• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ شکرنہیں ملتی تھی، اس کی وجہ سے میٹھی گولی سے چائے بنائی جاتی تھی‘‘

Updated: August 12, 2024, 4:25 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی ،بنگال پورہ کے۹۶؍سالہ محمد صدیق نذیر مومن۵؍ سال تک میونسپل کونسل میں کونسلر اور۱۰؍ سال تک اسکول بورڈ کے رکن رہے، اس دوران انہوں نے ’اینٹی کرپشن‘ والے کے نام سے کافی شہرت پائی تھی، ۹۲؍ سال کی عمر تک پوری طرح سے فعال رہے۔

Muhammad Siddique Nazir Momin. Photo: INN
محمد صدیق نذیر مومن۔ تصویر : آئی این این

گوشۂ بزرگاں کالم کا پابندی سے مطالعہ کرنے والے بھیونڈی کے عبدالملک مومن نے گزشتہ دنوں فون پر بنگال پورہ کے ۹۶؍ سالہ عمررسیدہ محمد صدیق نذیر مومن کے بارے میں مختصر معلومات فراہم کرتے ہوئے ان کے تجربات اور مشاہدات کو کالم میں شائع کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے ہی محمد صدیق کے اہل خانہ سے ملاقات کا وقت متعین کیا۔ جس کے مطابق اتوار۴؍اگست کو ہماری ملاقات ہوئی۔ تقریباً سوا گھنٹے ہونے والی ہماری گفتگو انتہائی کارآمد رہی۔ 
 محمد صدیق محمد نذیر مومن کی پیدائش ۱۹۲۸ء میں بنگال پورہ، بھیونڈی میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم پتھر اسکول اور ساتویں تک کی پڑھائی رئیس اسکول سے حاصل کی۔ غربت کی وجہ سے آگے کی پڑھائی نہیں کر سکے۔ پڑھائی کے دور ان ہی ہینڈلوم کا کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ۵۰؍ سال تک اس پیشے سے منسلک رہے۔ اس دوران سماجی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے حاصل ہونے والی عوامی مقبولیت کی بنا پر پہلے مسلم لیگ سے نگر پالیکا کا الیکشن لڑا، لیکن کامیابی نہیں مل سکی بعدازیں آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے نگر پالیکا الیکشن میں کامیابی ملی۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۰ء تک کونسلر کے طور پر عوام کی خدمت کی۔ ۱۰؍ سال تک میونسپل اسکول بورڈ کے رکن رہے۔ مجموعی طور پر ۹۲؍ سال کی عمر تک فعال رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ابھی ۴؍ سال قبل ہی سبکدوش ہوئے ہیں۔ آج ان کی عمر ۹۶؍ سال ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہے۔ صحت او ر حافظہ دونوں ہی ٹھیک ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’میرے پریس میں قرآن مجید کی طباعت ہوتی تھی‘‘

محمد صدیق بدعنوانی کے سخت مخالف ہیں ۔ جس وقت وہ اسکول بورڈ کے ممبرتھے، انہوں نے بدعنوان اور بے ایمان میونسپل افسران اور عملے کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی۔ تقریباً ۲۵۰؍ بدعنوان عملے کو معطل کرانے اور ۷۰؍ بدعنوان افسران کو اینٹی کرپشن بیورو سے گرفتار کروانے کی وجہ سے وہ صدیق نذیر اینٹی کرپشن والے کےلقب سے مقبول ہوگئے تھے۔ 
 بھیونڈی کے بنگال پورہ علاقے کے نام کی وجہ تسمیہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک وقت تھا جب یہاں بنگال کے لوگوں کی اکثریت تھی۔ اس کی وجہ سے یہ علاقہ بنگال پورہ کہلایا۔ ان کے بچپن میں حاجی عبدالصمد سماجی کارکن کے طورپر بہت فعال تھے۔ بنگال پورہ کے علاوہ بھیونڈی کے دیگر مسلم محلوں کو تعلیمی، سماجی اور معاشی اعتبار سے بدلنے میں ان کا اہم رول تھا۔ اُن دنوں جن گھروں کے بچے معاشی پریشانی کے سبب اسکول نہیں جا پاتے تھے، ان کا اسکول میں داخلہ کرانا، ان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنا اور انہیں تعلیم کی جانب راغب کرنے میں وہ پیش پیش رہتےتھے۔ علاوہ ازیں بھیونڈی میں ہینڈلوم اور پاور لوم صنعت کو متعارف کرانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ انہوں نے ہی ہینڈلوم کے کارخانوں کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد پاور لوم شروع کرنے کیلئے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے بھی جدوجہد کی۔ بجلی کی فراہمی کے بعد یہاں پاورلوم شروع ہوا۔ 
  بھیونڈی کا آگرہ روڈ، انگریزوں کے دور میں بنا تھا۔ ورالا تالاب روڈ کے قریب جاری سڑک کی تعمیر کے کام کو محمد صدیق نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اکثر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ورالاتالاب کےقریب جاکر وہاں موجود انگریز افسران کو دور سے دائیں ہاتھ کی ۲؍ابتدائی انگلیوں سے وکٹر ی (فتح) کی علامت دکھا کر چڑھا تے تھے۔ اس کی وجہ سے غصہ ہوکر انگریز افسران پتھر لے کر انہیں دوڑاتے تھے۔ ایسے میں محمد صدیق اپنے دوستوں کے ہمراہ بھاگ کر قریب میں واقع سندر بینی پیٹرول پمپ کی آڑ میں جاکر چھپ جاتے تھے۔ اسی دور میں پڑگھا روڈ پر وڑپا کیمپ لگایا جاتا تھا جہاں انواع و اقسام کی کھانے پینے کی اشیاء فروخت ہوتی تھیں۔ انگریز ممبئی سے آکر یہاں بکرے کا گوشت وغیرہ فروخت کرتے تھے جبکہ محمد صدیق اور ان کےساتھی یہاں انڈا وغیرہ فروخت کرتے تھے۔ انڈے کےعوض انگریز انہیں بکرے کی مُنڈی دیتے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’اسمبلی الیکشن میں خاطر خواہ مسلم نمائندگی کی ہماری کوشش کامیاب ہونے کی پوری اُمید ہے!‘‘

