت کیا کہ ہمارا یہاں رہنا کتنا محفوظ ہے ؟جواب میں تھانیدار نے اطمینان دلایا اور کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ۱۵؍ دنوں بعدوہاں کے حالات ایک بار پھر خراب ہوگئے اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ جس کی وجہ سے ان کےخاندان کو راتو ں رات ٹرک کے ذریعہ پانی پت چھوڑنا پڑا۔ برسوں بعد جب وہاں کے حالات کچھ حد تک معمول پر آئے تو پانی پت سے ایک صاحب آکولہ آئے تھے۔ ان سے افتخار احمد کے گھر والوں نے پانی پت کے محلہ انصار میں واقع کریم منزل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایاکہ کریم منزل آج بھی موجود ہے لیکن اب اس میں ایک بڑی مارکیٹ بن گئی ہے۔ یہ سن کر افتخار احمد کی والدہ نے پانی پت جاکر اپنے آبائی حویلی کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ ۱۹۵۶ء کی بات ہے، اس وقت افتخار احمد ۸؍سال کے تھے۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ پانی پت گئے تھے۔ کریم منزل دیکھ کر والدہ زار وقطار روتی رہیں ۔ ساری چیزیں ویسی ہی تھیں لیکن علاقہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا تھا۔ اس پورے علاقے میں صرف ایک مسلم بندہ موجود تھا، جو وہاں کی ایک معروف درگاہ کا متولی تھا اور جسے گاؤں والے مولوی کہہ کر بلاتے تھے۔ 
 بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات سے آکولہ بھی متاثر ہوا تھا۔ ۶؍ دسمبر کی شام سے ہی وہاں لوٹ مار، آگ زنی اور ہنگامہ آرائی کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ انہی حالات میں وہاں ۶؍ دسمبر کو ایک پاکستانی پہلوان، جن کا لقب ’مسٹرکراچی ‘ تھا، ان کا نکاح آکولہ کی ایک لڑکی سے ہونا طے پایا تھا۔ شہر میں فرقہ وارانہ تنائو پھیلا ہوا تھا۔ اس کے باوجود ۶؍ دسمبر کو گوولی پورہ میں اس کا نکاح ہوا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے مسٹرکراچی کا تحفظ انتہائی ضروری تھا۔ چنانچہ نکاح کے بعد دلہن اورمسٹرکراچی کو ایک ہوٹل میں منتقل کردیاگیا تاکہ شہر کے فساد زدہ ماحول سے ان دونوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آکولہ کے مسلمانوں کیلئے یہ شادی اب بھی ایک یادگار ہے۔ یہ جوڑا آج بھی خوش اسلوبی سے زندگی بسرکر رہا ہے۔ قبل ازیں یہاں کے برادران وطن کے ایک محلہ میں ’مسٹرکراچی ‘ کیلئے تہنیتی جلسہ رکھا گیا تھا۔ فساد کا ماحول ہونے کے باوجود آکولہ کےبرادران ِوطن نے مسٹرکراچی کو پروگرام میں مدعو کرکے انہیں تہنیت پیش کی تھی جو قومی یکجہتی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ 
  افتخار احمد کی تدریسی خدمات ۳۲؍ برسوں پرمحیط ہے۔ اس دوران انہوں نے ہزاروں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا لیکن ایک رکشہ والے اشرف میاں کے بیٹے بسم اللہ خان کی زندگی سنوارنے کا واقعہ وہ کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ ایس ایس سی کے بعد پیسوں کی قلت کی وجہ سے اشرف میاں ، بسم اللہ خان کو آگے پڑھانے کا فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ اسی اُدھیڑ بن میں وہ افتخار احمد کےپاس پہنچے اور کہا کہ سر، بسم اللہ خان کو آگے کیا پڑھایا جائے، میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ جس پر افتخار احمد نے کہاکہ تمہارا بیٹا بہت ذہن ہے۔ ا سے آگے پڑھائو۔ مگر اشرف میاں پیسہ نہ ہونے سے خاموش تھے۔ ایسے میں افتخار احمد نے بسم اللہ خان کا نام آکولہ کے شیواجی کالج میں لکھانے کا مشورہ دیا جہاں سائنس فیکلٹی کی فیس اس وقت ۲۲۰۰؍ ر وپے تھی۔ اس کا انتظام اشرف میاں کے پاس نہیں تھا، اسلئے افتخار احمد نے فیس کا انتظام ایک مقامی سماجی کارکن کے ذریعے کر کے اس کا داخلہ شیواجی کالج میں کرا دیا۔ بسم اللہ خان نے یہاں سے میرٹ کے ساتھ بی ایس سی پاس کیا۔ بعدازیں افتخار احمد کے مشورہ پر بسم اللہ خان کو ایم ایس سی ان کیمسٹری کی پڑھائی کیلئے امرائوتی کے کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ دلایا گیا۔ وہاں سے بھی عمدہ مارکس سے بسم اللہ خان نے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد بی ایڈ کاامتحان بھی پاس کیا۔ اس طرح بسم اللہ خان کی پڑھائی پوری ہوئی۔ اس کے بعد افتخار احمد نے اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر انضار احمد کے توسط سے ان کی ملازمت بطور جونیئر لیکچرر وردھا کے جانکی دیوی بجاج کالج میں کرادیا جہاں سے بسم اللہ خان کی عملی زندگی کاکامیاب سفر شروع ہوا۔ رکشہ والے کے بیٹے کو لیکچر ر بنانے کا سفر وہ نہیں بھولتے ہیں ۔ 
  یہ فروری ۱۹۶۲ء کی بات ہے۔ پارلیمانی الیکشن قریب تھا۔ ودربھ کو علاحدہ کرنے کی مہم عروج پر تھی۔ آکولہ سے کانگریس پارٹی کے محب الحق اور ا ن کے سامنے ودربھ نواز اُمیدوار برج لال بیانی کھڑے تھے۔ اس موقع پر سینئر کانگریسی لیڈر یشونت رائو چوان نے پنڈت جواہر لال نہرو کو آکولہ میں بنائے گئے کلاک ٹاور کے افتتاح کیلئے مدعو کیاتھا۔ کلاک ٹاور کے افتتاح کے ساتھ الیکشن سےمتعلق عوام کی ذہن سازی مقصود تھی۔ وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی آمد پر پورا آکولہ دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ صبح سے لوگ ٹریکٹر اور ٹرکوں سے کلاک ٹاور پہنچ رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ پنڈت جی جیسے ہی خطاب کیلئے کھڑے ہوئے، پورا مجمع ان کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ وہ بارہا عوام سے بیٹھنے کی درخواست کرتے رہے لیکن مجمع نہیں بیٹھا۔ ان کی ۸؍منٹ کی تقریر کاایسا جادو چلا کہ محب الحق لاکھوں ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے اور ودربھ کو علاحدہ کرنےکی تحریک کمزور پڑگئی۔ 
۱۹۷۸ء میں آکولہ میں بھیانک سیلاب آیا تھا۔ جس کی وجہ سے آکولہ کا نشیبی علاقہ ڈوب گیا تھا۔ اس وجہ سے ان علاقوں کے مکینوں کو مختلف ضلع پریشد کی اسکولی اور دیگر سرکاری عمارتوں میں پناہ دی گئی تھی۔ غربت کا زمانہ تھا، غریب لوگوں کے پاس کھانےپینے کی اشیاء کی قلت تھی۔ ایسےمیں افتخار احمد اور ان کےدیگر ۱۰؍ساتھیوں نے ایک اسکول میں جمع سیکڑوں پناہ گزینوں کی مدد کا بیڑہ اُٹھایاتھا۔ ان کے دونوں وقت کے کھانے پینے کاانتظام کیاتھا۔ ان لوگوں نے مقامی مخیر حضرات سے مددحاصل کرکے پناہ گزینوں کے تقریباً ۱۵؍ دنوں تک کھانے پینے کا انتظام کیا تھا۔ اس دوران سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں اور پریشانیوں کو انہوں نے بہت قریب سے محسوس کیاتھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK