• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’سائیکل سوار مغرب بعد گھر سے نکلتے تودونوں پہیوں پر روشنی کیلئے مٹی کے تیل کا چراغ روشن کرتے تھے‘‘

Updated: July 21, 2024, 5:06 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

فارس روڈ ، منگلی کندوری کے محمد ایوب انصاری نے اپنی زندگی میں کافی جدوجہد کی ہے، روزگار کیلئے متعدد کام کرنے کے بعد’ لیٹر پریس‘ کا کام سیکھا اور اسی پیشے سے ۹۰؍ سال کی عمر تک جڑے رہے، آج ان کی عمر ۱۰۱؍ سال ہوگئی ہے، پھربھی پوری طرح فعال ہیں۔

Muhammad Ayub Ansari Photo: INN
محمد ایوب انصاری۔ تصویر : آئی این این

دفتر کے ایک ساتھی نے گوشۂ بزرگاں کے تعلق سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ہمارے محلے کے ایک ۱۰۰؍ سالہ بزرگ بھی اپنی زندگی کے تجربات اس کالم کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کے خواہشمند ہیں۔ اگر کہیں تو ان کا موبائل نمبر دے دوں،ان سے بات کرلیں،یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ۱۰۰؍ سال کی عمر کے بزرگ موبائل کااستعمال کرتے ہیں۔ اتوار ۱۳؍ جولائی کی دوپہر ۳؍ بجے کالم نگار کے فون کرنے پر انہوں نے فون ریسیو کیا اور نہایت پُر جوش اندازمیں سلام کا جواب دیا۔ اسی روز شام ۴؍ بجے ان کی رہائش گاہ ،منگلی کندوری ،فارس روڈ پر ملنے کا وقت مقرر ہوا۔ انہوں نے کہاکہ منگلی کندوری میں گھر کے باہر بیٹھا ایک معمر شخص دکھائی دے گا، سمجھ لینا آپ کو اسی سے ملاقات کرنی ہے۔ طے شدہ وقت پر، مقررہ مقام پر پہنچ کر ایک عمررسیدہ شخص کو گھر کےباہر بیٹھا دیکھ کر راقم نے براہ راست انہیں سلام کیا۔ انہوں نے بھی فوری طور پر راقم کو پہچان لیا اور کہا کہ میں آپ ہی کا منتظر تھا۔ یہ کہتے ہوئے جس تیزی سے وہ کھڑے ہوئے ، ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ۱۰۰؍ برس کے ہیں۔ کہا چلئے گھر میں بیٹھ کر اطمینان سے بات چیت کرتے ہیں۔ ہم نےان سے ایک گھنٹہ ۲۰؍ منٹ تفصیلی اور دلچسپ گفتگو کی۔
 اُترپردیش کے صدر مقام لکھنؤ کے امیٹھی گائوں کے قاضیانہ محلہ میں یکم جون ۱۹۲۴ء کو پیدا ہونے والے انصاری محمد ایوب عبدالحمید کو پیدائش کے کچھ دنوں بعد والدین ممبئی لے آئے تھے۔ ابتدائی تعلیم یتیم خانہ ومدرسہ انجمن خیرالاسلام ، مدنپورہ سے حاصل کی بعدازیں پتھروالی اسکول مورلینڈروڈ سے چھٹی جماعت پاس کیا۔اسی دوران اچانک کچھ ہی عرصہ میں والدین کی موت ہوجانے سے پڑھائی کا سلسلہ رک گیا۔ عملی زندگی میں متعدد قسم کے کام مثلاً دری بنانے میں استعمال ہونے والا دھاگےکے کارخانہ کے علاوہ لوہے کی پیٹی بنانے کا کام کیا۔ بعدازیں لیٹر پریس کا کام سیکھا اور اسی پیشے سے ۹۰؍ سال کی عمر تک جڑے رہے۔ اس دوران دمام ،سعودی عرب میں بھی لیٹر پریس کا کام کیا۔ رواں ۱۰۱؍ سال کی عمر میں بھی وہ فعال ہیں۔ اپنا سارا کام خود کرتے ہیں۔ گھر سے مسجد نماز ادا کرنے جاتے ہیں۔صحت سے پوری طرح چاق و چوبند ہیں۔ یادداشت بھی بہت اچھی ہے۔ اپنی گفتگو میں مزاح کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ گفت و شنید میں ممبئی کی عام بول چال کا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ جسما نی کاٹھ اور صحت سے ان کی پیرانہ سالی کاکہیں سے احساس نہیں ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’وزیراعظم جواہر لال نہرو کھڑے ہوئے تو پورا مجمع احتراماً کھڑا ہوگیا‘‘

محمد ایوب نے۳۰ء اور ۴۰ء کی دہائیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اس وقت بجلی نہیں تھی۔ لوگ گھروں میں مٹی کے تیل کا چراغ اور لالٹین جلا کر زندگی بسرکرتے تھے۔ رات کے وقت اندھیرے میں راستوں سے گزرنے اور عمارتوں میں جانےکیلئے ایورریڈی کمپنی کے ٹارچ کا استعمال عام تھا۔ اس دور میں موٹرگاڑیاں بھی کم تھیں۔ بیشتر لوگ آمدورفت کیلئے سائیکل کا استعمال کرتے تھے۔ سائیکل سواروں کیلئے مغرب کے بعد سائیکل کے اگلی اور پچھلےپہیے پر روشنی کیلئے مٹی کے تیل کا چراغ روشن کرنا ضروری تھا تاکہ اندھیرے میں راستہ دکھائی دے ورنہ حادثہ ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ جو لوگ بغیر روشنی کی سہولت کے سائیکل چلاتے تھے ، پولیس انہیں روک کر ان کی سائیکل کے دونوں پہیوں کی ہوا نکال دیتی تھی تاکہ وہ آگے کا سفر نہ کرسکیں۔ اس کےباوجود اگر کوئی سائیکل سوار ان سے بحث کرتا تھا تو اسے پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا تھا اور اس کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی۔
 محمد ایوب بچپن میں ممبئی آئے تو پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے ،لیکن زندگی کے معمول پر آنے کے بعد ایک وقت ایساآیا،جب انہیں اپنی زمین کی یاد ستانے لگی۔ وہ ایک مرتبہ اپنے آبائی وطن جا کر عزیز و اقارب سے ملناچاہتے تھے۔ ممبئی میں مقیم اپنےگائوں کے قریب کے ۲؍ لوگوں سے التجا کی تھی کہ جب کبھی گائوں جانا تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے لینا ، ان دونوں نے وعدہ بھی کیا تھا لیکن وہ اپنا وعدہ نبھا نہیں سکے۔ بعدازیں ان کی دوستی سینٹرل ریلوے کے سید صاحب نامی آفیسرسے ہوگئی۔ وہ بھی ان کے گائوں کےقریب ہی کے تھے۔ ان کے ساتھ ۵۰؍ سال بعد جب وہ اپنے گائوں امیٹھی پہنچے تو پورا گائوں بدلا ہوا تھا۔ بس اڈہ پر اُتر کر قریب بیٹھے چند نوجوانوں سے اپنے بزرگوں کا نام بتا کر پتہ پوچھا ، سب نے کہا ، ہمیں نہیں معلوم ہے ، یہ کہتے ہوئے انہوں نےسامنے واقع ایک کپڑے کی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جاکر معلوم کریں، اس دکان کے مالک نے پہلے ہماری خاطر مدارت کی ،پھرپوچھا کیا چاہتے ہیں۔ محمدایوب نے اپنے نانا اور دادا کا نام بتایا ، دکاندار نے کہا کہ دونوں اس دنیامیں نہیں رہے۔ اب بتائو کہ تمہیں کہاں جانا ہے ، جس پر محمد ایوب نے بتایا کہ میرا گھر تالاب کے قریب ہے ، یہ سنتے ہی دکاندار نے اپنے معاون کو بلاکر کہکہا انہیں ہوٹل والے خالد کے پاس لے جائو، وہ ہمیں خالدکی ہوٹل پر لے گیا، جہاں محمد ایوب کے ماموں، جو اَب اس دنیا میں نہیں ہیں، ان کابیٹا آیا، اس نے کہا کہ میں نے آپ کو نہیں پہچانا ، جس پر محمد ایوب نے انہیں ساری تفصیل بتائی۔اس کے بعد اس نے کہا کہ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے، تم میرے ماموں یعقوب کے بیٹے ہو۔ تمہاری شکل ماموں سے مل رہی ہے۔ میں ممبئی سے آیاہوں میرا نام ایوب ہے، یہ سنتے ہی ماموں کا بیٹا محمد ایوب سے بغلگیر ہو کر اس قدر رویا کہ ایوب انصاری کا کاندھا آنسو سے تر ہوگیا۔ ۵۰؍ سال بعد خانوادہ کے چشم و چراغ سے ہونے والی جذباتی ملاقات محمد ایوب نہیں بھولتے ہیں۔ 
 محمد ایوب انصاری کی نوجوانی کے دور میں شادی صرف ۲؍ خاندان کےفیصلوں پر نہیں ہوا کرتی تھی۔ شادی کرنے سے قبل محلے والوں سے بھی مشورہ لیا جاتا تھا۔ شادی طے ہونے کے بعد دونوں خاندان کی طرف سے ایک میٹنگ رکھی جاتی تھی ،جس میں برادری اور محلے والے شریک ہوتے تھے۔ شرکاء دونوں خاندان کے سربراہ سے دریافت کرتے تھے کہ ہمیں کیوں یاد کیا گیا ہے ؟ جس پر لڑکے اور لڑکی والے بتاتے تھے کہ ہمارے بیٹے اور بیٹی کی شادی طے ہوئی ہے۔ ایسی صور ت میں فریقین کے قریبی رشتے دار جو میٹنگ میں غیر حاضر ہوتے ،ان کے بارے میں جماعت کی طرف سے سوال کیا جاتا کہ وہ میٹنگ میں کیوں نہیں آئے ہیں ؟ کیا آپ لوگوں کی ان سے بات چیت بند ہے یا کوئی تنازع ہے۔ جب تک اس کاتشفی بخش جواب نہیں ملتا ، جماعت کی کارروائی یہیں روک دی جاتی۔ جماعت میں سے فریقین کے ۲۔۲؍ اراکین کو معاملہ کا تصفیہ کرنےکی ذمہ داری دی جاتی۔ غیر حاضررہنےوالے متعلقین کو بلا کر صلح صفائی ہونے کے بعد ہی شادی کی آگے کی کارروائی پوری کی جاتی تھی۔ 
 آزادی سے قبل مدنپورہ، آگری پاڑہ اور اطراف کے علاقوں کے مریضوں کے علاج کیلئے جھولامیدان کے قریب واحد مکتی فوج دواخانہ تھا۔ یہیں سے مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اگر ایک دن میں کسی ایک مرض کے ۱۵۔۱۰؍ مریض آجاتے تو اس مرض کی تشخیص کیلئے خصوصی مہم شروع کی جاتی۔مثلاً ایک دن میں اگر دست کے ۱۵؍ مریض آجاتے تو دوسرے دن پورے علاقے کے لوگوں کو ٹیکہ لگانے کی کارروائی شروع کردی تاکہ مرض بڑھے نہیں۔ 
 محمد ایوب انصاری نے تحریک آزادی کو بھی بہت قریب سے دیکھا ہے۔ چوپاٹی کے ولسن کالج کے سامنے وسیع اسٹیج بنایا جاتا تھا، جہاں سے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑکر جانے کا پیغام دیا گیا تھا۔ وہیں پر محمد ایوب انصاری نے مہاتما گاندھی، محمد علی جناح، ولبھ بھائی پٹیل اور مراجی دیسائی کو دیکھا تھا اور انہیں سنا بھی تھا۔
 انگریزوں کے دور میں ممبئی کی ہوٹلوں کیلئے بڑا سخت نظم تھا۔ شہری انتظامیہ کے افسران اکثر ہوٹلوں کا دورہ کرکے صفائی کے ساتھ پانی کا گلاس،چائے کاکپ اور دیگر برتنوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے تھے۔ پانی کی جانچ کے علاوہ گلاس کی صفائی ، گلاس کے پچھلے حصہ کابھی معائنہ کرتے تھے ، گلاس کے ساتھ چائے کا کپ اور اس کی ڈنڈی کی جانچ کرتے تھے، گلاس اور کپ کی صفائی برش سے کی گئی ہے یا نہیں، اس کی جانچ کرتےتھے۔ چائے کی مقدار چیک کرتے تھے۔ شکایت ملنے پر سخت کارروائی کی جاتی تھی لیکن افسوس کہ آج وہ بات نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK