• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’بچپن میں مجھے پڑھانے والے ٹیچروں میں ایک پنڈت جی بھی تھےجو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے‘‘

Updated: June 30, 2024, 4:01 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

گھڑپ دیو میں رہنے والے ۹۰؍ سالہ شہرت علی کا تعلق اترپردیش کے ضلع سدھارتھ نگر سے ہے، وہ ۱۹۵۶ء میں ممبئی آئے تو پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے،لکڑی کے کاروبار میں ۲۰؍ سال تک ملازمت کی ،اس کے بعد خود اسی کاروبار کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے۔

Shauhrat Ali. Photo: INN
شہرت علی۔ تصویر : آئی این این

گھڑپ دیو، مودی کمپائونڈ کے معروف اور فعال سماجی کارکن بشیر نان والانے گزشتہ دنوں فون کرکے عیدالاضحی کی مبارکباد پیش کی۔ سلام دعاکےبعد انہوں نے کہاکہ میرے ایک ساتھی، جن کی عمر ۹۰؍سال ہے، اگر انہیں گوشہ ٔ بزرگاں کالم میں شائع کریں تو خوشی ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حالانکہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ہے، لیکن آپ کہیں تومیں انہیں بات چیت کرنےکیلئے تیارکروں۔ کالم نگار کی جانب سے اثبات میں جواب ملنے پر بشیر نان والانے ان سے وقت مقرر کیا۔ مقررہ وقت پر ہم تینوں نے گھڑپ دیوپر واقع ان کے کارخانےکی آفس میں کم وبیش ۲؍گھنٹے کی نشست میں انتہائی دلچسپ گفتگو کی۔ 
 اُترپر دیش کے سدھارتھ نگرمیں پیداہونےوالے ۹۰؍سالہ شہرت علی کواپنی پیدائش کی تاریخ یادنہیں ہے لیکن ملک کی آزادی اور اس سے قبل انگریزوں سے ہونےوالی جھڑپوں میں حصہ لینے کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ان کی عمر تقریباً ۹۰؍سال ہے۔ تیسری جماعت تک گائو ں کے ایک اسکول میں پڑھائی کی۔ ان کا بچپن ہی تھا کہ ایک دن اچانک والدہ کا انتقال ہوگیا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد والد بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والدین کابڑا لڑکا ہونے کےناطے گھرکی ذمہ داریوں کےعلاوہ گائے اور بھینس کی نگرانی کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی آن پڑی جس کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ مالی دشواریوں کی وجہ سے۱۰۔ ۱۲؍ سال کی عمر ( ۱۹۵۶ء) میں گھرمیں کسی کو بتائے بغیر ممبئی کیلئے روانہ ہوگئے۔ ٹکٹ لینے کیلئے پیسے نہیں تھے، اسلئےبغیر ٹکٹ ٹرین میں سوارتو ہوگئے لیکن پکڑے جانے کا خوف طاری ہونے سے ایک مسافر سےمددطلب کی۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ بیٹھ جائو، جب ٹکٹ چیک کرنے والا آئےتو برتھ کے نیچے گھس جانا، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ اس کے ہمت دلانے پر جان میں جان آئی۔ اسی مسافر کے بھوجا (مختلف قسم کے اناج کے بھنے ہوئے دانوں ) سے راستےبھر پیٹ کی آگ بجھائی اور اسٹیشن پر ملنے والا پینےکا پانی پی کر دادر(ممبئی ) پہنچ گئے۔ اس دوران کوئی ٹکٹ چیک کرنےوالا نہیں آیا۔ کسی طرح دادر اسٹیشن سے باہر نکل کر اپنے گائوں کے ایک نائی کا پتہ پوچھتےہوئے اس کی دکان پر پہنچےجہاں ان کے رشتے دار وغیرہ کام کرتے تھے۔ گھڑپ دیومیں لکڑے کے کارخانےمیں یومیہ ڈیڑھ روپے مزدوری پر کام شروع کیا۔ ۲۰؍سال تک ملازمت کی اور بعدازیں اپنا کاروبار شروع کیاجو اَب بھی جاری ہے البتہ اب وہ کام ان کےبچے اور پوتے دیکھتے ہیں۔ 
شہرت علی نے اپنے گائوں کے جس اسکول سے تیسری جماعت تک پڑھائی کی تھی، اس کےسب اساتذہ برادران وطن تھے لیکن سبھی کو اُردو زبان آتی تھی۔ اسی وجہ سے وہ مسلم طلبہ کو اُردو پڑھاتے تھے۔ انہیں ٹیچر کے بجائے’پنڈت جی ‘ کہاجاتاتھا۔ ان کے ایک پنڈت جی توروزانہ گھر سے قرآن کریم کی تلاوت کرکے ہی اسکول آتے تھے۔ ان کے پاس قرآن کریم کا ہندی ترجمہ والانسخہ تھا۔ اس دور میں ملک کی آزادی کی تحریک زورپر تھی۔ آزادی سے متعلق بیداری پیدا کرنے کیلئے اسکولی طلبہ کے ہمراہ گائوں گائوں ریلی نکالی جاتی تھی۔ شہرت علی کے اسکول سے بھی ریلی نکالی گئی تھی۔ پنڈت جی کی قیادت میں اسکولی طلبہ ہاتھوں میں پرچم لئے ’’مارچ کروکانگریس، دلی تک ہمارا ہے، دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے، آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے، دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہماراہے۔ ‘‘جیسے نعروں کے ساتھ گلی گلی گھومتے تھے۔ ان نعروں سے گاؤں والوں میں جوش بھرجاتا تھا۔ وہ ساری باتیں آج بھی انہیں اپنے ذہن کے پردوں پر رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:’’آٹوگراف مانگنے پرفراق گورکھپوری نے کہا کہ ایک شاعر کی پہچان اس کی شاعری ہوتی ہے، آٹوگراف نہیں‘‘

آنجہانی مہاتماگاندھی کے قتل کے بعدشہرت علی کے گائوں کے اسکول میں طلبہ کیلئے بھنڈارہ ( اجتماعی کھانے کانظم) کیاجاناتھا جس کیلئے طلبہ سے گائوں کے گھرگھر جاکر’بھکشا‘( بھیک) مانگ کرلانے کیلئے کہا گیا تھا۔ شہرت علی نےاسکول کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گائوں کے کسانوں اور دیگر لوگو ں سے بھنڈارہ کیلئے بھیک مانگی تھی۔ بھیک میں بیشتر لوگوں نے اناج دیاتھا۔ اسی اناج کو جمع کرکے کھانا بنایاگیا تھاجو اسکول کے تمام بچوں نے کھایاتھا۔ 
  ۲۰؍سال تک لکڑی مل میں ملازمت کرنےکےبعد شہر ت علی نے اپنا خود کالکڑی کا کاروبار شروع کیاتھالیکن جس بلندی پر انہیں پہنچنا تھا، اس کی راہ ان کے کارخانےمیں رات گزارنے والے ایک ’سوتا ر‘ کے ذریعےہموار ہوئی تھی۔ ایک دن سوتار نے شہرت علی سے کہاکہ آج تو آپ کی چھٹی ہے، چلئے میری سائٹ پر، یہ کہہ وہ انہیں قلابہ کف پریڈ میں جاری ایک تعمیراتی سائٹ پر لے گیا جہاں شہر ت علی کی نظر ان کے مل کے جلن ( خراب لکڑیاں ، جوجلانےکے کام آتی ہیں ) پرپڑی۔ انہوں نے سوتار سے کہاکہ یہ جلن میرے مل کا ہے، اس کا آرڈر مجھے دلا سکتے ہو۔ سوتار نے سائٹ کے مالک محمد رمضان گہلوت سے شہرت علی کی ملاقات کرائی۔ محمد رمضان گہلوت نے جلن کا بھائو پوچھا، شہر ت علی نے ۷۵؍ روپے ٹن بتایا، رمضان گہلوت نے کہاجائو لے آئو، یہیں سے شہرت علی کی کامیابی کاسفر شروع ہوا۔ دراصل وہ جلن جو شہرت علی نے سائٹ پر دیکھی تھی، وہ ان کاجلن تھا جو ایک کاروباری ان سے ۳۰؍روپےٹن خرید کر اس سائٹ پر ۹۰؍روپے کے حساب سے فروخت کر رہا تھا۔ اس کمپنی میں جلن دینے کےساتھ شہرت علی کوپلائی ووڈ اور دیگر لکڑیوں کا آرڈر ملنے لگا۔ اس کی وجہ سے شہر ت علی کی کاروباری زندگی بدلنے لگی۔ رمضان گہلوت کی ایم رمضان اینڈ کمپنی کےعلاوہ انہیں معروف تعمیراتی کمپنی شاہ پور پالن جی کا بھی آرڈر ملنے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ متعدد تعمیراتی کمپنیوں کو پلائی ووڈ اور دیگر لکڑیاں سپلائی کرنے لگے جس کی وجہ سے ان کا کاروبار پروان چڑھنے لگا اور کچھ ہی دنوں میں اس کاروبار کو ایک استحکام مل گیا۔ 
 بابری مسجد کی شہادت کےبعد ممبئی میں پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات سے گھڑپ دیو علاقے میں لکڑی کا کاروبار کرنےوالے تاجروں کو بڑا مالی نقصان پہنچا تھا۔ ان میں شہرت علی بھی شامل تھے۔ جس مل میں ان کی لکڑیاں کاٹی جاتی تھیں ، اس مل کو بھی شرپسندوں نے آگ کے حوالےکردیاتھا، جس کی وجہ سے ان کی لاکھوں روپے کی لکڑیاں جل کر راکھ ہوگئی تھیں۔ ا س کے علاوہ دیگر کئی لکڑیوں کے ملوں کو تباہ کردیاگیاتھا۔ کئی مزدوروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیاگیاتھا۔ اس دوران بڑی تباہی اور بربادی ہوئی تھی، جسے شہرت علی نے اپنی آنکھو ں سےدیکھاتھا۔ وہ ساری باتیں بھلانی بھی چاہیں تو بھولتی نہیں ہیں۔ 
 شہرت علی کو فلم دیکھنے کابہت شوق تھا، جب کبھی موقع ملتا، وہ اپنے ساتھیوں کےہمراہ فلم دیکھنےچلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ بائیکلہ اسٹیشن کےقریب واقع پیلس سنیمامیں دن کے اوقات میں ۳؍تا۶؍بجے کاشو دیکھنے گئےتھے۔ اس دور میں فون کاچلن بہت کم تھا، بہت کم لوگوں کے پاس موبائل ہوا کرتے تھے۔ شہرت علی کے پاس بھی موبائل فون نہیں تھا۔ ایسے میں شو کے اوقات کےدوران شاہ پور پالن جی کمپنی کو فوری طور پر جلن کی ضرورت پیش آئی۔ کمپنی کے ۲؍نمائندے انہیں تلاش کرتے ہوئےگھڑپ دیوآپہنچے۔ وہ انہیں ان کے نام سے تلاش کر رہے تھے۔ اسی دوران ان کی دکان کےقریب لکڑیوں کےایک کاروباری سے ان نمائندوں نے شہرت علی کےبارےمیں دریافت کیا، کاروباری نے ان کامل بتانےکےبجائے پوچھا کہ کیاکام ہے صاحب ؟ ان نمائندوں نے بتایاکہ ہمیں جلن چاہئے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے جلن میرے پاس بھی ہے دیکھ لیں، نمائندوں نےفوری ضرورت ہونےکی وجہ سے اس سے جلن خرید لیا۔ فلم دیکھ کرواپس پر شہرت علی کو ساری کیفیت سے آگاہی ہوئی تو انہیں فلم دیکھنے کابڑا پچھتاوا ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، شہرت علی نے فلم دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK