• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’گلزار بے مثال قلمکار ہیں جن کی مثالیں دی جائیں گی‘‘

Updated: February 26, 2024, 3:51 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

مشہور شاعرشاعر، افسانہ نگار، گیت کار، اسکرپٹ رائٹر، ڈراما نویس، پروڈیوسر، مکالمہ نگار اورہدایت کار، ہر میدان عمل میں اپنی انفرادیت اور جدّت طرازی کے لئے مشہور گلزار کو حال ہی میں ملک میں زبان و ادب کے سب سے بڑے اعزاز ’گیان پیٹھ‘ سے نوازا گیا ہے۔

Gulzar. Photo: INN
گلزار۔ تصویر : آئی این این

مشہور شاعرشاعر، افسانہ نگار، گیت کار، اسکرپٹ رائٹر، ڈراما نویس، پروڈیوسر، مکالمہ نگار اورہدایت کار، ہر میدان عمل میں اپنی انفرادیت اور جدّت طرازی کے لئے مشہور گلزار کو حال ہی میں ملک میں زبان و ادب کے سب سے بڑے اعزاز ’گیان پیٹھ‘ سے نوازا گیا ہے۔ حالانکہ انہیں اس سے قبل بھی متعدد اعزازات سے نوازا جاچکا ہے جن میں آسکر ایوارڈ بھی شامل ہے لیکن یہ تمام ایوارڈس ان کی فلمی خدمات کے عوض انہیں دئیے گئے ہیں جبکہ گیان پیٹھ خالص ادبی ایوارڈ ہے جو اردو زبان کے زمرے میں انہیں تفویض کیا گیا ہے۔ وہ اردو کی پانچویں شخصیت ہیں جنہیں اس اعزاز سے نوازا جارہا ہے۔ ان کا فن، خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں، دراصل زندگی کے مشاہدات کو شاعرانہ احساس کی پلکوں سے چن کر حرف و صوت کا جامہ پہنانے کا طلسماتی عمل ہے۔ گلزار خود کو ادیب و شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلزار نے فلموں میں اپنی بےمثال کامیابی اور شہرت کے باوجود زبان و ادب کی طرف اپنا دھیان برقرار رکھا۔ انہوں نے شاعری بھی کی ہے اور افسانے بھی تحریر کئے ہیں۔ اگر ان کی شاعری کی بات کی جائے تو اس میں اہم خصوصیت لفظ اور مصرعے کے تاثراتی تصور کو مہارت کے ساتھ اشعار میں شامل کرنا ہے۔ 
 گلزار کی افسانہ نگاری بھی ان کی شاعری کی طرح ہی توجہ مبذول کرواتی ہے۔ ان کے یہاں ہر کہانی کے ساتھ زندگی کا ایک نیا روپ، ایک نیا رخ، ایک نئی سطح نظر آتی ہے۔ ایک نیا زاویہ، ایک تجربہ ایک ایسے ذہن کا پتہ دیتا ہے جوشعوری طور پر انتہائی حساس اور زندگی سے بھرپور ہے۔ ان کی شاعری پر گفتگو کریں تو انہوں نے بطور شاعر و نغمہ نگار کئی فلموں میں نغمے لکھے۔ ان کے فلمی گیتوں میں ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے جبکہ شاعری میں تشبیہات کا استعمال ان کی تخلیقات کو منفرد بناتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ایک گلزار میں کتنے گلزار ہیں یہ طے کرنا مشکل ہے

ہم نے گلزار صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کے فن کو ۴؍ الگ الگ زمروں اسکرپٹ رائٹنگ، نغمہ نگاری، شاعری اور افسانہ نگاری میں تقسیم کیا اور ان چاروں زمروں میں ممبئی کی فلمی و ادبی کہکشاں کے ۴؍ اہم ستون افسانہ نگار، سینئر صحافی اور فلم رائٹر جاوید صدیقی، سینئر نغمہ نگار و شاعر احمد وصی، نوجوان فلمی نغمہ نگار و شاعرپنچھی جالونوی اور مشہور ڈراما نگار و افسانہ نگار اقبال نیازی سے گفتگو کی۔ پیش ہے ان حضرات سے گفتگو کے اقتباسات : 
’’گلزار صاحب کے کردار اگر بتی کی طرح دھیرے دھیرے سلگنے والے ہوتے ہیں ‘‘


 دیگر ممالک میں کوئی ایک ہی آدمی اسکرپٹ لکھتا ہے لیکن ہمارے یہاں زبانیں الگ الگ ہونے کی وجہ سے ڈائیلاگ، اسکرپٹ اور کہانی الگ الگ لوگ لکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے گلزار صاحب نے تینوں کام کئے ہیں۔ اسکرین پلے میں ان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ ان کی فلموں کے سین بہت چست ہوتے ہیں۔ ایک سیکنڈ زیادہ نہ ایک سیکنڈ کم۔ اگر ان کی ڈائیلاگ رائٹنگ کی بات کی جائے تو وہ ملک کے ایک یا دو بہترین مکالمہ نگاروں میں شمار ہوں گے۔ وہ کم سے کم لفظوں میں بڑی بات کہہ جانے کا ہنر جانتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کمال وجاہت مرزا کے پا س تھا اور اب صرف گلزار صاحب کے پاس ہے۔ کردارنگاری کی بات کی جائے تو ان کی فلموں کے کرداروں کی پرت دھیرے دھیرے کھلتی ہے۔ وہ ’اگر بتی‘کی طرح دھیرے دھیرے سلگنے والے کردار لکھنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ یہ ہمارا بڑا نقصان ہے کہ انہوں نے فلمیں بنانابند کردیا ہے لیکن ہم امید تو کرسکتے ہیں کہ وہ جلد ہی کوئی فلم بنائیں گے۔ 
جاوید صدیقی : سینئر اسکرپٹ رائٹر اور ادیب ہیں 
’’گلزار صاحب کی نظموں کا اختتام اوہنری ؔ کے افسانوں کی طرح چونکادیتا ہے ‘‘


 گلزار صاحب پابند شاعری کم ہی کرتے ہیں آزاد نظمیں زیادہ لکھتے ہیں۔ ان کے مداحوں میں وہ حلقہ بھی ہے جو اردو شاعری کو دیوناگری میں پڑھتا ہے۔ ان کی نظمیں پڑھ کر انگریزی کے کہانی کار ’او ہنری ؔ‘ ذہن میں آجاتے کیوں کہ اوہنری ؔکی کہانیوں کا اختتام بھی بہت غیر متوقع اور چونکانے والا ہوتا ہے اور گلزار صاحب بھی اپنی نظم کے آخری مصرعوں میں ایسے ہی چونکادیتے ہیں۔ گلزار صاحب کے بارے میں مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی گریز نہیں ہے کہ آج جب اردو اور ہندی ادب صرف غزل کہنے کے احساس کمتری میں مبتلا ہے تو ان کی نظموں سے ایک نئے پن کا دروازہ کھلا ملتا ہےکیوں کہ شاعری صرف غزل کہہ لینا ہی نہیں ہے۔ نظم اردو کی ایک جاندار اور وسیع صنف ہے اور گلزار صاحب نے اس بات کو بخوبی سمجھا ہےاور اس پر عمل بھی کررہے ہیں۔ ایسے میں ان کی نظمیہ شاعری تاریک کمرہ میں ایک روشندان کی طرح ہے جس سےننھی معصوم روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور آنکھوں کو اجالوں کا مستقبل دکھاتی اور شمعِ تخلیق کو جگاتی ہیں۔ 
احمدوصی : سینئر شاعر و نغمہ نگار ہیں 
’’گلزار صاحب کے افسانوں میں ایک ’میجک رئیل ازم‘ نظر آتا ہے‘‘


 میرے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ گلزار ایک اچھے شاعر ہیں، گیت کار ہیں یا اچھے افسانہ نگار۔ عموماً فلمی گیت کاروں کی ادبی نثر ی تخلیقات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا لیکن گلزار نے یہ مفروضہ غلط ثابت کیا ہے۔ نئی نسل کے نوجوان فنکار شاید اس بات سے ناواقف ہوں کہ گلزار نے عمدہ اور کچھ الگ انداز کی کہانیاں بھی لکھی ہیں جن میں ایک ’میجک رئیل ازم ‘ نظر آتا ہے۔ ادّھا، سانجھ، خیرو، جنگل نامہ، نجوم اور آگ جیسی کہانیاں پڑھ کر گلزار صاحب کے باکمال ہونے اور فن افسانہ نگاری پر ان کی گرفت پختہ ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔ ان کی کہانیاں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھی ہوئی کہانیاں نہیں بلکہ زندگی سے جڑی ہوئی، حقیقت کی سطح پر تیری ہوئی چلتی ہیں۔ فسادات کے پس منظر میں ان کی کہانیوں پر کامیاب ڈرامے بھی ہوچکے ہیں۔ اشفاق احمد کی اس بات کی تائید کی جاسکتی ہے کہ ’’گلزاردراصل ایک افسانہ نگار نہیں کوزہ گر ہے۔ ان کے پاس واقعات، واردات اور کیفیات کا اتنا وسیع ذخیرہ موجود ہے جس کے حجم سے وہ خود بھی واقف نہیں۔ ‘‘
اقبال نیازی :مشہور ڈراما نگار اور افسانہ نگار ہیں 
’’گلزار صاحب لفظوں کی مدد سے مصوری کرنے کا ہنر جانتے ہیں ‘‘ 


 گلزار صاحب کے تعلق سے اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ ان کی نظم، غزل، یا دوسری کوئی بھی تخلیق اگر آپ ان کے نام کے بغیر بھی کہیں شائع کر دیں یا کسی کو سنا دیں تو بھی سننے یا پڑھنے والا بے ساختہ یہ کہہ دے گا کہ یہ تو گلزار صاحب کا کلام لگتا ہے۔ گلزار صاحب کے یہاں منظر رنگوں سے نہیں لفظوں سے پینٹ کئے جاتے ہیں۔ وہ لفظوں کی مدد سے مصوری کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کسی مجسّمے کو تراشنے کیلئے انہیں روایتی ہتھیاروں کی ضرورت پیش نہیں آتی، وہ کاغذ اور قلم کی مدد سے اس مجسّمے کو تیار کر نے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ان کی فلمی نغمہ نگاری کو بھی ہم اسی ذیل میں رکھ سکتے ہیں کہ وہ جو لکھتے ہیں قاری یا سامع جس نظر اسے دیکھے گا یا سنے گا اسے وہی نظر آئے گا جو وہ دیکھنا یا سننا چاہتا ہے۔ میرے خیال میں یہ کمال اس وقت ملک میں کسی شاعر یا نغمہ نگار کے پاس نہیں ہے۔ گلزار صاحب کی یہی فنکارانہ انفرادیت انہیں دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ ان کے فلمی نغموں کا کینواس نہایت وسیع اور متنوع خصوصیات والا ہے۔ 
پنچھی جالونویؔ : فلموں کے معروف نغمہ نگار اور شاعر ہیں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK