• Mon, 21 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’میری ولادت پرمیرے والد صاحب نےخوش ہوکر اپنے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کی تھی‘‘

Updated: October 14, 2024, 4:42 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

وارڈن روڈ کے ۸۲؍سالہ منظور احمد خان نے بعد میں اُسی مسجد کو شہید کرکے اپنی بیٹی اور اپنے داماد کے مالی تعاون سے ایک نئی اور قدرے بڑی مسجد تعمیرکرائی، اس کام کو وہ اپنی زندگی کا بہترین عمل بتاتے ہیں، آج بھی سماجی اوردینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

Manzoor Ahmad Liaquat Khan. Photo: INN
منظور احمد لیاقت خان۔ تصویر : آئی این این

جنوبی ممبئی، وارڈن روڈ کے رہنے والےمنظور احمد لیاقت خان جن کا قیام فی الحال میرا روڈ میں ہے، کی پیدائش اُترپردیش کے ضلع بھدوئی ، قصبہ پورے میاں خاں میں ۲۶؍جولائی ۱۹۴۲ء کو ہوئی تھی۔ ان کے والد نے بچوں کی تعلیم کیلئے ’پورے میاں خاں ‘ میں اسلامیہ مدرسہ قائم کیا تھا۔ اس دور میں مدرسے کوحکومت کی جانب سے۱۳؍ روپے ماہانہ ملتے تھے۔ باقی اخراجات لیاقت خان خود پورا کرتے تھے۔ منظور خان نے اسی مدرسے سے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ پنجم جماعت کی تعلیم بیرا خاص گائوں سے کی تھی۔ آگے کی پڑھائی کیلئے ان کے والد نے گیان پور کے ویبھوتی نارائین انٹر کالج میں ان کا نام لکھوایاتھا۔ یہاں سے ساتویں جماعت پاس کر کے والد کے ہمراہ ممبئی آگئے تھے۔ یہاں آنے کے بعدتعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے والد نے انجمن اسلام اُردو ہائی اسکول ( سی ایس ایم ٹی ) میں ان کا داخلہ کرا دیا تھا جہاں سے انہوں نے میٹرک پاس کیا۔ ان کے والد چونکہ ڈرائیونگ اور میکانک کے کام سے وابستہ تھے ، اس لئے صابوصدیق کالج میں آٹوموبائل انجینئرنگ میں ان کا داخلہ کرا یا گیا لیکن پڑھائی میں دل نہ لگنے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دی۔ اس کے بعد میکانک کے آبائی کاروبار سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ۱۹۹۰ء تک اس پیشے سے جڑے رہے۔ 
 فی الحال کاروباری مصروفیت تو نہیں ہے لیکن ہشاش بشاش ہونے سے سماجی اوردینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے منظور خان نے گائوں میں ایک مسجد تعمیر کروائی ہے ، جسے وہ اپنی زندگی کا بہترین اورافضل عمل قرار دیتے ہیں ۔ ان کے والد نے۵؍بیٹیوں کی پیدائش کےبعدمنظور خان کی ولادت ہونے پر، بیٹا پیداہونےکی خوشی میں گائوں میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی تھی جس میں ۳؍ صفوں میں ۳۰؍ افراد کے نماز پڑھنےکی گنجائش تھی۔ اس مسجد کو شہید کر کے اسی جگہ پرمنظو ر خان نے ایک نئی اور قدرے بڑی مسجد تعمیر کروائی ہے۔ اس مسجد میں فی الوقت ڈیڑھ سے ۲۰۰؍ لوگوں کے نماز اداکرنے کی سہولت ہے۔ پوری مسجد کی تعمیر کا کام اپنی نگرانی میں کرایا ہے۔ اس کیلئے کسی سے کوئی مالی مدد نہیں لی ہے۔ مسجد کی تعمیر پر مجموعی طور پر تقریباً ۳۵؍لاکھ روپے خرچ ہوئےہیں جس کا انتظام ان کے علاوہ ان کی بیٹی غزالہ اورداماد جاوید عثمانی نےکیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:یہ خاتون نے ۲؍ دن میں والد، والدہ اور بڑے بھائی کاجنازہ اُٹھتے دیکھا

منظور خان کی گیراج وارڈن روڈ کےچنائے مینشن میں تھی۔ اس دور میں ممبئی کے پولیس کمشنر مجید اللہ خان تھے۔ وہ نیپنسی روڈ پر رہائش پزیر تھے۔ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود انتہائی سادہ لوح، نرم مزاج اور بااخلاق شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی موٹرگاڑی کی مرمت کا کام منظو ر خان کرتے تھے۔ مجید اللہ خان کے گھر کے بچوں کو ایک آدمی ٹیوشن پڑھاتاتھا۔ وہ بھی اسی علاقے میں رہتا تھا۔ منظور خان اس آدمی سے واقف نہیں تھے۔ ایک دن ٹاٹا گارڈن ( وارڈ ن روڈ ) کے قریب ان کے درمیان موٹر گاڑی کی پارکنگ کے مسئلہ پر تکرار ہوگئی۔ بات ہاتھا پائی پر اُتر آئی۔ منظور خان نے گیراج سے اپنے کاریگروں کو بلا کر ، اس آدمی کی خوب پٹائی کر ڈالی، بس پھر کیا تھا ، چونکہ اس کے تعلقات پولیس کمشنر مجید اللہ خان سے براہ راست تھے، اس نے فوراً فون کر کے پولیس کو بلا لیا۔ پولیس کے آنے سے قبل منظور خان اور ان کے کاریگروں نے راہِ فرار اختیار کرلی۔ بات پولیس اسٹیشن تک پہنچی۔ ان دونوں کواس بات کاعلم نہیں تھاکہ کہیں نہ کہیں سے دونوں پولیس کمشنر مجیداللہ خان سے وابستہ ہیں۔ پولیس تفتیش کےدوران جب انہیں اس کا علم ہواتو معاملہ آسانی سے حل ہوگیا۔ 
 بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فساد کو منظور خان نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وارڈن روڈ کے علاقے میں مسلمان برائے نام تھے۔ ان کی بلڈنگ میں ۳؍ مسلم فیملی اور ۵۔ ۷؍ دکاندار تھے۔ شرپسندوں کے خوف سے سب یہاں سے محفوظ مسلم علاقوں میں اپنے رشتےداروں او ر متعلقین کے یہاں منتقل ہوگئے تھے لیکن منظور خان اپنے بال بچوں کے ساتھ گیراج ہی میں مقیم تھے۔ اسی دوران ایک روز رات تقریباً ۱۰؍بجے ان کے ایک کاریگر نے، جو مہالکشمی مندر کے قریب رہتا تھا، فون کر کے کہا کہ سیٹھ آپ گیراج سے کہیں اور منتقل ہوجائیں ، شرپسند مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو گھاسلیٹ ڈال کر جلا رہے۔ یہ سن کر منظور خان بہت پریشان ہوئے۔ خیر یہ رات انہوں نے کسی طرح ڈروخوف کے عالم میں گزاری ، دوسرے دن حاجی مستا ن مرزا کے دوست رحمان بھائی کا فون آیا جو قریب ہی مقیم تھے۔ انہوں نے خیریت معلوم کر نے کے بعد اپنے فلیٹ پر آکر رہنے کی پیش کش کی لیکن منظور خان وہاں بھی نہیں گئے۔ اسی دوران ایک نامعلوم فون موصول ہوا ، فون کرنے والے نےخیریت دریافت کر کے مدد کی پیش کش کی۔ تیسرے دن حالات زیادہ بگڑنے کی صورت میں منظور خان کابھانجہ، جو ورلی ، لوٹس کالونی میں مقیم تھا ، اس نے فون کر کے کہا کہ ماموں آپ وہاں سے لوٹس آجائیں ، میں آپ کو لینے آتا ہوں ، وہ ایک شناسا پولیس اہلکار کے ساتھ رات ۱۰؍ بجے آکر منظور خان کو یہاں سے اپنے ساتھ لے گیا۔ ان خوفناک اور پریشان کن ۳؍دنوں کو منظور خان اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی بھول نہیں پارہے ہیں ۔ 
 جن دنوں منظور خان انجمن اسلام میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے، ان کے ساتھ محمد سلیم نام کا ایک طالب علم بھی پڑھتا تھا۔ وہ اکثر اسکول سے غیر حاضر رہتا تھا۔ دوبارہ اسکول آنے پر منظور خان سے نوٹس طلب کرتا ، وہ اسے دے دیتے۔ اسی دوران ’جاگرتی‘ نام کی ایک فلم ریلیز ہوئی تھی۔ منظور خان اپنے دوستوں کےساتھ یہ فلم دیکھنے گئے۔ فلم میں سلیم کو دیکھ کر حیران رہ گئے ، اپنے دوستوں کو بتایا کہ یہ لڑکا ، جس کا فلمی نام ’رتن کمار‘ ہے، میرا دوست اور میرے ساتھ پڑھائی کرتا ہے۔ یہ سن کرمنظور خان کے دوستوں کو بھی تعجب ہوا۔ دوسرے دن اسکول میں سلیم سے ملاقات ہونے پر منظور خان نے فلم کاتذکرہ کیا ، جس پر سلیم خان نے پوری حقیقت بیان کی اورکہاکہ شوٹنگ ہونےکی وجہ سے میں اسکول سے اکثرغیر حاضررہتاہوں۔ 
  گائوں میں منظور خان کے والد کی ۴۵؍بیگھہ زمین تھی۔ گائوں کے سبھی برادران وطن کے گھروں کے لوگ ان کی زمین پر کاشت کاری کا کام کرتے تھے۔ ان کے گھر میں ۸؍ بیل تھے، ان کی دیکھ بھال پر بھی برادران وطن مامور تھے۔ ناگ پنچمی تہوار پر بیل کو نہلاکر ، اس کی پوجاپاٹ کی جاتی تھی۔ والد نے تالاب پر جانے سے منع کیا تھا۔ اس کے باوجود بیل نہلانے والوں کے ساتھ منظور خان بھی تالاب پر چلے گئے تھے۔ اس تالاب میں ایک کنواں بھی تھا۔ معلوم نہیں ہوا کہ کیا ہوا ، اچانک منظورخان کنویں میں گر گئے۔ ۳؍ مرتبہ پانی سے اُوپر آئے۔ اتفاق سے منظور خان کے مامو ں وہاں سےگزررہےتھے ، انہوں نے انہیں دیکھ لیا، وہ تالاب میں کود گئے اور چوتھی مرتبہ جیسے ہی منظور خان اُوپر آئے ، انہوں نے انہیں پکڑ لیا۔ اس طرح ان کی جان بچ پائی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK