۸۰؍ سالہ معروف عالم دین اور خوش فکر شاعر قمرسلطانپوری نے اپنی ہمہ جہت دینی، ملّی، علمی، ادبی اور سماجی خدمات سے وسئی اور ممبئی کے قرب و جوار میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اہل علم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 06, 2024, 1:33 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
۸۰؍ سالہ معروف عالم دین اور خوش فکر شاعر قمرسلطانپوری نے اپنی ہمہ جہت دینی، ملّی، علمی، ادبی اور سماجی خدمات سے وسئی اور ممبئی کے قرب و جوار میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اہل علم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
محلہ کولی واڑہ، وسئی (مغرب ) گائوں کی مسلم آبادی بسانےاور ان کی دینی و عصری تعلیم و تربیت میں جن اہم شخصیات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، اُن میں یہاں کے معروف عالم دین، حافظ، قاری اور امام محمد قمر سلطانپوری کا شمار خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ قمرسلطانپوری نے اپنی ہمہ جہت دینی، ملّی، علمی، ادبی اور سماجی خدمات سے وسئی اور ممبئی کے قرب و جوار میں جو مقبولیت حاصل کی ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ اس عمر میں بھی وہ ہشاش بشاش اور چاق و چوبند ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے بتادیں کہ حضرت قمر سلطانپوری ۲۰؍ سال سے وسئی کے قاضی ٔ شہربھی ہیں۔
علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والے قمر صاحب گوشہ ٔ بزرگاں کا بڑی باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اس کالم سے متعلق اپنے تاثرات اور مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔ اتفاق دیکھئے کہ آج اس کالم کیلئے ان ہی انتخاب کیاگیاہے۔ اُن کی پیدائش۱۹۴۵ ء میں سریاں گائوں، ضلع سلطانپور (یوپی ) میں ہوئی۔ گائوں کے مدرسہ سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ والدہ کا انتقال ہونے پر ممبئی میں برسرروزگار والد انہیں یہاں لے آئے۔ ممبئی سے ۵؍ پارے حفظ کر کے وہ دوبارہ سلطانپور لوٹ گئے اور جامعہ عربیہ سے حفظ، عالمیت اور قرأ ت کےساتھ ادیب کا بھی کورس مکمل کیا۔
قمر صاحب کا تعلق کسان خاندان سے رہا ہے لیکن ان کی عملی زندگی دینی خدمات سے شروع ہوئی اور اب بھی دینی سرگرمیوں ہی میں گزر رہی ہے۔ معروف عالم دین ہاشمی میاں کچھوچھوی، مولانا ظہیر الدین خان اور دیگر معروف علمائے دین ان کےساتھی رہے۔ کولکاتا، شیوپور کی ایک مسجد میں امامت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، بعدازاں بدلتے حالات کی بناء پر تقریباً ۵۰؍ سال قبل وسئی منتقل ہوئے جہاں کی مسجد غوثیہ میں ۴۰؍سال امامت کی اور تراویح پڑھائی۔ ویسے تراویح پڑھانےکا ۵۰؍ سالہ تجربہ ہے۔ پیرانہ سالی کی وجہ سے گزشتہ ۱۰؍ سال سےیہ خدمت انجام نہیں دے رہےہیں مگر عبادت، تلاوت اور دینی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے علاوہ دینی، عصری، ادبی اور علمی کتابوں کے ساتھ ساتھ اخباربینی کیلئے بھی وقت نکالتےہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’مہاراشٹر کالج کے سائنس فیکلٹی میں داخلہ لینے والا میں پہلا طالب علم تھا‘‘
قمر سلطانپوری ۱۹۸۸ء میں حج بیت اللہ پر گئے تھے۔ دوران ِ قیام انہوں نے مکہ اور مدینہ کے پُرکیف دینی اور روحانی مناظر کی زیارت کے لحاظ سے جہاں کئی نعتیں لکھیں وہیں یہا ں کےدلکش ماحول اور برکت سے فیضابی پر بھی اپنے تاثرات تحریر کئے۔ اس دوران جہاں اُن کا قیام تھا، اسی کے قریب ایک خیمہ میں لگنے والی آگ کا منظر اب بھی نہیں اُنہیں یاد ہے۔ چولہےکی آنچ سے لگنے والی آگ نے کئی خیموں کو خاکستر کردیا تھا۔ عازمین خیموں کے باہر نکل کر اپنے بال بچوں کے ساتھ جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ اسی طرح شیطان کو کنکری مارنے کیلئے یکجا ہونے والی بھیڑ میں، پہلے کنکری مارنے کی کوشش میں گر کر بھیڑ میں دب جانے والوں کی موت بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔
ان کے بچپن میں ان کے گائوں میں وباء پھیلی تھی۔ گائوں کے سبھی لوگ گھر چھوڑ کر گائوں کے باہر ایک وسیع میدان میں خیمہ زن تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت تھی۔ اس دَور میں آلو کی پیداوار ہوئی تھی۔ لوگ آلوبھون کر کھا تے تھے۔ ڈاکٹر کا ملنا مشکل تھا۔ ایسے میں کسی کو پھوڑا پھنسی نکل آئے تو لوگ ڈر جاتےتھےکیونکہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ نیم کے درخت کی چھال پیس کر زخم کا علاج کرتے تھے۔ خیمہ میں ہزاروں لوگ اکٹھا تھے اور اسی کیفیت میں ۲۰۔ ۱۵؍ دن گزارنے پر مجبور ہوئے۔
یہ ایسا دور تھا جب دیہی علاقوں میں زمین کی بڑی اہمیت تھی۔ لوگ بالشت بھر زمین کیلئےخونی رشتہ ترک کر دیتے، ایک دوسرے کا قتل بھی گویا رَوا تھا، زمین کیلئے خاندان ٹوٹ جاتے تھے، ایک دوسرے پر مقدمہ کر دیتے جو عدالتوں میں برسوں جاری رہتا۔ اس کی وجہ سے باپ دادا کی لڑائی بچوں میں منتقل ہوجاتی، بچے ایک دوسرے کے دشمن بنے رہتے۔ قمرسلطانپوری بتاتے ہیں کہ اُن کے ایک قریبی رشتے دار کے یہاں ۲؍ سگے بھائیوں میں زمین کیلئےایسی خونریزی ہوئی تھی کہ اس کا تصورانہیں اب بھی دہلادیتاہے۔ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کے سرپر لاٹھی ماری جس کی وجہ سے بھائی زمین پر گر کر بے ہوش ہوگیا، کچھ دیر بعد اس نے اُٹھنے کی کوشش کی تو لاٹھی مارنے و الے بھائی کی بیوی نے شوہر سے کہا، تم نے اسےکیسے مارا، وہ تو اُٹھ رہا ہے، اسے مار ڈالو۔ بیوی کے کہنے پر شوہر نے دوبارہ اپنے بھائی کے سرپر لاٹھی ماری اور اسے ہلاک کردیا۔
قمر سلطانپوری کے بچپن میں عموماً عورتوں کا گھروں سے نکلنا معیوب تھا، لیکن گھروں میں پانی کی سہولت نہ ہونے سے وہ مجبوراً ندی، تالاب یا کنویں سے پانی لانے جاتی تھیں مگر پردہ کا لحاظ ہمہ وقت رہتا تھا۔ محلے کے بزرگوں کا ادب، لحاظ اور احترام بھی لازم تھا۔ قمرسلطانپوری کے گھر کی خواتین ۵؍منٹ کے فاصلہ پر واقع گائوں کے نمبردار ( مکھیا) دادا کے کنویں سے پانی بھرنے جاتی تھیں۔ کنویں کےقریب ہی نمبردادا کی چوپال تھی جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے۔ اگر نمبر دار دادا وہاں بیٹھے ہوتے تو ان کےگھرکی خواتین اُلٹے پاؤں واپس آجاتی تھیں۔ جب نمبر دار دادا یہاں سے اُٹھ جاتے تب ہی خواتین پانی بھر پاتی تھیں۔ اس دور میں محلے کے بڑوں اور بزرگوں کا ایک مقام ہواکرتاتھا۔ شرارتی بچوں کو محلے کا کوئی بڑا یا بزرگ ڈانٹ یا مار دیتا تو بچے کے اہل خانہ ان سے آکر شکایت نہیں کرتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ اچھا کیا آپ نے۔
قمر سلطانپوری طالب علمی کے زمانے میں سریا ں گائوں سے سلطانپور شہر پڑھائی کیلئے۵؍ کلومیٹرکافاصلہ سائیکل سے طے کرتے تھے۔ کسی روز سائیکل پنکچر ہوجاتی تو سائیکل سنبھال کر پیدل چلتے۔ چونکہ گائوں کے پڑھےلکھے بچوں میں ان کا شمار ہوتا تھا اسلئے گائوں کے لوگ ان سے لکھنے پڑھنےکا کام لیتے تھے۔ گائوں کا ایک الگ ماحول تھا، اس میں بڑوں کی خدمت بھی لازم تھی۔ جو کام انہیں دیا جاتا، اسےبڑی ذمہ داری سے پورا کرتے تھے۔ گائوں کی بڑی بوڑھی خواتین انہیں بالخصوص خط لکھنے اور اسے ڈاکخانےسے پوسٹ کرنے کیلئے کہا کرتی تھیں ۔ چونکہ گائوں میں ڈاکخانہ نہیں تھا، اسلئے وہ گائوں کے لوگوں کا پوسٹ کارڈ اور انتر دیسی وغیرہ سلطانپور سے لاتے، پھر جو لکھوایا جاتا وہ اس پر لکھتے اور دوسرے دن سلطانپور جاکراُسے سپرد ِ ڈاک کر دیتے۔
اوائل عمری میں سریاں گاؤں کی چائے کی چھوٹی سی دکان پر جمع ہونے والے شاعر و ں کی قربت کےسبب قمر صاحب میں شعرگوئی کا ذوق پیدا ہوا تھا۔ معروف شعراء اجمل، ساحل اورشرف سلطانپوری اور ایڈوکیٹ لکھپت رائے علامہ محور صاحب کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ خود کہنے کی شروعات کی اور مذکورہ بالا شعراء سے اصلاح لی۔ درحقیقت، ان شعرا ء کا کلام سن سن کر ہی قمر سلطانپوری شاعر بن چکے تھے۔ انہیں نعت گوئی سے خاص رغبت ہے۔ نعت خوانی ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اُن کی طبیعت میں بلا کی آمد ہے چنانچہ زود گوئی خاصہ۔ ایک ہی نشست میں کئی کئی اشعار کہہ دینا اُن کیلئے کوئی بڑی بات نہیں۔