• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’میں اسماعیل یوسف کالج کے’میس‘ کا سیکریٹری تھا،اسلئےاکثر قادر خان سےملاقات ہوتی تھی‘‘

Updated: July 28, 2024, 4:55 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی کی معروف سماجی اور تعلیمی شخصیت محمد حسن خلیل احمد کی پیدائش ۱۹۳۴ء میں ہوئی تھی۔ انہیں بچپن ہی سے کرکٹ کا شوق تھا، بعد میں دلیپ سردیسائی، رما کانت دیسائی، اجیت واڈیکر،سلیم درانی اور فرخ انجینئر جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنےکا شرف بھی ملا۔

Muhammad Hasan Khalil Ahmed aka Chanu Lala. Photo: INN
محمد حسن خلیل احمد عرف چھنو لالہ۔ تصویر : آئی این این

ہراتوار کوپابندی سے گوشۂ بزرگاں کالم پڑھنے والے قارئین میں سے ایک بھیونڈی کے عبدالملک مومن بھی ہیں۔ کالم سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گوشہ ٔ بزرگاں کے چند کالم میں ان کا تعاون شامل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بھیونڈی کی معروف سماجی اورمعاشی شخصیت محمد حسن خلیل احمد عرف چھنولالہ کےتعلق سے کہا کہ انہیں بھی کالم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان کی درخواست پر محمد حسن خلیل احمد سے ان کے دولت کدے (بنگال پورہ) پرملا قات کی گئی۔ وہ نہایت ہی خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ دوران گفتگو انہوں نے اپنے بچپن، اسکول، کالج اور کرکٹ کھیلنے کے شوق سے متعلق کئی اہم باتیں بتائیں ۔ 
 محمد حسن خلیل احمد کی پیدائش ۱۹۳۴ء میں بھیونڈی میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول نمبر۲۰؍ بنگال پورہ ا ور پتھر والی اسکول منڈئی سے حاصل کی۔ چہارم جماعت کامیاب کرنے کے بعد انہوں نے رئیس ہائی اسکول بھیونڈی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے۱۹۵۴ء میں میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ چونکہ اُس وقت بھیونڈی، مالیگاؤں اور رتناگیری میں اعلیٰ تعلیم کیلئے کوئی معقول سہولت دستیاب نہیں تھی، اس لئے ان اضلاع کے طلبہ اسماعیل یوسف کالج جوگیشوری ممبئی میں داخلہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے ۱۹۵۸ء میں بی ایس سی (آنرز) کی سند حاصل کی۔ گریجویشن کرنےکےبعد کاروبار سے منسلک ہوئے اورآج ۹۰؍سال کی عمر میں بھی ان کی کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں۔ ان کا بچپن نہایت تنگدستی میں گزرا۔ اس کے باوجود انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 
 عمر کے اس منزل تک پہنچنے کے بعد بھی چھنو لالہ (لالہ بھائی) پوری طرح سے چاق و چوبند ہیں اور اپنا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ سماجی امور میں بھی اسی سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں جس طرح اپنا کاروبار سنبھالتے ہیں ۔ آپ شہر کے سب سے قدیم تعلیمی ادارے کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے علاوہ بھیونڈ ویورس ایجوکیشن سوسائٹی بھیونڈی، انجمن اسلام ممبئی اور اسلام جمخانہ کے بھی رکن ہیں۔ ان کے علاوہ کئی صنعتی اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر مومن محی الدین کی معرکۃ الآرا تصنیف ’مومن انصاری برادری کی تہذیبی تاریخ‘ انہی کی ایماء پر منظر عام پر آئی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’سائیکل سوار مغرب بعد گھر سے نکلتے تودونوں پہیوں پر روشنی کیلئے مٹی کے تیل کا چراغ روشن کرتے تھے‘‘

اسماعیل یوسف کالج میں تعلیم کے دوران مشہور محقق اور تاریخ داں ڈاکٹر مومن محی الدین نے محمد حسن خلیل احمد کی بڑی مدد کی تھی اور ان کا حوصلہ بڑھایاتھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہی ان کا داخلہ بھی کالج میں کروایا تھا۔ اُس وقت ان کے ساتھ معروف فلم اداکار قادر خان بھی اسی کالج میں (سائنس فیکلٹی) پڑھا کرتے تھے۔ ماضی کی فلم اداکارہ عذرا (گنگا جمنا اور مدر انڈیا فیم) بھی اسی کالج میں آرٹس فیکلٹی میں پڑھ رہی تھیں ۔ محمد حسن خلیل احمد کالج کے ہاسٹل ’میس‘ کے سیکریٹری بھی تھے۔ اس وجہ سے اکثر قادر خان سے’ میس‘ میں ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ کالج چھوڑنے کے برسوں بعد ایک روز محمد حسن خلیل کہیں سے بھیونڈی لوٹ رہے تھے، اچانک ایک کار تیزی سے گزری اور آگے جاکر ان کی کار کے آگے رک گئی۔ اس میں سے قادر خان نکلے اور آواز دی ’’ارے لالہ کہاں جا رہے ہو ؟ چلو اسٹوڈیو چلیں ، وہاں ساتھ کھانا کھاتے ہیں ‘‘ لالہ بھائی چونکہ جلدی میں تھے، اسلئے ان سے معذرت چاہی، لیکن کافی دنوں بعد ایک دوسرے سے مل کر انہیں جوخوشی ملی تھی، وہ آج بھی اس مسرت کو محسوس کرتے ہیں ۔ 
 محمد حسن خلیل احمد کالج کے دنوں کو یاد کر کے اب بھی خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ کالج ہاسٹل میں مستری نامی باورچی کے ہاتھوں بنائی جانے والی بریانی کی لذت وہ ا بھی تک نہیں بھولے ہیں۔ اسی طرح عبداللہ بھائی جو ہاسٹل میں کینٹین چلایا کرتے تھے، بچوں سے ان کی محبت اور شفقت مثالی تھی۔ عبداللہ بھائی کی پیاری شخصیت سے وہ بے انتہا متاثر ہیں ۔ 
 اسکول کے زمانے ہی سے محمد حسن خلیل احمد بہترین کرکٹ کھلاڑی تھے، اسلئے اسکول کے پرنسپل کبیر خان انہیں بہت مانتے تھے۔ اسماعیل یوسف کالج میں بھی وہ بہترین کرکٹ کھلاڑی کی حیثیت سےمشہور تھے اور کرکٹ ٹیم کے کیپٹن تھے۔ انہیں دلیپ سردیسائی، رما کانت دیسائی، اجیت واڈیکر، سلیم درانی اور فرخ انجینئر جیسے مایہ ناز اورزمانہ ساز کرکٹروں کےساتھ کھیلنے کاشرف حاصل رہاہے۔ اس دور میں کالج کی سطح پر ہی کھلاڑیوں کا سلیکشن ہو جاتا تھا۔ محمد حسن خلیل کے ایک ساتھی حاتم ابراہیم کا سلیکشن یونیورسٹی سطح پر ہوا تھا۔ اس زمانے میں قومی سطح پر کرکٹ کھلاڑیوں کے انتخاب کی ذمہ داری شری مادھو منتری (سنیل گائوسکر کے ماموں )کی تھی۔ وہ ممبئی سے ۵؍ کھلاڑیوں کو چن لیا کرتے تھے، باقی کھلاڑیوں کا انتخاب دوسرے علاقوں سے کیا کرتے تھے۔ 
 اس دور میں بھی اسلام جمخانہ کا ممبر بننا قابل رشک سمجھا جاتا تھا، چونکہ محمد حسن خلیل اسلام جمخانہ کا ممبر بننا چاہتے تھے، اسلئے ایک روز علی الصباح ممبرشپ فارم حاصل کرنے کیلئے اسلام جمخانہ میں قطار لگائی تھی لیکن وہاں موجود لوگوں نے انہیں قطار کے آخری سرے میں دھکیل دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں فارم نہیں مل سکا اور ممبر شپ حاصل کرنے سے محروم رہ گئے لیکن انہیں بہرصورت ممبر بننا تھا، چنانچہ انہوں نے اس دور میں اپنے کارخانہ کابھنگار۲؍ہزار روپے میں فروخت کر کےاسلام جمخانہ کے کسی ممبرکی رکنیت کو اپنے نام منتقل کرالیاتھا۔ آج صرف ممبرشپ منتقل کرنے کا ڈیڑھ سےدو لاکھ روپے لگتا ہے اور نئی ممبرشپ کیلئے تقریباً ۲۵؍ لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ اسلام جمخانہ کا ممبر ہونے کی وجہ سے انہیں کرکٹ مقابلوں کے پاس اب بھی آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب محمد حسن خلیل اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسلام جمخانہ میں کرکٹ کھیلنے جایا کرتے تھے تو وہاں کے لوگ ’’گائوں کے لوگ اتنا اچھا کیسے کھیل لیتے ہیں ؟‘‘ یہ کہہ کر ان کا مذاق اُڑاتے تھے۔ 
 ۵۰ ء کی دہائی میں بھیونڈی میں بڑی غربت تھی۔ شہر کی آبادی بمشکل ۳۵ ؍ ہزار رہی ہوگی۔ بنگال پورہ میں عبدالحق پنجابی اور حاجی عبدالصمد لعل محمد مومن کے پاور لوم کے بڑے کارخانے تھے۔ اس وقت ایک آدمی صرف ایک لوم چلایا کرتا تھا اور اسی سے اپنے خاندان کی کفالت کیا کرتا تھا۔ حاجی عبدالصمد لعل محمد مومن عرف صمد سیٹھ اور عبدالحفیظ حافظ محمد حسین مومن نے انہیں کارو بار سے روشناس کرایا تھا، جس کی وجہ سے وہ آج ایک کامیاب صنعت کار ہیں۔ 
 ۱۹۷۰ءکے قریب پاور لوم پر گورنمنٹ نے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے پاورلوم والوں کو سود( یارن ) دینا شروع کیاتھا جس کی وجہ سے شہر میں متعدد پاور لوم اونرس اسوسی ایشن کا رجسٹریشن عمل میں آیا تھا۔ بنگال پورہ بھیونڈی میں بھی سماج وادی پاور لوم اونرس اسو سی ایشن چھنو لالہ اور ان کے رفقاء کے ذریعہ قائم ہوئی تھی۔ کوٹہ سسٹم نافذ ہونے سے بھیونڈی کے متعدد چھوٹے بڑے پاورلوم بند ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان پاورلو م کی جگہیں خالی پڑی تھیں۔ انہی حالات میں ، ایک روز لالہ سیٹھ، یحییٰ بشیر مومن، محی الدین بارہ دری اور عبداللطیف ماما آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ اس وقت چھنو لالہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارے شہر میں ایک ہی اسکول ہے اور شہر کی آبادی نیز طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کیوں نہ ہمارے جو کارخانے نے بند ہیں، انہیں میں سے کسی ایک جگہ پر اسکول شروع کیا جائے۔ یہ تجویز سب کو پسند آئی۔ ان لوگوں نے پھر اپنے بزرگ صدیق عبدالباری مومن، یوسف حسن مومن، سکندر انصاری، ایوب مومن (ایوب سیٹھ)، مشتاق جناب (رسواؔ) کے سامنے یہ تجویز رکھی۔ ان لوگوں کو بھی یہ تجویز پسند آئی۔ اس کے بعد صدیق عبدالباری مومن کے اصرار پر عبدالشکور لعل محمد مومن نے بنگال پورہ کی خالی عمارت میں اسکول قائم کرنے کی اجازت دے دی جس میں ۱۹۷۴ء میں بھیونڈی ویورس ہائی اسکول ( موجودہ صمدیہ ہائی اسکول)کی بنیاد پڑی۔ فی الحال اس عمارت میں سکینہ پری پرائمری اسکول جاری ہے۔ 
بہ تعاون: عبدالملک مومن

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK