• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہ خاتون نے ۲؍ دن میں والد، والدہ اور بڑے بھائی کاجنازہ اُٹھتے دیکھا

Updated: October 06, 2024, 3:03 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی کے معروف شاعر وادیب شبیر احمد راہی کی چھوٹی ہمشیرہ ۹۶؍سالہ فاطمہ عبدالباری مومن ضعیف العمری میں بھی ہشاش بشاش اور چاق وچوبند ہیں، حافظہ بھی روشن ہے ،طبیعت میں شوخی اور طنزومزاح ان کی خاص پہچان ہے۔

Fatima Abdul Bari Momin. Photo: INN
فاطمہ عبدالباری مومن۔ تصویر: آئی این این

بھیونڈی کے معروف شاعر وادیب شبیر احمد راہی کی چھوٹی ہمشیرہ فاطمہ عبدالباری مومن کی پیدائش کے تعلق سے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن ان کے بڑے بیٹے اشتیاق مومن کی عمر ۷۸؍ سال ہوگئی ہے ۔ اس لحاظ سے ان کی عمر ۹۶؍ سال سے تجاوز کرجانے کااہل خانہ کو یقین ہے ۔ سوداگر محلہ کی انجمن حمایت الاسلام اسکول سے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ اس دور میں لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھایا جاتا تھا ۔ دادا کے کہنے پر پڑھائی چھوڑ کر گھریلو کام کاج کے علاوہ نواڑ اور چرخہ کاتنے کا کام سیکھاجو اس دورمیں گھر کی بڑی بوڑھیاں کرتی تھیں۔ گھر ہی میں سلائی کڑھائی اور بُنائی کی تربیت حاصل کی ۔ بھیونڈی میں مرد حضرات کے علاوہ خواتین گھروںمیں نواڑ اور چرخہ کاتنے کا کام کرتی تھیں۔ انہوں نے بھی اس کام کو اپنا لیا۔ اس جزوقتی مصروفیت سےخواتین کو بھی ۲۔۴؍ آنے مزدوری مل جاتی تھی۔
 بھوئی واڑہ ،بھیونڈی میں رہائش پزیر فاطمہ مومن نے زیادہ پڑھائی  نہیں کی، لیکن ان کی پردادی کو مطالعہ کا بڑا شوق تھا۔ پردادی کے شوق سے ترغیب حاصل کی، جس کا نتیجہ ہے کہ پیرانہ سالی میں بھی رو زانہ اخبارات اور رسائل کا پابندی سےمطالعہ کرتی ہیں۔ پاکیزہ آنچل، نغمہ ، خاتون مشرق اور مجرم جیسے رسالوں کے علاوہ بچوںکی کتابیں بڑی دلچسپی سے پڑھتی تھیں۔روزانہ علی الصباح ۴؍ بجے بیدار ہوتی ہیں۔ تہجداور فجر کی نماز کے بعد تلاوت کا معمول ہے ۔ چند سال قبل تک گھر کے سامنے کے وسیع احاطےکی صفائی اپنے ہاتھوں سے کیا کرتی تھیں،لیکن اب صرف اپناچھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔ غسل کرنےکےعلاوہ اپنے بال وغیرہ بھی خود ہی بنا لیتی ہیں۔ کھانا بھی اپنے ہی ہاتھوں سے کھاتی ہیں۔ اپنی چوتھی پیڑھی ، جو تقریباً ۵۰؍ افراد پر مشتمل ہے ، کے ہمراہ خوش وخرم زندگی بسر کر رہی ہیں۔ 
  گوشہ ٔ بزرگاں کالم کا مطالعہ بھی پابندی سے کرتی ہیں۔ کالم میں شائع ہونے کی اطلاع سے مسرور بھی ہیں۔ ضعیف العمری میں بھی ہشاش بشاش اورچاق وچوبند ہیں۔ حافظہ بھی روشن ہے ۔طبیعت میں شوخی اور طنزومزاح بھی موجودہے ۔
 فاطمہ مومن کی زندگی کا ایک واقعہ ایسا بھی ہے، جسے وہ ۹۴؍ سال گزر جانےکےباوجود نہیں بھول سکی ہیں۔ ان کی عمر صرف ۲؍سال تھی۔ بھیونڈی میںطاعون پھیلا تھا۔ اس وباء سے پورے بھیونڈی میں فکر و تشویش اوررنج والم کا ماحول تھا ۔ لوگ بہت پریشان تھے۔طاعون میں مبتلالوگوں کیلئے کیمپ لگایا گیاتھا ۔بیماری سے روزانہ لوگ فوت ہو رہے تھے۔ ان کی والدہ ، والد اور بڑے بھائی کی موت بھی اسی موذی مرض سے ہوئی تھی۔ ۲؍ دنوں میں ان تینوں کی موت کاصدمہ اب بھی ہے۔ پہلے دن والدہ کی موت ہوئی تھی اگلے روز والد اور بڑے بھائی کی میت ایک ساتھ اُٹھائی گئی ۔ والدین اور بڑے بھائی کی میت نہ دیکھ پانے کا اب بھی قلق ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بھیونڈی میں ہونے والی میت کے دیدار کیلئے تن تنہا پہنچ جاتی تھیں ۔ جہاں کہیں سے بھی موت کی اطلاع ملتی ، وہ فوراً اس کےگھرپہنچ جاتیں، میت کا دیدار اور اس کی مغفرت کی دعا کرنا لازم سمجھتی تھیں۔ 
 قدیم اور عصری دور کے بھیونڈی میں بڑا فرق ہے ۔ فاطمہ مومن کے بچپن میں یہاں بجلی ،پانی اور دیگر ضروری اور بنیادی سہولیات کافقدان تھا ۔ بجلی نہ ہونے سے شام ہوتے ہی گھروں میں اندھیرا چھا جاتا، مٹی کے تیل سے چراغ روشن کئے جاتے۔ اسی کی مدھم روشنی میں ضروریات پوری کی جاتیں۔ بھوسا اور لکڑی کے چولہے پر کھانا پکا یا جاتا ۔ گھر سے کافی دوری پر واقع کنویں سے خواتین پانی بھر کر لاتیں۔ سرپر تین چار ہنڈے پانی لانا محنت کا کام تھا۔ نالے پر عورتیں کپڑا دھونے جاتی تھیں ۔ان دشواریوں کے ساتھ زندگی بسر ہوتی تھی ۔ اس دور میں کھانے پینے کی اشیاء سستی تھیں ۔ ۳۰؍روپے میں پورے مہینے کا راشن ، تیل مسالہ اور دیگر خوردنی اشیاء کاانتظا م ہو جاتا تھا ۔ اسی طرح اُن دنوںگوشت ۴؍ آنے کلو کے حساب سے ملتا تھا ۔ 
 فاطمہ مومن کا بچپن گھریلو کام کاج کے علاوہ اس دور کے مقبول کھیل کود سے بھی وابستہ ر ہا ۔ انہیں گڑیا گڈے کی شادی والا کھیل بہت پسند تھا۔ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ اکثر گڑیا گڈے کی شادی رچایا کرتی تھیں ۔ سہیلیاں اپنے والدین ،دادا اور دادی سے پیسے مانگ کر جمع کرتیں۔ پہلے گڑیا گڈا خرید کر لاتیں بعدازیں ان کی شادی کا جوڑا اپنے ہاتھوں سے تیار کرتیں ۔ باغیچہ سے پھول چن کر لاتیں، اس کا سہر ہ بناکر گڑیا گڈے کو پہنا تیں ، دونوں کی شادی کی جاتی، لوگوں کو شادی میں مدعو کرتیں۔ مہمانوں کے درمیان چنا کُرمُرا تقسیم کر کے خوشیاں منائی جاتی تھیں۔ گڑیا کے رخصت ہونے پر رونے کی رسم اداکی جاتی۔ان کا کہناہےکہ وہ بڑی دلچسپ شادی ہواکرتی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: ’’ان آنکھوں نے بالشت بھر زمین کیلئے سگے بھائی کےذریعے بھائی کا قتل ہوتے دیکھا ہے!‘‘

فاطمہ مومن کو فلم بینی کا بڑا شوق تھا ۔ اپنی سہیلی ، صغرا، ہاجرہ، فاطمہ اور سکینہ ،جن میں سے اب کوئی دنیامیں نہیں ہے،کے ساتھ گھر کے مرد حضرات سے چھپ کر فلم دیکھنے کیلئے کی جانے والی حرکتوں کے بارے میں سوچ کر خوب محظوظ ہوتی ہیں ۔ سب سے پہلے فلم کی ٹکٹ کیلئے پیسوں کا انتظام کرنا ،ایک مرحلہ ہوتا تھا ۔ دادی کی منت سماجت کر کے پیسوں کا انتظام کیا جاتا۔ بعدازیں گھر کے مرد حضرات سے بچ بچا کر نذرانہ تھیٹر جانے کیلئے برقعہ اور چپل تبدیل کر کے جانا ، تاکہ بازار یا راستے میں بھائی وغیرہ دیکھ کر پہچان نہ لیں ، وہ بھی خوب یاد ہے ۔شادی کےبعد ایک مرتبہ سسرال سے میکے آکر فلم دیکھنے کیلئےجانے کاواقعہ یاد کر کے خوب لطف اندوزہوتی ہیں۔ برقعہ اور چپل بدل کر فلم دیکھنے تو چلی گئیں ،لیکن کسی طرح بھائی کو اس کا علم ہوگیا، وہ فاطمہ کو تلاش کرنے نکلے، متعلقین کے گھروں کی خاک چھاننے کے بعد بھی فاطمہ کا پتہ نہیں چلا، بھائی کو یہ خوف کھائے جا رہا تھاکہ سسرال والوں کو فاطمہ کے فلم جانے کا پتہ چل گیاتو ،کیا جواب دیا جائےگا۔ فلم دیکھ کر گھر لوٹنے پر بھائی کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس دور میں فلم کی ٹکٹ ۴؍اور ۸؍ آنے تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’مہاراشٹر کالج کے سائنس فیکلٹی میں داخلہ لینے والا میں پہلا طالب علم تھا‘‘

مالی مشکلات کی وجہ سے قدیم دور میں لوگ ڈاکٹروں کے پاس جانے سے اجتناب کرتےتھے۔عام بیماریوںکا علاج دیسی ٹوٹکے سے کیا جاتا تھا۔ کسی کے ہاتھ پیر میں کیل چبھ جانے یاکسی دھار دار چیز سے زخم آجانے پر پان کے پتے پر گوبر گرم کر کےاس کی پٹی بناکرزخم پر باندھ دی جاتی، ۳۔۴؍ روز میں زخم مندمل ہو جاتا تھا ۔ اسی طرح لُو لگنے پر تانبہ یا پیتل کی پلیٹ میں پانی ڈال کر املی ،پیاز اور ایک مخصوص سکہ رکھ کر متاثرہ کو لِٹا کر سر سے پنجے تک لے جایاجاتا، جسم کے جس حصے سے مذکورہ سکہ پیوست ہوتا ، سمجھ لیا جاتا کہ یہیں لُولگی ہے۔ سکہ بڑی مشکل سے جسم سے علاحدہ ہوتا، لیکن اس کےبعد لُو کا اثر زائل ہوجاتا۔
 فاطمہ مومن کے بچپن میں بھیونڈی میں شادی کا طریقہ بالکل مختلف  تھا۔ جس گھر میں شادی ہوتی، ۸۔۱۰؍ دن پہلے سےگھر کی خواتین ڈھول باجا کے ساتھ شادی سےمتعلق گیتوں کی محفل سجاتی تھیں ۔ عام طور پر نکاح والے دن کھانے میں سکوری کا انتظام ہوتا۔ مخصوص سالن اور چاول سےمہمانوں کی ضیافت ہوتی۔فاطمہ مومن کےبقول اب ان دِن کو یاد کرنے والے بھی رہ گئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK