• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ ہوائی سفر کے دوران موسم کی خرابی کی وجہ سے ۲؍ مرتبہ جہاز گرتے گرتے بچا تھا‘‘

Updated: March 24, 2024, 4:01 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

پنویل کے ۸۰؍سالہ سعید مُلا گریجویشن کرنے کے بعد چاول اورنمک کے آبائی کاروبار سے وابستہ ہوئے، کرکٹ کے کھیل سے بچپن ہی سے انسیت ہے اوریہ مشغلہ آج بھی جاری ہے، وہ پوری طرح صحت مندہیں اور پابندی سے دفتری ذمہ داریاں بھی نبھارہےہیں۔

Saeed Mulla Urf Mian Ji. Photo: INN
سعید مُلّا عرف میاں جی۔ تصویر : آئی این این

گوشۂ بزرگاں کالم کا پابندی سے مطالعہ کرنےوالے پنویل کے ایک صحافی نے ۲۵؍فروری ۲۰۲۴ء کو فون کرکےکہاکہ پنویل کے کئی بزرگوں کےتاثرات اس کالم میں پڑھ چکاہوں لیکن جس اہم شخصیت کے انٹرویو کا منتظر ہوں، ان کا کالم ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے۔ استفسار کرنے پر انہوں نے پنویل کی فعال سماجی، سیاسی، معاشی اور ملّی شخصیت سعید مُلاّ عرف میاں جی کا نام لیا۔ ساتھ ہی کہا کہ اگر کہیں تو میں ان سے ملاقات کا وقت طے کرلوں۔ کالم نویس سے اثبات میں جواب ملنے پر انہوں نے ۲۹؍ فروری کا وقت طے کیا۔ مقررہ وقت پر اُن کے دفتر پہنچ کر مقفل آفس دیکھ کر تذبذب ہوا۔ فون کرنے پر انہوں نے معذرت چاہی اور ۱۰؍منٹ میں دفتر پہنچنے کا وعدہ کیا۔ اسی دوران ایک نوجوان ان کے دفتر کے قریب آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے دفتر کھولااور ہمیں اطمینان سے بیٹھنے کی پیشکش کی، ساتھ ہی پینے کا پانی بھی پیش کیا۔ ابھی ہم اس نوجوان سے اس کے بارےمیں بات چیت کر ہی رہےتھے کہ میاں جی بھی پہنچ گئے۔ 
 سعید مُلّا نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ ہمیں اپنی کیبن میں لے گئے۔ انتہائی خوبصورت کیبن میں جہاں جدید ترین ڈیزائن سے آراستہ میز اور کرسیاں سلیقے سے سجائی گئی تھیں۔ وہیں ایک دیوار پر قرآنی آیات پر مبنی لگا بڑا طغریٰ کیبن کو دینی ماحول سے مزین کررہاتھا۔ دفتر کے ایک گوشے میں سجائی گئی متعدد ٹرافیاں ان کی گوناگوں صلاحیتوں کی عکاسی کررہی تھیں۔ رسمی گفتگو اور موجودہ حالات پر مختصرگفتگو کے بعد میاں جی سے ہونےوالی ۶۱؍ منٹ کی بات چیت بڑی دلچسپ اوراہم رہی۔ 
 پٹیل محلہ پنویل میں ۲۲؍جون ۱۹۴۴ء کو پیدا ہونےوالے میاں جی نے ابتدائی تعلیم پنویل میونسپل اُردواسکول سے حاصل کی۔ وی کے ہائی اسکول پنویل سے میٹرک پاس کرنےکے بعد ممبئی کے کے سی کالج سے گریجویشن اور گورنمنٹ لاء کالج سے وکالت کی پہلے سال کی پڑھائی بھی کی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وکالت کی تعلیم پوری نہیں کر سکے۔ بعد ازیں عملی زندگی میں چاول اور نمک کے آبائی کاروبار سے وابستہ ہوئے اور اب بھی اسی کاروبار سے جڑے ہیں۔ کاروبار کے علاوہ سماجی، سیاسی اور ملّی سرگرمیوں سے بھی منسلک رہے۔ ۱۵؍سال تک پنویل میونسپل کائونسل میں عوام کی نمائندگی کی۔ رائے گڑھ ڈسٹرکٹ مسلم ویلفیئر آرگنائزیشن، انجمن اسلام عبدالرزاق کالسیکر پالی ٹیکنک، پولیس اینڈ پبلک ریلیشن کمیٹی اورمسلم ایکتا فائونڈیشن کے علاوہ دیگر کئی سماجی اداروں کیلئےبھی اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ ان کے والد اوربھائی بھی کانگریس پارٹی سے وابستہ رہے تھے۔ میاں جی کانگریس پارٹی سے جیت کر ایک مرتبہ پنویل کے صدربلدیہ بھی رہ چکےہیں۔  

یہ بھی پڑھئے: بچپن میں کوئی طالب علم اسکول سےغیر حاضررہتا تو اُستاد اُس کے گھرجاکر ناغہ کی وجہ معلوم کرتےتھے

 کرکٹ کھیلنا میاں جی کا محبوب مشغلہ ہے۔ ۷۰؍سال سے کرکٹ کھیل رہےہیں۔ پیرانہ سالی میں بھی روزانہ فجر کی نمازکےبعد اپنے ہم عمر دوستوں کےساتھ سنبھاجی گرائونڈ میں کرکٹ کھیلنے پہنچ جاتےہیں۔ آج بھی پنویل کی کرکٹ ٹیم کاشمار رائے گڑھ ضلع کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ نمائشی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اپنی بہترین کارکردگی سے متعدد ٹرافیاں حاصل کرچکےہیں۔ کرکٹ کے جنون کی وجہ سے کیچ پکڑنے کے دوان ایک بار ان کی ایک انگلی بری طرح سے زخمی ہوگئی تھی جس کےبعد انہوں نے کیچ پکڑنا چھوڑ دیاہے لیکن کرکٹ کھیلنا اب بھی جاری ہے۔ 
 ۱۹۸۶ءمیں پنویل میں شیوجینتی کا جلوس نکالاگیاتھا۔ اس موقع پر مسلم ناکہ پر واقع پاڑہ محلہ مسجد کے پاس جلوس میں شامل کچھ شرپسندوں نے ہنگامہ کرنےکے مقصد سے مسجد پر گلال پھینک دیاتھاجس کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑا تھا۔ دونوں فرقوں میں اس کی وجہ سے زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ اُس وقت میاں جی کونسلر تھے، اسلئے ایک کونسلر کی حیثیت سے وہ بھی جلوس میں شامل تھے۔ وہ لوگوں کو سمجھا بجھاکر معاملہ رفع دفع کرنےکی کوشش کررہے تھے۔ اُس موقع پر شرپسندوں نے انہیں بھی گلال سے لال کردیاتھا۔ اس کےباوجود وہ امن قائم کرنےکی اپنی کوششوں میں مصروف رہے۔ ا ن کےساتھ ایک غیرمسلم نگرکونسلر بھی موجودتھے۔ اسی دوران ایک شرپسند بھالالے کر پیچھے کی جانب سے ان پر حملہ کرنے ہی جا رہا تھا کہ ان کے ساتھ کونسلرنے دیکھ لیا۔ انہوں نے شرپسندوں کو ڈانٹ کرکہا کہ یہ سعید مُلا یہاں کے نگر سیوک ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوناچاہئے۔ ان کے ساتھی کی اُس ڈانٹ کااثر یہ ہوا کہ وہ لوگ دوسری طرف مڑگئے۔ اس طرح اُس دن میاں جی کی جان بچی تھی۔ 
 میاں جی کی زندگی کا سب سے خطرناک واقعہ تقریباً ۶۰؍سال قبل پیش آیاتھا۔ ان دنوں پین کی نمک کے ڈپو (مرکز) پر کام کرنےوالے مزدوروں نے کسی وجہ سے ہڑتال کردی تھی۔ سبھی مراکز کے بند ہونے سے مراکز کے مالکوں کابڑا مالی نقصان ہورہاتھا۔ ایسے میں میاں جی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اپنے پین کےمرکز پر کار سے جارہےتھے۔ مرکز کے قریب پہنچنےپتہ چلاکہ مزدوروں نے گاڑیوں کا راستہ روکنےکیلئے راستےمیں پتھر رکھ دیئے ہیں۔ ایسےمیں وہاں پرکار کو روکنا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ میاں جی نے اپنے ڈرائیور سےکہاکہ پتھروں کو اُڑا کر موٹر گاڑی کو آگے بڑھائو، اس ہدایت پر ڈرائیور نے جب پتھروں پر سے گاڑی آگے بڑھائی تو قریب ہی ایک جگہ چھپے مزدوروں کے بھیس میں کچھ شرپسند اُن پر حملہ کرنےکیلئے اچانک سامنے آگئے۔ انہیں دیکھ کر میاں جی اور ان کے ساتھی گاڑی سے اُتر کر کسی طرح کیچڑمیں گرتے پڑتے ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں ایک شناسا نے انہیں پناہ دی۔ بعد ازیں ان کےمتعلقین پولیس کے ہمراہ یہاں آئے اور انہیں یہاں سے لے گئے۔ وہ منظر اب بھی انہیں یاد ہے۔ 
 میاں جی کوکرکٹ کے بعد دوستوں کےساتھ سیر وتفریح کرنے کا دوسرا سب سے اہم اور بڑا شوق تھا۔ بچپن سے اپنے دوستوں کےہمراہ مہاراشٹر کے مختلف ِضلعوں کی سیرکرچکےہیں۔ ان کا گروپ ۲۰۔ ۱۸؍ دوستوں پر مشتمل تھا لیکن اب ان میں سے ایک بھی باحیات نہیں ہے۔ ان کے آخری قریبی دوست کا ۳؍مہینے قبل انتقال ہواہے۔ ایک بھی دوست کے نہ ہونے کا غم وہ شدت سےمحسوس کرتےہیں۔ دوستوں کے ساتھ گزارے لمحات کے بارےمیں ان کا خیال ہےکہ دوست دنیاکی سب سے قیمتی شئے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرناچاہئے۔ 
 یہ تقریباً ۲۵؍سال پہلے کی بات ہےمیاں جی اپنی اہلیہ کے ہمراہ کشمیر جارہےتھے۔ ان کافلائٹ ممبئی سے دہلی اور دہلی سے جموں کا تھا۔ دہلی سے جموں کے سفر کے دوران ایئرپورٹ پر طیارہ کے لینڈ ہوتے وقت اچانک طیارہ گرنے لگا، جہاز کو گرتے دیکھ کر مسافروں کی جو حالت ہوئی تھی وہ ناقابل بیان تھی، سب کے چہرے فق پڑگئے تھے۔ افراتفری کے ماحول میں پائلٹ نےکمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاز کا رخ دوبارہ آسمان کی طرف موڑکر ایک گشت لگایا۔ بعدازیں دوبارہ جموں ایئر پورٹ پر لینڈہوتے وقت جہاز گرنے لگا، اس مرتبہ مسافروں کی حالت مزید خراب ہوگئی تھی۔ اس باربھی پائلٹ نے وہی حکمت عملی اپنائی اور جہاز کو گرنے سے بچالیا۔ بعد میں یہ اعلان ہواکہ طوفانی موسم کی وجہ سے جموں میں جہاز نہیں اُتر سکتا۔ اس لئے ہم دہلی واپس جارہے ہیں۔ دوران واپسی امرتسر میں جہاز کے لینڈ کرنے پر میاں جی اور ان کی اہلیہ وہیں اُتر گئیں۔ یہ واقعہ دونوں میاں بیوی نہیں بھولےہیں۔ 
 اُرن کے جواہر لال نہر و پورٹ ٹرسٹ کی بنیاد ڈالنے سے قبل کانگریس پارٹی کی طرف سے اُرن میں ایک پروگرام منعقدکیاگیاتھا جس میں راجیو گاندھی آنےوالے تھے۔ پروگرام کے انتظامات کی نگرانی میاں جی کو سونپی گئی تھی۔ اُرن کےایک وسیع وعریض میدان میں پروگرام رکھا گیا تھا۔ راجیو گاندھی کاقافلہ۳؍ بڑے جیٹ جہازوں کے ساتھ یہاں پہنچاتھا۔ پورے پروگرام کے خوش اسلوبی سے ہونےپرذمہ داروں نے میاں جی کو ڈھیر ساری مبارکبادیاں پیش کی تھیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK