رے روڈ کی ۸۰؍ سالہ سارہ صالح بھائی بھانپور والا کی پوری زندگی اہل خانہ کی خدمت اور امورِ خانہ داری میں گز ری ہے ، یہی سبب ہے کہ وہ اس عمر میں بھی فعال ہیں اور اپنا کام خود کر نے کی کوشش کرتی ہیں، یادداشت بھی ایسی کہ بچپن کی یادیں بھی اچھی طرح یاد ہیں۔
سارہ صالح بھائی بھانپور والا۔ تصویر : آئی این این
رےروڈ،ٹرانزٹ کیمپ کے معروف سماجی کارکن یاسین چشتی نے گزشتہ دنوں فون کرکےرسمی بات چیت کے بعد کہاکہ گوشۂ بزرگاں کالم میں کافی دنوں سےکسی خاتون کاانٹرویو نہیں آیا۔ ایک۸۰؍سالہ بوہرہ خاتون اپنے تجربات بیان کرناچاہتی ہیں۔ اگر کہیں تو ان سے ملاقات کاوقت مقررکرلوں۔ کالم نگارکی حامی پرانہوں نے اتوار ۹؍جون،شام ۶؍بجے کاوقت طےکرلیا۔
رے روڈ پر واقع قمرٹاورکی ساتویں منزل پر رہائش پزیر ۸۰؍سالہ سارہ صالح بھائی بھانپوروالا کے فلیٹ پران کےبیٹے طیب عرف ابو صالح بھائی نے کالم نگارکاخیرمقدم کیا۔ رسمی گفتگوکےبعد سارہ صالح بھائی سے تقریباً ایک گھنٹہ تک ہونےوالی بات چیت انتہائی دلچسپ رہی۔ اس دوران انہوں نے جو معلوما ت فراہم کیں، وہ معلوماتی ہونے کےساتھ ہی کافی دلچسپ بھی رہیں۔
بوہری محلہ، مٹن اسٹریٹ کی چھاٹن والا بلڈنگ کی سارہ صالح بھائی نے مقامی طیبی اسکول سے ایس ایس سی تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس دورمیں لڑکیوں کی زیادہ پڑھائی معیوب سمجھی جاتی تھی، اسلئے وہ آگے کی پڑھائی نہیں کرسکیں۔ دسویں کی پڑھائی کےبعدان کی شادی ہوگئی۔ ان کی پوری زندگی اہل خانہ کی خدمت اور امورِ خانہ داری میں گزری ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اس عمر میں بھی فعال ہیں اور اپنا بیشتر کام خود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عبادت گزاری ان کا اہم مشغلہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: وانکھیڈے کے افتتاحی میچ سے قبل میں نےاسکور بورڈ، اسٹینڈزاورپویلین کانام لکھا تھا
سارہ صالح بھائی نے ہندوستان سے پاکستان اورچین کی ہونے والی جنگوں کو دیکھا ہے اور اس کی یادیں ان کے ذہن میں تازہ ہیں۔ جنگ کےدوران گھروں کی لائٹیں بندکردی جاتی تھیں۔ گھروں میں اندھیرا ہوتاتھا،ایک موبتی جلاکرلوگ گھر کے کام کیا کرتے تھے۔ جنگی جہازوں کی آوازوں سے لوگ خوفزدہ ہوجاتےتھے۔ بم گرنےکی آواز انتہائی خوفناک اور ڈرائونی ہوتی تھی،لوگ سرشام کام کاج بند کرکےگھروں میں گوشہ نشین ہوجاتے تھے۔ جنگ کی وجہ سے اناج اورکھانےپینے کی اشیاء کی قلت ہو جاتی تھی جس کے سبب عوام کو کافی پریشانیاں اُٹھانی پڑتی تھیں۔ جنگ کے دوران ہنگامی صورتحال میں کرفیو جیسی کیفیت ہوتی تھی۔ ضروری سامان کی خریداری کیلئے لوگوں کو ایک گھنٹہ کی چھوٹ دی جاتی تھی۔ سارہ صالح بھائی کے ۷؍بھائی تھے۔ ایک گھنٹہ کی مہلت میں ان کے بھائی بازار جاکر اناج، گوشت،دودھ،سبزیاں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاءلے آتے تھے۔ اس دوران متعدد گھروں کے لوگوں کے بازار میں پھنس جانے کی بھی اطلاعات آتی تھیں ، جس سے ان کے متعلقین پریشان ہوجاتےتھے۔ جب تک وہ گھر نہیں لوٹتے تھے ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گشت کرتی تھیں۔
چوربازار،مٹن اسٹریٹ میں واقع ۴؍منزلہ چھاٹن والا بلڈنگ میں کل ۳۶؍گھر تھے جن میں بوہریوں کے علاوہ دیگر مسلم خاندان آباد تھے۔ ۱۹۴۷ءمیں ملک کی آزادی کےبعد پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فساد کے دوران یہاں کےمکینوں نے ایک دوسرے کی جس طرح سے مددکی تھی، وہ قابل ستائش ہے اور آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ چال کے نوجوان کرفیو میں چھوٹ ملنے پر بازار سے جاکر اناج اور کھانے پینے کی اشیاء خرید کرلاتے تھے، سارہ صالح بھائی سمیت چال کی دیگر لڑکیاں اور خواتین مل کر ایک ساتھ چال ہی میں چولہا جلاکر بلڈنگ کے سبھی مکینوں کیلئے کھانا پکاتی تھیں۔ کھانا تیار ہوجانے کےبعد بلڈنگ کے سبھی مکینوں کو ایک ساتھ ہی کھاناکھلانے کانظم کیاجاتاتھا۔ بھائی چارگی کاایک بہترین ماحول تھا۔ مکینوں کے تحفظ کیلئے چال کے نوجوان رات بھر جاگ کر پہرہ دیتے تھے۔ بوہری روحانی پیشوا کی جانب سے عوام میں ناشتے کاسامان مثلاً دودھ، انڈا اور پائو وغیرہ تقسیم کیاجاتا،جو سب کیلئے ہوتا تھا۔
تقریباً ۵۰؍سال قبل چھاٹن والاچال کےگرائونڈ فلورپرآگ لگی تھی جس کی وجہ سے بلڈنگ کےسارے لوگ گھر چھوڑکرباہر چلےگئے تھے لیکن دوسری منزل پر رہائش پزیر سارہ صالح بھائی اور ان کی بڑی بہن گھر میں ہی کسی کام میں مصروف رہیں۔ انہیں آگ لگنے کاپتہ ہی نہیں چلا۔ ایسے میں ان کی باتوں کی آواز سن کر بلڈنگ سے باہر جانے والوں نےنیچے جاکر بتایاکہ دوسری منزل کے ایک گھر سے عورتوں کی آواز آرہی ہے۔ بعدازیں کچھ لوگوں نے اُوپر جاکر ان دونوں بہنوں کوگھر سے نکالا، لیکن اس دوران آگ بڑھ جانے سے انہیں سیٹرھی کےبجائے دوسری منزل کی بالکنی سے نیچے پھینکنے کی تیاری کی گئی،نیچےجمع لوگوں نےبڑی چادر ہاتھوں میں پکڑکر ان بہنوں کو کیچ کرکے ان کی جان بچائی تھی۔
ہندوستان میں جب بڑے پیمانے پرطاعون کی وبا پھیلی تھی، اس دورمیں سارہ صالح بھائی اپنے عزیزوں کےہمراہ کربلاگئی تھیں۔ وہ ۱۱؍ دنوں کادورہ تھالیکن اچانک واپسی کےوقت طاعون پھیلنے سے وہ اوران کےگھروالے ایک ماہ تک ممبئی واپس نہیں ہو سکےتھے۔ انہیں وہیں رہنا پڑاتھا۔ اس دورمیں رِنگ والاٹیلی فون کچھ ہی گھروں میں تھا۔ سارہ صالج بھائی کے گھر میں ٹیلی فون نہ ہونے سے ایک سےڈیڑھ مہینے وہ اپنے بچوں سے بات نہیں کرپائی تھیں۔ طاعون کی وبا کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کےتحفظ سے متعلق فکرمندتھیں۔ حالات کے معمول پر آنے کےبعد وہ ممبئی لوٹ آئیں،تب ان کی جان میں جان آئی تھی۔
کوروناوائرس کی وبا کےدوران سارہ صالج بھائی کےبچوں نے انہیں احتیاطً ۲؍تا۳؍ماہ تک اپنے ہی گھر کے ایک کمرے میں بالکل علاحدہ رکھاتھا۔ انہیں تینوں وقت کاکھانا دور ہی سے دے دیاجاتا تھا اور کمرہ کےباہر ہی سے ان کی خیر خیریت لی جاتی تھی۔ اُن دنوں انہیں کمرہ کےباہر آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس دوران انہیں ۳؍ماہ تک بلڈنگ بھی سے باہرنہیں جانے دیاگیاتھا۔ ایسےمیں سارہ صالج بھائی کو اپنے بچوں کےقریب رہ کر بھی دورہونے کاشدید احساس ہوا تھا لیکن بچوں نے ان کی بھلائی کیلئے یہ اقدام اُٹھایاتھا،یہ سوچ کر وہ خاموش رہتی تھیں۔
ہندوستانی صدر گیانی ذیل سنگھ ایک مرتبہ عہدہ پر رہتےہوئے اس دور کے بوہر ہ روحانی پیشواسے ملاقات کیلئے بوہری محلہ میں واقع بوہرہ فرقے کی عبادت گاہ روضہ طاہرہ آئے تھے۔ اس موقع پر بوہری محلہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ گیانی ذیل سنگھ نےبڑی عقیدت کےساتھ روحانی پیشوا سےملاقات کی تھی۔ اس یادگارتقریب میں بوہرہ جماعت کی خصوصیات پر سیرحاصل گفتگو کی تھی۔ اس تقریب میں سارہ صالج بھائی نے گیانی ذیل سنگھ کو بہت قریب سے دیکھاتھا۔
بوہری محلہ میں کھانے پینے کی اشیا کےبازار کے تعلق سےیہ کہا جا سکتا ہےکہ سارہ صالح بھائی کےبچپن میں بھی یہ علاقہ لذت کام ودہن کامرکز تھا۔ بوہری فرقہ کی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے یہاں عقیدت مندوں کااژدہام ہونے سے مٹھائی، بیکری اورکھانے پینے کی انواع و اقسام چیزوں کی متعدد دکانیں تھیں۔ لوگ بڑی آسانی سے سستے دام پر کھانےپینے کا ساما ن خرید لیتے تھے۔ سارہ صالح بھائی، جوسینڈویچ آج ۵۰؍روپے میں ملتاہے وہ ۱۰؍پیسے میں کھا چکی ہیں۔
۳۵؍سال قبل سارہ صالح بھائی اپنے متعلقین کے ہمراہ مصر زیارت کرنےگئی تھیں۔ اس دوران بیت المقدس کےقریب اچانک بمباری ہونےسے سارہ صالح بھائی اور ان کے عزیز بہت پریشان ہوگئےتھے، اس کے باوجودان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور پورادورہ مکمل کرکے ممبئی لوٹےتھے۔ اس واقعہ کو وہ نہیں بھولتی ہیں۔
سارہ صالح بھائی کے والد اور ان کے ۷؍بھائی شروع ہی سے بوہرہ روحانی پیشوا کے خانوادے کے بہت قریب رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سارہ صالج بھائی کی شادی بھی اس دور کے روحانی پیشوا کےمشورے پر ہوئی تھی۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۱۸؍سال تھی۔ ان کیلئے لڑکے کا انتخاب اس وقت کےروحانی پیشوا ڈاکٹر سیدنا محمد برہان الدین نے کیا تھا۔ حالانکہ ان کیلئے کئی رشتے آئے تھےلیکن سیدناکے فیصلے کےبعد ان تمام رشتوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ سیدنا نے انہیں اچانک طلب کیا تھا۔ اس وقت سارہ صالج بھائی گھر میں برتن دھو رہی تھیں، کام ادھورا چھوڑکروہ اپنے والد کے ہمراہ دربارمیں حاضر ہوئیں، اسی وقت ڈاکٹر سیدنا محمد برہان الدین کی ایما پر ان کی پسند کےلڑکے ساتھ ان کانکاح ہوا تھا۔