محمد صدیق کو فلموں کا بڑا شوق رہا ہے۔ غربت اور مفلسی کے دور میں بھی فلم دیکھنے کیلئے ۲؍ پیسوں کا کسی نہ کسی طرح انتظام کرلیا کرتے تھے۔ سن تو یاد نہیں لیکن نظام پور میں رئوف پنجابی کا انڈیا ٹاکیز ہوا کرتا تھا، جہاں ۲؍پیسے کی ٹکٹ لے کر فلم دیکھنے تھے۔ اس دور میں بھیونڈی بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا۔ ندی ناکہ، کامواری ندی اور نظام پور کے علاقوں میں اکثر ہندی فلموں کی شوٹنگ ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے دیوآنند، دلیپ کمار، میناکماری، وحیدہ رحمان اور ریحانہ وغیرہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ نظام پور میں ایک فلم کی شوٹنگ کیلئے لکڑی کا نقلی ہوائی جہاز، ایک مہینے میں بنایا گیا تھا۔ اس جہاز کو ایک مہینے تک دیکھنے اور شوٹنگ کے دوران ایک وقت میں اسے جلائے جانے کا منظر بھی محمد صدیق نے دیکھا تھا۔ دلیپ کمار او ر وحیدہ رحمان کی ’دل دیا درد لیا‘ فلم کے کئی حصوں کی شوٹنگ بھیونڈی میں ہوئی تھی۔ نظام پور میں ایک بوبیرے نامی شخص تھے، جنہیں شکار کا بڑا شوق تھا۔ وہ ماہر شکاری تھے۔ متعدد فلم اداکار مثلاً دلیپ کمار، دھرمیندر اوردیوآنند وغیرہ ان کے گھر آکر قیام کرتے اور ان کے ساتھ شکار کرنے جاتے تھے۔ 
 محمد صدیق نے اناج، شکر اور گُڑ وغیرہ کی قلت کے دور کو بھی بڑے قریب سےدیکھاتھا۔ ایسے حالات میں انتہائی ناقص قسم کا اناج ملتا تھا۔ شکر تو قطعی نہیں ملتی تھی اور گُڑ بہت خراب کوالیٹی کا ملتا تھا۔ اس گُڑ سے چائے بنانے پر چائے پھٹ جاتی تھی جس کی وجہ سے لوگ مجبوراً پیپر منٹ ( میٹھی گولی) سے چائے بناتے تھے جس کےسبب میٹھی گولی کی مانگ بڑھ گئی تھی۔ بڑی مشکل سے میٹھی گولی دکانوں پر ملتی تھی۔ منڈئی بازار (پار ناکہ، مدار چھلہ ) میں واقع دکانوں پر میٹھی گولیوں کیلئے لوگ نصف شب سے قطار لگاتے تھے تاکہ صبح دکان کھلنے پر میٹھی گولی مل سکے۔ محمد صدیق نے ایک مرتبہ رمضان المبارک کے مہینے میں رات ۲؍ بجے سے قطار لگا کر صبح ۱۰؍بجے دکان کھلنے پر میٹھی گولی خرید ی تھی۔ لوگ ایک اور آدھا کلو میٹھی گولی کی تھیلی خرید کر بڑی احتیاط سے چائے بنانے کیلئے اس کا استعمال کرتے تھے۔ 
 محمد صدیق بچپن میں غریبی اور مفلسی کی وجہ سے کئی بار بھوکے پیٹ بھی اسکول گئے ہیں۔ گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہ ہونے سے بھوکے اسکول جاتے اور بھوکے ہی واپس آتے تھے۔ کتاب خریدنے کیلئے پیسے نہ ہونے سے دوسروں سے کتاب لے کر پڑھائی کی ہے۔ یونیفارم کا انتظام نہ ہونے سے گھر کے کپڑوں میں اسکول جاتے تھے۔ صرف وہ نہیں دیگرکئی غریب بچےبھی بھوکے اسکول آتے اور خاموشی سے پڑھائی کر کے گھر لوٹ جاتے تھے۔ 
  بھیونڈی کے ۷۰ء اور ۸۴ء کے فرقہ وارانہ فسادات کو محمدصدیق نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان دونوں فسادات میں مسلمانوں کو ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا بھی انہیں خوب تجربہ ہے۔ دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے پر حملے کئے جانے کا منظر انہیں آج بھی یاد ہے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب منڈئی پرسڑک کی ایک جانب سے ہندو تو دوسری طرف سے مسلمان ایک دوسرے پر حملے کررہے تھے۔ اسی دوران پتھرائو کی زد میں آنے سے ان کے سر پر زبردست چوٹ لگی تھی۔ سرپھٹ گیا تھا اور اس سے خون بہہ رہا تھا۔ ایسےمیں چارپائی کو دونوں ہاتھوں سے اُٹھاکر ڈھال بنا کر کسی طرح وہاں سے بچ کر گھر پہنچے تھے۔ ان فسادات میں مسلمانوں کو جانی اور مالی اعتبار سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK