• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’آٹوگراف مانگنے پرفراق گورکھپوری نے کہا کہ ایک شاعر کی پہچان اس کی شاعری ہوتی ہے، آٹوگراف نہیں‘‘

Updated: June 23, 2024, 1:08 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

اندھیری میں رہائش پذیر پروفیسر رحمت اللہ شیخ ۴۸؍ سال سے سیاحتی شعبے سے وابستہ ہیں، اس دوران ۶۷؍ ممالک کادورہ کرچکےہیں اور ان دوروں میں انہیں امام بخاری ؒ اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر بھی جانےکا موقع ملا ہے، وہ اس عمر میں بھی فعال ہیں۔

Professor Sheikh Rahmatullah. Photo: INN
پروفیسر شیخ رحمت اللہ۔ تصویر : آئی این این

گوشۂ بزرگاں کالم میں شائع ہونےوالے ایولہ کے جمیل فاروقی نے اتوار ۱۶؍جون کو عیدالاضحیٰ کی پیشگی مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ عیدقرباں والے دن مصروفیت ہوتی ہے، اسلئے میں نے سوچاکہ کیوں نہ ایک دن قبل ہی عید کی مبارکباد دے دوں۔ دورانِ گفتگو انہوں نےبتایاکہ میرے ایک ساتھی پروفیسر شیخ رحمت اللہ ہیں جوگزشتہ ۴۸؍ سال سے شعبۂ سیاحت سے وابستہ ہیں اور ان کی سیاحتی سرگرمیاں آج بھی جاری ہیں ۔ دنیاکے تقریباً ۶۷؍ ممالک کا دورہ کرچکےہیں۔ ممکن ہوتو ان کے تجربات کو گوشہ ٔ بزرگاں کاحصہ بنائیں۔ 
 مضمون نگار نے جمیل فاروقی سے گفتگوختم ہونےپر، پروفیسر شیخ رحمت اللہ سے ملاقات کا وقت لیا اورایک سے ڈیڑھ گھنٹےمیں ان کی رہائش گاہ اندھیری، ساکی ناکہ پہنچ کر ان سے تفصیلی گفتگوکی۔ مدھوبن نامی خوبصورت سوسائٹی میں تقریباً ۲۵۰؍فلیٹ ہیں جن میں سے ۲۰۔ ۲۲؍ فلیٹ مسلمانوں کے ہیں۔ کشادہ فلیٹ کےوسیع ہال میں ہونے والی گفتگوانتہائی دلچسپ اور معلوماتی رہی۔ 
 پروفیسر شیخ رحمت اللہ کابنیادی تعلق جنوبی ممبئی کے بھنڈی بازار علاقہ سے ہے۔ بیگ محمداور جان محمد اُردوہائی اسکول سے ایس ایس سی کی تعلیم حاصل کی۔ انجمن اسلام اکبر پیر بھائی، نیشنل کالج باندرہ اور این ایم کالج ولے پارلے سے آگے کی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کےبعد ذریعہ معاش کیلئے ۱۹۷۶ء میں مسقط روانہ ہوگئے تھے۔ عمان کی زبیر ٹراویلس نامی کمپنی میں اکائونٹنٹ کی حیثیت سے کام شروع کیالیکن ان کا دل اکائونٹس سے زیادہ سیاحت کی طرف مائل تھا۔ کمپنی کےذمہ داران نے سیاحت سے متعلق ان کی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں ۱۹۸۰ءمیں پین امریکن ایئر لائنز کی ٹریننگ کیلئے امریکہ روانہ کردیا۔ وہاں سے ٹریننگ لے کرواپس ہوئے توکمپنی میں انہیں اسسٹنٹ برانچ منیجر بنا دیا گیا۔ بعدازیں اپنی صلاحیتوں اور محنت سےانہوں نے کمپنی کی ترقی میں جو کردار پیش کیاوہ اپنی مثال آپ رہی۔ کمپنی کےتئیں ان کے جنون اور دلچسپی کی بنا پر کمپنی نے انہیں انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ اسوسی ایشن کا پروفیشنل کورس کروانےکیلئے سوئزرلینڈ روانہ کیا۔ اس کورس کی تکمیل کے بعد شیخ رحمت اللہ کی کامیابی اور ترقی کی اُڑان مزید تیز ہوگئی۔ ان کا پرموشن برانچ منیجر کے عہدہ پرہوگیا۔ ۲۰؍سال تک اس کمپنی سے وابستہ رہے۔ اس دوران متعدد بیرونی ممالک کادورہ کیا۔ سیاحتی شعبے سے وابستہ ہونےکی وجہ سے انہیں امام بخاری ؒ اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مزار مبارک پر بھی جانےکا شرف حاصل رہا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’۱۹۴۷ء میں فساد کےدوران بلڈنگ کے تمام لوگوں کاکھاناایک ساتھ پکتا تھا اورسب ساتھ میں بیٹھ کرکھاتےتھے‘

پروفیسر رحمت اللہ شیخ سعودی عرب اور دبئی میں امریکن اورتھائی لینڈٹورزم کمپنی کے علاوہ فلپائن ٹورزم کیلئے اپنی خدمات پیش کرچکےہیں۔ ۲۰۱۱ءمیں تاجکستان وزارت سیاحت میں کام کرنے کاموقع ملا۔ وہیں   پر رہتے ہوئے۳۔ ۴؍ یونیورسٹیوں میں وزیٹنگ لیکچرر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ تاجکستان میں دوشامبےیونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ٹورزم، انسٹی ٹیوٹ آف انٹر پیرنیورشپ اینڈسروسیز نے ان کی غیر معمولی خدمات کےعوض انہیں اعزازی پروفیسر کے خطاب سے نوازا ہے۔ ۲۰۱۳ءمیں وہ ممبئی کے اکبر اکیڈمی آف ایئر لائنس اسٹڈیز کے پرنسپل کے طورپر بھی فائز رہے۔ ۲۰۱۸ءسے نوی ممبئی کے ڈی وائی پاٹل کالج کےٹور زم ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ پیرانہ سالی میں بھی ان کی سیاحتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ۴۸؍سالہ سیاحتی خدمات کےدوران انہیں ۶۷؍ ممالک کادورہ کرنے کاشرف حاصل رہا۔ ان کی طویل سیاحتی خدمات اوردوروں کی بنا پر متعلقین نے انہیں ابن ِ بطوطہ ثانی کالقب دیا ہے۔ پروفیسر صاحب ۹؍زبانوں، اُردو، ہندی، مراٹھی، گجراتی، سندھی، کچھی اور میمنی کےعلاوہ بین الاقوامی انگریزی، عربی، فارسی، تاجک اور فرینچ بھی پڑھتے، لکھتےاوربول لیتےہیں۔ 
 یہ ۱۹۹۶ءکی بات ہے، پروفیسر رحمت اللہ کوکاروباری دورہ پرسعودی عرب کے جدہ سے ینبع شہر جاناتھا۔ وہ طیارہ سے جانےوالے تھے لیکن ان کا طیارہ چھوٹ گیا۔ وقت پر پہنچنےکیلئے وہ اپنی کار سے ینبع کیلئے تنہا روانہ ہوئے۔ صحرائی راستےمیں ان کی کار اچانک خراب ہوگئی۔ موٹر کار کو ایک جانب پارک کرکے وہ سوچ رہےتھے کہ کیاکریں ؟ اسی دوران ان کی پریشانی دیکھ کر ایک سوڈانی چرواہا جو دور کھیت میں اپنے جانوروں کو چرا رہا تھا، ان کے پاس آکر پوچھا کیاہوا ہے ؟ پروفیسر رحمت اللہ نے کار کے خراب ہونےکاقصہ بیان کیا، اس نے کہارُکو میں آتا ہوں، یہ کہہ کر وہ کھیت کی جانب دوبارہ گیا، اپنے جانوروں کو ایک جگہ اکٹھاکیا، بعدازیں وہ دوبارہ پروفیسر رحمت اللہ کےپاس آیااور ان کی کار کے نیچے گھس کر نہ جانےکیا معائنہ کیا، کچھ دیر بعدکار کےنیچے سے باہر نکل کر اس نے قریب میں پڑے تار کو اُٹھایا اور پھر کار کے نیچے جاکر کیا معلوم کیا، بعدازیں باہرآکر کار شروع کرنے کیلئے کہا۔ کارکے شروع ہونے پر رحمت اللہ نے خوش ہوکر کسان کو بخشش کے طورپر کچھ رقم دینےکی کوشش کی لیکن چرواہے نے وہ رقم لینےکےبجائے کہاکہ تم کیاسمجھتے ہو میں نےچندسکوں کیلئےیہ کام کیاہے، ہرگز نہیں ، میں نے یہ کام اپنے رب کی رضاکیلئے کیاہے، تاکہ ایک شخص جو اس بیاباں اور صحرا سےگزررہاہے، اس کی مدد کیلئے کوئی نہیں ہے، اس کی مددکرنی چاہئے۔ چرواہےکی اس بات کو سن کر پروفیسر شیخ خود کو اس کےسامنے بونامحسوس کرنے لگے تھےکہ میرے ۴؍ سکوں نے اس کی قیمت لگانی چاہی تھی جبکہ رب نے فرشتہ کی شکل میں اس بندہ کو مجھ تک بھیجاتھاتاکہ میرا مسئلہ حل ہوسکے۔ 
 یہ جولائی ۲۰۱۲ء کی با ت ہے۔ پروفیسر شیخ تاجکستان کی حکومت کی دعوت پر وہاں کے طلبہ کو ٹورزم کے موضوع پر پڑھانےکیلئے افغانستان اور تاجکستان کے سرحدی علاقہ میں واقع ایک ہوٹل میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رہائشی ہوٹل میں مقیم تھے۔ اسی دوران منشیا ت کی اسمگلنگ کےتعلق سے فوج اور منشیات کے مافیائوں کےدرمیان خانہ جنگی جیسی صورتحال کے پیداہونے سے اس پورے علاقے کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔ پورے علاقے میں افراتفری کا ماحول تھا۔ ایسے میں رات کو تقریباً ۱۲؍ بجے پروفیسر شیخ کے کمرہ کے دروازہ پر کسی نے دستک دی، جس سے وہ گھبرا گئے۔ بعدازیں انہوں نے دروازہ کھول کردیکھاتو ۲؍لڑکیاں اور ایک عمررسیدہ خاتون انہیں دکھائی دیں، جو ٹارچ کی روشنی میں پروفیسر شیخ سے کہہ رہی تھیں کہ یہ جگہ آپ کیلئے محفوظ نہیں ہے، آپ ہمارے ساتھ چلئے۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں جنہیں پروفیسر شیخ پڑھانے والے تھے۔ پروفیسرشیخ کوجوان لڑکیوں کےساتھ رات گئے ہوٹل سے باہر جانا ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ شاید اس بات کا احساس ان لڑکیوں کوبھی تھا، اسی وجہ سے ان لڑکیوں نے اپنی ماں کو آگے کیا، ماں نے پروفیسر شیخ کو سمجھایا اور کہاکہ آپ یہاں اجنبی ہیں۔ آپ کایہاں رہنا خطرناک ہے۔ پروفیسر شیخ کو سمجھا کر یہ لوگ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ۴؍دنوں تک ایسے حالات میں انہیں اپنے گھر رکھا، جومیسر تھاکھلایا پلایا، بعدازیں چوتھے دن انہیں رفاحی تنظیموں کے ذریعے وہاں سے ۶۰؍کلومیٹر کی دوری پر محفوظ علاقے میں منتقل کردیاگیا۔ 
 ۸۰ء کی دہائی میں صابوصدیق کالج میں ایک مشاعرہ ہواتھا۔ مشاعرہ میں جاں نثار ا ختر، فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی اور علی سردار جعفری جیسے مشہور شعرائےکرام موجودتھے۔ مشاعرے کےاختتام پر رحمت اللہ اور ان کےکچھ دوستوں نے فراق گورکھپوری سے ملاقات کی اور آٹو گراف دینےکی درخواست کی، جس پر فراق صاحب نےکہاکہ ’’صاحبزادےتم ایک شاعر کاآٹوگراف لینے آئے ہو، شاعر کی شناخت اس کی شاعری ہوتی ہے اس کاآٹوگراف نہیں۔ ‘‘ 
  ۸۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ ان کا طیارہ ابوظہبی سے کویت، کویت سے بیروت ہوتے ہوئے چیک ریپبلک کا تھا۔ کویت سے بیروت کےسفر کےدوران نصف شب کےبعد اچانک ان کا طیارہ بادلوں میں گھر گیااور کچھ دیر بعد طیارے کی بجلی گل ہوگئی۔ ابھی بجلی کےگل ہوجانے کا خوف طاری ہی تھاکہ جہاز کے ایئرکنڈیشنر سے ٹھنڈہوا کے بجائے گرم دھواں نکلنے لگا۔ اسی دوران پائلٹ نے سیٹ بیلٹ باندھنے کی ہدایت دی۔ سب کو لگ رہا تھاکہ ان کا آخری وقت آگیاہے۔ سب اپنےاپنے رب کو یاد کررہےتھے لیکن۲۰؍منٹ بعد ہی پائلٹ نے حالات پر قابو پا لیا جس کے بعد مسافروں نے اطمینان کا سانس لیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK