۷۲؍سا ل سے زائد عمر ہوجانے کےباوجود آج تک تراویح پڑھانے کا معمول برقرار ہے،کوئی عذر مانع نہیں ہوا
EPAPER
Updated: April 01, 2025, 7:44 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
۷۲؍سا ل سے زائد عمر ہوجانے کےباوجود آج تک تراویح پڑھانے کا معمول برقرار ہے،کوئی عذر مانع نہیں ہوا
:حافظ مولانا وصی احمد قاسمی نے امسال رمضا ن المبارک میں ۵۱؍ ویں محراب سنائی۔ انہوں نے اس دفعہ باندرہ میں ایک فلیٹ میں سنایا، یہاں تراویح پڑھانے کا مولانا کا چوتھا سال تھا۔ حفظ مکمل کرنے کے بعد حافظ وصی احمد نے ۱۵؍سال کی عمر میں پہلی تراویح رانچی ضلع کے نگری گاؤں میں پڑھائی تھی۔ اس کے بعد انہٹ گاؤں میں، پھر رانچی میں دیگر مقامات پر، ہزاری باغ بتراتو تھرمل پاور علاقے کی مسجدمیں اور بلسگرا گاؤں کی جامع مسجد میں پڑھایا۔ دورۂ حدیث شریف کے لئے دارالعلوم دیوبند جانے کے بعد قصبہ گنج لونڈ واڑا میں اور فراغت کے بعد گنٹور ضلع میں تین سال پڑھایا۔ اس کے بعد ممبئی آگئے اور۲۳؍ سال تک نوپاڑہ جامع مسجد باندرہ (مغرب )میں امامت وخطابت کے ساتھ مسلسل تراویح پڑھاتے رہے۔ امامت کا سلسلہ موقوف ہوا تو ایک شوروم میں، جوگیشوری میں ایک عمارت کی ٹیریس پر، لاک ڈاؤن میں میراروڈ میں اور اب باندرہ پولیس اسٹیشن کے پاس ایک فلیٹ میں پڑھارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: کیا وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی دن عید نہیں مناسکتے؟
مولانا وصی احمدنے ۱۲؍سال میں حفظ مکمل کیا تھا۔ ۱۰؍سال کی عمر میں مارچ۱۹۶۳ء میں حفظ شروع کیا تھا اور دو سال بعد مارچ۱۹۶۵؍ میں ضلع مونگیر موجودہ جموئی ضلع کے اَدسار میں واقع مدرسہ ریاض العلوم میں حافظ محمد سجاد حسینؒ کے پاس مکمل کیا تھا۔ حافظ محمد سجاد اپنے زمانے کے مشہور قاری عبدالقوی ؒکولکاتوی کے شاگردخاص تھے۔
۷۲؍سال کی عمر گزرجانے کے باوجود اہتمام سے تراویح پڑھانے کےتعلق سے مولانا وصی احمدکا کہنا ہےکہ خدا کاشکر ہے کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے، صحت اچھی ہے اور قرآن کریم کی سال بھر پابندی سے تلاوت کرنے کےسبب حافظہ بھی تازہ رہتا ہےا س لئے رمضان المبارک میں مزید محنت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ معاش کے لئے باندرہ میں کاروبار ہے جس کی ذمہ داری بچوں نے سنبھال لی ہے، میں محض نگرانی کرتا ہوں اور خاص طور پرمیراروڈ سے باندرہ کے درمیان سفر میں قرآن کریم کی تلاوت کی غرض سے پاس بنوایا ہے۔ حفظ مکمل کرنے کے بعد سے ہی چلتے پھرتے تلاوت میرا معمول ہے۔ پورے سال ٹرین میں سفر کرنےکے دوران دونوں جانب سےیومیہ ڈھائی سے تین پاروں کی بآسانی تلاوت ہوجاتی ہے۔
مولانا بہار کے ایک علمی اورمذہبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے چچا حکیم مولوی محمد ایوب اپنے دور کے مشہور علماء میں تھے۔ مولانا کے چھوٹےبھائی قاری حسین احمد عالم اورحافظ تھے، وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بچوں میں ایک بیٹا عالم ہے، بقیہ نے عصری علوم حاصل کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: لیلۃ الجائزہ خصوصیت سے عبادت میں مشغول رہنے کی رات ہے
مولانا سےیہ جاننے پرکہ اس عمر میں بھی اتنی توانائی اوراہتمام کیسے ممکن ہوتا ہے ؟تو ان کا کہنا ہےکہ میرے نزدیک اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ میں اپنی استطاعت کے مطابق اور مخیرین کےتوسط سے دینی اداروں کی تعمیر وترقی کےلئے ہرممکن کوشش کرتا ہوں، دوسرے بزرگوں اوراکابر علماء سے غایت درجہ تعلق ہے، شاید اسی کی برکت سے رب العالمین نےآج تک مجھے اپنا کلام پابندی سےپڑھانے کی توفیق دی، نہ تو کوئی عذر مانع ہوا اورنہ ہی ایسے حالات پیش آئے کہ تراویح نہ پڑھا سکو ں۔ امامت چھوڑنے کے بعد ۲؍سال ایسے گزرے کہ میں نے گھر پر ہی تراویح کا اہتمام کیا، تراویح کی باضابطہ امامت نہیں کی ورنہ اب تک ۵۳؍محرابیں ہوجاتیں۔
دینی خدمت اورمصلیان کی ذہن سازی کے تعلق سےمولانا وصی احمد کا کہنا تھا کہ جب میں نوپاڑہ مسجد میں امام مقرر ہوا تو مجھے یاد ہےکہ پہلے رمضان میں کوئی سفیر چندے کے لئے نہیں آیا مگر آہستہ آہستہ میں نےمصلیان اور ٹرسٹیان کی ذہن سازی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں نے ۲۳؍سال کے بعد امامت ترک کی تو اُس وقت ملک کے الگ الگ حصوں سے جامع مسجدآنے والے سفراء کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوزکرچکی تھی اور مصلیان بھی ان کا خاصا تعاون کیا کرتے تھے۔ اسی طرح میں اپنے حفاظ شاگردوں اور شناساؤں سے بار بار کہتا ہوں کہ چلتے پھرتے تلاوت کی عادت ڈال لو، انشاء اللہ پوری زندگی قرآن کریم کا حافظہ اَزبررہے گا۔