بھیونڈی کے چوڑی محلے میں رہنے والے ۸۲؍ سالہ انور کھوت نے روایتی تعلیم زیادہ حاصل نہیں کی ہے لیکن بھیونڈی کی تاریخ سے خوب آگاہ ہیں، انہوں نے ’گزشتہ بھیونڈی ‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے ، جس میں شہر کی قدیم تاریخ کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 5:07 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کے چوڑی محلے میں رہنے والے ۸۲؍ سالہ انور کھوت نے روایتی تعلیم زیادہ حاصل نہیں کی ہے لیکن بھیونڈی کی تاریخ سے خوب آگاہ ہیں، انہوں نے ’گزشتہ بھیونڈی ‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے ، جس میں شہر کی قدیم تاریخ کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔
چوڑی محلہ، بھیونڈی کے ۸۲؍ سالہ محمد انور کھوت کی پیدائش اسی علاقے میں جون ۱۹۴۲ءمیں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد رئیس ہائی اسکول میں داخلہ لیااور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ والد کی بیماری کے سبب آگے کی پڑھائی نہیں کر سکے۔ مالی مشکلات اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے اسکول چھوڑتے ہی ملازمت اختیار کرلی۔ عملی زندگی کا آغاز منشی کے کام سے کی اورجب تک فعال رہے، یہی کام کیا۔ چھوٹی عمر ہی سے والدین کے علاوہ دادا، دادی، پردادی اور بھائی بہنوں کی کفالت کی ذمہ داری ان کے سر پر آگئی تھی۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں انہوں نے کسی طرح کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیشہ تگ و دو والی زندگی گزاری۔ عمر کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد بیماریوں سے ان کا بھی سابقہ پڑگیا ہے۔ ایک بیٹا ہے، جو بہوکےساتھ ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ بیماری سے حافظہ بھی متاثر ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود اخبار بینی کا شوق ہے۔ ہر اتوار کو کالم گوشہ ٔ بزرگاں پابندی سے پڑھتے ہیں۔
محمد انور کھوت نے روایتی تعلیم زیادہ حاصل نہیں کی ہے لیکن بھیونڈی کے تاریخی پس منظر سے خوب آگاہ ہیں ۔ انہوں نے ’گزشتہ بھیونڈی ‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس میں بھیونڈی کی قدیم تاریخ کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔ بھیونڈی شہر کے جغرافیائی حالات، آبادی، پیشہ اور ۲؍ اہم قوموں ، کوکنی مسلمان اور برہمنو ں کی سماجی، تعلیمی، ادبی اور اقتصادی احوال کا بڑی باریکی سے جائزہ لیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:’’۲؍دنوں میں ایک ہی گھر کے ۴؍بھائی بہنوں کی چیچک سے موت ہوگئی تھی‘‘
۱۹۷۰ء میں شیوجیتنی کے موقع بھیونڈی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسا د کو محمد انور نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ شیوجینتی کے موقع پر ہونے والے فساد سے بھیونڈی کے ہندئووں اور مسلمانوں، دونوں ہی کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔ فساد کے بعد ہونے والے نقصانات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ فساد کے بعد شہر میں ۱۲؍ سال تک شیوجیتنی، محرم اور عیدمیلاد النبیؐکے جلوس پر پابندی رہی۔
عمر کے اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے یادداشت پوری طرح سے ساتھ نہیں دے رہی ہے، اس کے باوجود ملک کی آزادی سے وابستہ ایک انوکھی بات وہ آج تک نہیں بھولے ہیں۔ ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کی آدھی رات کو بھیونڈی کی تحصیلدار آفس میں ہندوستانی پرچم لہرانے کیلئے ایک بڑا مجمع اکٹھا تھا لیکن اُس جگہ پر پہلے سے لگے انگریزی پرچم ’یونین جیک‘ کو ہٹانےکی جرأت کوئی نہیں کرپارہا تھا۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں بھیونڈی کے معروف شاعر شبیر احمد راہیؔ نے جذباتی ہوکر کہا تھا کہ اُتارو اس منحوس جھنڈے کو اور پھر خود ہی آگے بڑھ کر انہوں نے یونین جیک ہٹاکر ترنگا لہرادیا تھا۔
ملک کی آزادی کے۵۲۔ ۱۹۵۱ء میں پہلا جنرل الیکشن ہوا تھا۔ بھیونڈی سےمعروف فقیہ خانوادے سے تعلق رکھنے والے مصطفیٰ فقیہ کانگریس کے ٹکٹ پرکھڑے تھے جبکہ ان کے سامنے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر کامریڈ ابراہیم مدعو امیدوار تھے۔ اُس دنوں پورے ملک میں کانگریس پارٹی کی لہر تھی۔ اُس وقت کانگریس کی نشانی ۲؍ بیلوں کی جوڑی تھی۔ ایک ٹرک پر ۲؍بیل سوارکر کے الیکشن مہم چلائی گئی تھی۔ بھونپو کے ذریعے عوام سے کانگریس پارٹی کے اُمیدوار مصطفیٰ فقیہ کو ووٹ دینے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ کانگریس زندہ باد کے نعروں سے بھیونڈی شہر گونج رہا تھا۔ نتیجہ بھی ویسا ہی نکلا، مصطفیٰ فقیہ نے بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ شکست کے باوجود پتھروالی اسکول کے قریب ابراہیم مدعو کی جانب سے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا گیا تھاجس میں انہوں نے شکست کااعتراف کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہم دوبارہ الیکشن لڑیں گےاور کامیابی حاصل کریں گے۔
۱۹۵۷ءکی بات ہے، رئیس ہائی اسکول میں تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جلسے کی صدارت ممبئی کے ایجوکیشن آفیسر مدن موہن کالیا نے کی تھی۔ وہ اُردو زبان کےمداح تھے اور اُردو پڑھتےبھی تھے۔ اس دور میں پردے کی بڑی سختی تھی۔ اُس موقع پر رشیدہ مُلاّ ( مرحومہ رشیدہ قاضی )نے پردے کے پیچھے سے اپنی تقریر کی تھی جسے سن کر مدن موہن کالیا نے کہا تھا کہ’’ رشیدہ ملا نے جس خوبصورت اور سلیس انداز میں خالص اُردو زبان میں تقریر کی ہے، اسے سن کر ایسا محسوس ہو رہا تھاکہ پر دہ کے پیچھے سےخود اُردو زبان بول رہی ہو۔ ‘‘
انور کھوت جب رئیس ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے، اس دور میں اندرا گاندھی بھیونڈی آئی تھیں ۔ منڈئی، کمہار واڑہ میں ان کا جلسہ تھا۔ اسکول کی جانب سے طلبہ کو جلسے میں جانے کی ہدایت تھی۔ اپنی تقریر کے دوران اندرا گاندھی نےایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں اپنے والد پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ ایک مرتبہ ناگالینڈگئی تھی۔ وہاں ایک گائوں میں جانا تھا جہاں گاڑی جانےکی سہولت نہیں تھی۔ اسلئے ہم بیل گاڑی سے گئے تھے۔ وہاں قبائیلیوں کی بھیڑ لگ گئی تھیلیکن مزے کی بات یہ تھی کہ وہ لوگ ہمیں نہیں بلکہ بیل گاڑی اور اس کا پہیہ دیکھنے آئے تھے۔ ان لوگوں نے کسی گاڑی کا اُتنا بڑا پہیہ نہیں دیکھا تھا۔ اُس وقت وہ منظر دیکھ کربہت افسوس ہوا تھاکہ ہمارا ملک کتنا پیچھے ہے۔ ‘‘ وہ کہانی سناتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا تھا کہہمیں اپنے ملک کو بہت آگے تک لے جانا ہے۔
۱۹۵۲ءمیں رئیس ہائی اسکول کی سلور جبلی تقریب میں فلم اداکار دلیپ کمار اور نمی نے شرکت کی تھی۔ اس تقریب میں انور کھوت بھی موجود تھے۔ اس وقت نمی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’میری اُن تمام بہنوں سے گزارش ہے جو فلمی اداکارہ بننا چاہتی ہیں کہ اپنے دل سے یہ خیال نکال دیں، یہ اچھی بات نہیں ہے۔ نمی بننے کے بجائے آپ ذکیہ خطیب بنیں۔ ‘‘ خیال رہے کہ اس دور میں ذکیہ خطیب چھوٹےبچوں کا ایک اسکول چلا رہی تھیں ، بعد میں انہوں نے بزم نسواں تنظیم کی بنیادرکھی تھی۔
چوڑی محلہ اور اطراف کے علاقوں کے برادرا ن ِوطن سے انور کھوت کے داد ااور والدکے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ تعلق آج بھی برقرار ہے۔ دیوالی پر ان کے گھروں میں بنائی جانے والی مٹھائی بڑی پابندی سے انور کھوت کے گھر آتی ہے۔ دیوالی پر اُن کے گھروں سےمٹھائی اور چوڑا وغیرہ آتا ہے تو بھائی دوج پرہاتھوں سے بُنائی کی ہوئی ساڑی بطور تحفہ ہم ان کے گھروں کی خواتین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
انور کھوت کو فلم بینی کا بڑا شوق تھا۔ اپنے قریبی دوست عرفان فقیہ اور یونس اگاسکر کے ساتھ اکثر بھیونڈی ٹاکیز میں فلم دیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس دور میں بھیونڈی ٹاکیز کے عقبی حصے میں عورتوں کی نشست کا انتظام ہوتا تھا جہاں پردہ لگا رہتا تھا۔ فلم شروع ہونے پر، پردہ ہٹاد یا جاتا تاکہ عورتیں بھی فلم دیکھ سکیں۔ انٹرویل میں روشنی ہوتے ہی دوبارہ پردہ کھینچ دیا جاتا تھا۔ انٹرویل آدھےگھنٹہ کاہوتا تھا۔ اس دوران بعض مسلم خواتین ٹاکیز ہی میں نماز بھی پڑھا کرتی تھیں ۔ انٹرویل میں عورتیں اور لڑکیاں پاکستانی گولا کھاتی تھیں ۔ اُن دنوں پاکستانی گولا بہت مقبول تھا۔
اس دور میں بھیونڈی میں شادیاں بڑی سادگی سے ہوتی تھیں اور کم خر چ میں ہو جاتی تھیں ۔ شادی سے قبل ایک جماعت بٹھائی جاتی تھی جس میں برادری اور محلے کے ذمہ دار لوگ شریک ہوتے تھے۔ میٹنگ کے شرکاء کی شربت، بیڑی اور سگریٹ سے تواضع کی جاتی تھی۔ شادی کی ریت رواج پر بات چیت ہوتی۔ غربت کی وجہ سے چاندی کےزیور ات کاچلن تھا۔ جس کےپاس اس کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی، انہیں جماعت یا کوئی شخص اپنے گھر کے چاندی کے زیورات عارضی طور پر ایک دو دنوں کیلئے دے دیتاتھا تاکہ دلہے والے کی عزت پر حرف نہ آئے۔ لڑکے والے، لڑکی والوں کوبتادیتے تھےکہ جو زیور انہیں دیاگیاہے وہ دلہے والوں کا نہیں ہے۔ شادی کے بعد دلہن والے زیور لوٹا دیتے تھے تاکہ جس کا زیور ہے انہیں واپس کر دیا جا ئے۔ اس طرح لوگوں کی عزت قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