نیرل میں مقیم میں مدنپورہ کے محمدہاشم شعبان انصاری ایک معروف آرٹسٹ ہیں۔ ۸۲؍ سال کی عمر میں بھی وہ پوری طرح سے چاق و چوبند اور فعال ہیں اور اپنے دوستوں سےملاقات کیلئے روزانہ ۲؍گھنٹے کی مسافت طے کرکے نیرل سے مدنپورہ آتےہیں۔
EPAPER
Updated: June 10, 2024, 5:10 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
نیرل میں مقیم میں مدنپورہ کے محمدہاشم شعبان انصاری ایک معروف آرٹسٹ ہیں۔ ۸۲؍ سال کی عمر میں بھی وہ پوری طرح سے چاق و چوبند اور فعال ہیں اور اپنے دوستوں سےملاقات کیلئے روزانہ ۲؍گھنٹے کی مسافت طے کرکے نیرل سے مدنپورہ آتےہیں۔
ممبرا کی معروف بزرگ سماجی شخصیت اور آرٹسٹ عبدالرحیم انصاری نے گزشتہ دنوں فون کرکے حال احوال دریافت کیا اور پھر گوشہ بزرگاں کالم کیلئے نیک خواہشات کا اظہارکرتےہوئے کہاکہ میرے ایک ساتھی فنکار جو کسی زمانےمیں مدنپورہ میں رہائش پزیر تھے، ان دنوں نیرل میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہےکہ انہیں بھی کالم میں جگہ دی جائے۔ اگر کہیں تومیں، اس ضمن میں ان سے بات کرلوں۔ اثبات میں جواب ملنے پر انہوں نے اپنے ۸۲؍سالہ ساتھی محمدہاشم شعبان انصاری کا موبائل نمبر ارسال فرمایا۔ ہاشم انصاری سے موبائل پرہونے والی مختصر گفتگو انتہائی خوشگوار رہی۔ ان کی صبح روزانہ ’انقلاب‘ سے ہوتی ہے۔ وہ اتوار کو انقلاب کے دیگر مشمولات کے ساتھ گوشۂ بزرگاں بھی پابندی سے پڑھتے ہیں۔ رسمی بات چیت کےبعد انہوں نے بھی اپنےتجربات اور مشاہدات کو اس کالم میں شائع کرنےکی درخواست کی۔ ان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس عمر میں بھی وہ پوری طرح سے فعال ہیں اور اپنے دوست و احباب سےملاقات کیلئے روزانہ ۲؍گھنٹہ کی مسافت طے کرکے نیرل سے مدنپورہ آتےہیں اور شام میں واپس چلے جاتےہیں۔
جمعرات ۶؍جون ۲۰۲۴ءکو صبح ۱۱؍بجکر ۲۷؍منٹ پر اُن کا کال موصول ہوا۔ بتانے لگے کہ میں نیرل سے بائیکلہ کیلئے روانہ ہو چکا ہوں، تقریباً ۲؍گھنٹے میں مدنپورہ پہنچ کر کال کرتاہوں۔ دوپہر ڈیڑھ بجے مدنپورہ پہنچ کر انہوں نے فون کیا۔ شدید گرمی میں انہیں ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھڑی سنبھالے آتے ہوئے دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ نیرل سے ممبئی آنا جہاں ایک دشوارکن مرحلہ ہے وہیں تیزدھوپ میں چھڑی کی مدد سے چل کربائیکلہ سے مدنپورہ آنا بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے۔ کچھ دیر اطمینان سے بیٹھنےکےبعد ہم نے تقریباً ایک گھنٹے تک گفت وشنیدکی جو انتہائی کارآمد رہی۔
مورلینڈروڈ، الاناہال کے سامنےواقع سوتر والا چال میں جون ۱۹۴۱ء میں محمد ہاشم انصاری کی پیدائش ہوئی تھی۔ پتھروالی اور مدنپورہ نائٹ ہائی اسکول( مورلینڈروڈ) سے ۹؍ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ گھرکےنامساعد حالات کی وجہ سے آگے کی پڑھائی نہیں کرسکے۔ اسکول کے زمانے ہی سے انہیں ڈرائنگ بنانے کابڑا شوق رہا ہے۔ محمد ہاشم اور ان کے ایک دوست منان دونوں ہی ڈرائنگ بنانےمیں ماہر تھے۔ ڈرائنگ کے امتحان کےموقع پر یہ دونوں پوری جماعت کے طلبہ کی ڈرائنگ بناتے تھے جس کی وجہ سے سبھی طلبہ کو ڈرائنگ میں اچھے مارکس ملتے تھے۔ اسکول چھوڑنے کےبعد محمد ہاشم نے اپنے اسی شوق کو ذریعہ معاش بنالیا۔ مدنپورہ میں کینرہ آرٹ نامی ایک دکان میں ملازمت اختیار کی۔ اس دور میں ’افغان اسنو‘ کے اشتہارات ہر گلی محلے میں لگتے تھے۔ وہاں رہ کر انہوں نے اس کی ہورڈنگ وغیرہ بنائی تھی۔
محمد ہاشم کو فٹ بال اور باسکٹ بال کھیلنے کا شروع سے شوق تھا۔ اس لئے ان کے تعلقات ان کھیلوں کے اس دور کےمعروف کھلاڑیوں سے بھی تھا۔ یہ ۶۰ءکی دہائی کی بات ہے، مستان تالاب ( ناگپاڑہ) کے بچو بھائی باسکٹ بال گرائونڈ کے نگراں اقبال بھائی نے ہاشم انصاری سے کہاکہ تم ایک اچھے آرٹسٹ ہو، ہمارے باسکٹ بال گرائونڈ کی زمین پر گول وغیرہ کرنےکیلئے جونشانات اور علامات بنانےہیں، وہ بنادیں۔ محمدہاشم گرائونڈ میں کام کررہےتھے۔ دریں اثنا ایک شخص آکر کہنے لگا کہ تمہارے پاس پاسپورٹ ہے ؟ اچانک اس سوال پر وہ حیران ہوگئے، کہانہیں میر ے پاس پاسپورٹ نہیں ہے، لیکن آپ یہ سوال کیوں پوچھ رہےہیں ، جس پر اس شخص نے سامنے واقع بلڈنگ کی کھڑکی جانب اشارہ کرتےہوئے کہاکہ دیکھو، وہ عربی گزشتہ ایک گھنٹے سے تمہاری فنکاری دیکھ رہاہے، اسے تمہارا کام بہت پسند آیاہے، وہ تمہیں ملازمت کیلئے سعودی عرب لے جانا چاہتاہے۔ یہ سن کر ہاشم انصاری نےکہاکہ میں ممبئی میں ٹھیک ہوں، ضرورت کے مطابق مجھے روزی مل جاتی ہے۔ میں کام کیلئے سعودی عرب نہیں جاناچاہتا۔ یہ کہہ کر انہوں نے سعودی عرب جانے سے منع کردیا۔
نوجوانی کے دور میں ہاشم انصاری اپنے دوستوں کے ہمراہ وائی ایم سی اے گرائونڈ (ممبئی سینٹرل) پر ہری جے رام کی چال، مدنپورہ کے معروف فٹ بال کوچ آمین بھائی کی رہنمائی میں فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن ایک ساتھی کھلاڑی نے ان کے کھیل کو برابھلاکہہ دیا۔ جس پر انہیں بہت غصہ آیا۔ طیش میں آکر انہوں نے اس کے منہ پر ایک زوردارمکا رسید کردیا، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے جبڑے سے خون بہنے لگا بلکہ خود محمد ہاشم کے دائیں ہاتھ کےپنجے کی ایک انگلی کی ہڈی کھسک گئی، جو اَب بھی غیر متوازن ہے اور تقریباً ۶۰؍ سال سے زیادہ کاعرصہ گزرجانےکےباوجود بھی اس انگلی میں درد ہوتاہے۔
یہ اس دورکی بات ہے جب ممبئی میں بجلی نہیں تھی۔ سڑکوں پراور متمول گھرانوں میں گیس کے ذریعےروشنی کی جاتی تھی۔ بجلی نہ ہونے سےبیشتر گھروں میں مغرب بعد ’دیئے‘جلائےجاتےتھے۔ گرمیوں میں مرد حضرات گھر سے باہر فٹ پاتھ پر چٹائی بچھاکر رات گزارتے تھے۔ محمد ہاشم اپنے والداوربھائیوں کےساتھ مورلینڈروڈ کے فٹ پاتھ پر برسوں تک چٹائی بچھاکر سوئے ہیں۔ وہاں سونےکیلئے لوگ آپس میں جھگڑا کرتےتھے۔ اگرکسی کی جگہ پرکوئی اورسوجاتاتو اس کیلئے جھگڑا ہوتا تھا۔ گرمی میں بغیر پنکھے کے گھرمیں سونا محال تھا۔ بجلی آنےپر سب سے پہلے راستوں پرکھمبے لگاکر روشنی کا انتظام کیاگیا۔ بعدمیں گھروں میں بجلی پہنچائی گئی۔ ہاشم انصاری کے والد نے بجلی آنے پر بڑی مشکل سے ایک پنکھا خرید کرگھر میں لگایا تھا۔ پنکھا لگنےسے ملنے والی خوشی کااندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ پنکھا لگنے کےبعد ہاشم انصاری اور ان کے متعلقین نے فٹ پاتھ پر سونا بندکر دیا تھا۔
ایک مرتبہ سانتاکروز کی ایک جین مندر میں گجراتی زبان میں انہیں کچھ لکھنے کا کام ملا۔ وہاں کے ٹرسٹیوں نے کہا کہ ہم آپ سے کام کروانا چاہتےہیں لیکن آپ کومندرمیں کام کےدوران ہمارالباس، مخصوص رنگ کا دھوتی اور ہاف کرتا پہنناہوگا۔ ہاشم انصاری نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیااورکہاکہ میں کام ضرور کروں گالیکن یہ شرط نہیں مانوں گا۔ بعد میں انہوں نے اپنی شرطوں پر وہاں کام کیا۔ انہوں نےمندر میں ایک عجیب اور نئی چیز دیکھی، مندر میں بندوق بردار سیکوریٹی اہلکار تعینات تھے۔ اس بارےمیں پوچھنے پر پجاری نےبتایاکہ مورتیوں کی آنکھیں دیکھ لوسب سمجھ میں آجائے گا۔ ان مورتیوں کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ پجاری نے بتایاکہ یہ چمکتی آنکھیں نہیں بلکہ اصلی ہیرےہیں۔ اسلئے ۲۴؍گھنٹہ سیکوریٹی تعینات رہتی ہیں۔
۷۵۔ ۱۹۷۴ءمیں چرچ گیٹ پر واقع وانکھیڈے اسٹیڈیم بنایا گیا تھا۔ اس وقت اسٹیڈیم میں اسکور بورڈ، مختلف اسٹینڈزاور پویلین وغیرہ کے نام لکھنے کا کام محمد ہاشم انصاری کوملاتھا۔ یہاں پہلا میچ ہندوستان اور ویسٹ انڈیزکےدرمیان کھیلاجانےوالا تھا۔ میچ شروع ہونے سے ایک دن پہلے تک محمد ہاشم انصاری یہاں کام کر رہےتھے۔ خود ایس کے وانکھیڈے نے آکر ہاشم انصاری سےکہاتھاکہ کل سے میچ شروع ہونے والاہے، اگر تمہارا کام مکمل نہیں ہواتو بڑی بے عزتی ہوگی جس پر ہاشم انصاری نے انہیں یقین دلایاتھاکہ میں ہرحال میں میچ شروع ہونے سے قبل اپنا کام مکمل کرلوں گا۔ اس کے بعدانہوں نےدیررات تک کام کرکے اپنا کام مکمل کرلیاتھا جس پر وانکھیڈے نے ان کی ستائش کی تھی۔ مذکورہ میچ بھی انہوں نے یہاں دیکھاتھا۔ اس میچ میں ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیولائیڈنے دُہرہ سیکڑہ لگایاتھا۔ خوشی کے عالم میں ان کے متعدد مداح گرائونڈ میں داخل ہوکر انہیں مبارکباد پیش کرنے پہنچ گئے تھے جن کی پولیس اہلکاروں نے خوب پٹائی کی تھی۔ اس کی وجہ سے کچھ مداح وہیں میدان میں بے ہوش ہوگئےتھے۔ یہ منظر دیکھ کر کلائیولائیڈ کو بہت تکلیف ہوئی تھی، اسلئے انہوں نے پولیس اہلکاروں کو ڈانٹا بھی تھا۔
۱۹۶۷ء میں ریلیز ہونے والی میناکماری اور دھرمیندر کی فلم ’چندن کا پالنا‘کی شوٹنگ باندرہ کے محبوب اسٹوڈیومیں رات ۱۲؍بجےہورہی تھی جس میں دھرمیندر اور مینا کماری کے ساتھ ممتاز بھی تھیں۔ فلم کی شوٹنگ دیکھنے کیلئے محمد ہاشم بھی اپنے ایک دوست وہاں گئے تھے۔ ‘‘