حج کی عبادت اس پوری زندگی کے لئے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی میں دینے کا اپنی مخلوق سے مطالبہ کیا ہے، ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ اس کو اسلام کے ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اور ارکان کے معنی ہیں وہ ستون جن کے اوپر پوری عمارت قائم ہو۔ گویا ان ستونوں کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔
حج ایسی عبادت نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو۔ اس کے لئے مال بھی چاہئے، صحت بھی چاہئے اور سفر کی سہولت بھی۔ تصویر : آئی این این
حج کی عبادت اس پوری زندگی کے لئے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی میں دینے کا اپنی مخلوق سے مطالبہ کیا ہے، ایک بڑی اہم عبادت ہے۔ اس کو اسلام کے ارکان میں شمار کیا جاتا ہے اور ارکان کے معنی ہیں وہ ستون جن کے اوپر پوری عمارت قائم ہو۔ گویا ان ستونوں کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ستون کے حوالے سے ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو عام طور پر نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ یہ کہ ستون کا نام عمارت نہیں ہے بلکہ ستون دراصل عمارت کی بنیاد اورسہارا ہوتا ہے۔ عمارت ستونوں کے علاوہ ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ہی کل یا مکمل دین ہے۔ درحقیقت یہ دین کے ارکان اور ستون ہیں، دین کی اصل عمارت اپنی جگہ پر الگ ہے۔ پوری زندگی اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت میں گزرے، یہ دین ہے۔ اس کو سہارا دینے کا کام یہ ستون کرتے ہیں۔
عبادت کا مقصد
ہر عبادت اپنی جگہ پر کوئی مقصد رکھتی ہے۔ چنانچہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کی یاد زندگی میں جاری و ساری ہو۔ ہر وقت بندہ اللہ کو یاد رکھے۔ اسی لئے پانچ وقت نماز کے ذریعے اس بات کی مشق کروائی جاتی ہے کہ کاروبارِ زندگی چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضرہو کے اس کو یاد کرو، زبان سے بھی یاد کرو، دل سے بھی اور ہاتھ پائوں سے بھی یاد کرو، نیز پیشانی اس کے سامنے ٹیک کر، ہاتھ پائوں باندھ کر، اس کے سامنے کھڑے ہو کر مکمل اطاعت اور بندگی کا نمونہ پیش کرو۔ گویا پوری زندگی اللہ کی یاد میں صرف ہو۔ اس کی توضیح قرآن مجید میں بیان کی گئی جب اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیا: ’’جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ ‘‘ (آل عمران:۱۹۱)
ہمارا نماز میں بیٹھ کے، لیٹ کے، جھک کے ہر طریقے سے اللہ کو یاد کرنا وہی زندگی بنانے کے لئے ہے جس میں دل، دماغ، عمل ہر جگہ اللہ کی یاد ہمیشہ تازہ رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم ہے اور زکوٰۃ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے وہ اس کی مرضی کے مطابق اس کے بندوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیے۔ گویا نماز اللہ کی یاد سے متعلق ہے اور زکوٰۃ اس احساس کا نام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے، اس میں بندوں کے حقوق ادا کرو اور اللہ کو مال سے زیادہ محبوب رکھو۔ اہلِ ایمان کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ’’جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ:۱۷۷)
یوں گویا پوری زندگی، جان و مال اسی لئے ہیں کہ آدمی کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے، جسمانی صلاحیتیں، قوت گفتار، تصنیف و تالیف کی صلاحیت، مال، وقت، یہ سب محض اپنے لئے نہ ہو بلکہ دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود اور خدمت کیلئے بھی ہو۔
تیسرا ستون روزہ ہے جو اپنے نفس کے اوپر ضبط کی تربیت دیتا ہے اور چوتھا ستون حج ہے۔ یہ دراصل اللہ کی راہ میں نکلنا اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیزیں قربان کرنا ہے، اور اللہ کے دین کو دنیا کے اندر قائم و دائم اور غالب کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عزم اور جذبے سے سرشار ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسلام نے اپنی آمد کے اول دن سے علم کی اہمیت پر زور دیا ہے
حج، پوری زندگی میں صرف ایک بار فرض
حج ایسی عبادت نہیں ہے کہ ہر ایک پر فرض ہو۔ اس کے لئے مال بھی چاہئے، صحت بھی چاہئے اور سفر کی سہولت بھی۔ اس کے بغیر کوئی آدمی اس کو ادا نہیں کر سکتا۔ نماز دن میں پانچ دفعہ فرض ہے۔ زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ فرض ہے۔ روزے سال میں ایک دفعہ ۳۰ ؍دن کے لئے فرض ہوتے ہیں، جب کہ حج پوری زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ اس کے بعد جو بھی حج ہے، وہ نفلی عبادت ہے۔
جب حج فرض ہوا اور حضوؐر نے مسجد نبویؐ میں اعلان فرمایا کہ تم پر ہر سال حج فرض کر دیا گیا ہے، تو ایک قبائلی سردار حضرت فرع بن حابسؓ کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ کیا یہ ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ اس پر آپؐ خاموش رہے۔ انہوں نے دوسری بار پھر یہی سوال کیا۔ کیا ہر سال فرض کیا گیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو پھر حج ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کو ادا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو میں کہا کروں اس کو اسی پر چھوڑ دیا کرو۔ تم سے پہلے لوگوں نے ایسے ہی سوال کرکے دین کو بڑا مشکل بنا دیا تھا۔ پھر وہ اس پر چل نہیں سکے اور آپس میں اختلاف کیا۔ جو میں حکم دوں اس کو سنواور جتنا عمل کرسکتے ہو، اس پر عمل کرو۔ گویا نبی کریمؐ نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ بہت سارے سوال کرکے کام کو اپنے لئے مشکل بنایا جائے۔ لہٰذا حج پوری زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے۔
حج، اللہ سے والہانہ عشق
حج دراصل محبت اور عشق کی عبادت ہے اور یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے کہ ایمان لانے والوں کو اللہ تعالیٰ سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت ہو۔ قرآن فرماتا ہے: ’’ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ ‘‘(البقرہ :۱۶۵)
اللہ سے محبت کوئی ایسا مقام نہیں ہے جو صرف صوفیاء کرام اور اولیاء اللہ کا مقام ہو، اور بڑے مقرب آدمی ہی کو اللہ سے محبت ہو سکتی ہو، بلکہ یہ تو ہر آدمی کو ہو سکتی ہے۔ ہر آدمی محبت سے واقف ہے اور ہر آدمی محبت کا مزہ چکھے ہوئے ہوتا ہے۔ جب کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو آدمی اس کیلئے دیوانہ وار کام کرتا ہے اور اس کیلئے اپنی پسندیدہ چیزیں تک قربان کرتا ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی کو اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت ہو۔ اسی کی ہدایت قرآن مجید میں کی گئی ہے کہ جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ پھراللہ سے محبت کو مزید کھول کر بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہاری بیویاں، تمہارے رشتہ دار اور تمہارا مال جو تم نے سینت سینت کے جمع کر رکھا ہے، اور تمہارے وہ کاروبار اور ملازمتیں جن سے تم کماتے ہو، اور تمہارے وہ مکانات جو تم کو بڑے پسند ہیں، کوئی چیز بھی اگر اللہ اور اس کے رسولؐ [اب اللہ کے ساتھ اس کے رسول کا بھی تذکرہ ساتھ ساتھ کیا گیا ہے] اور اللہ کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہے تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے۔
اللہ کی محبت اس طرح کی محبت نہیں ہے جس طرح کی محبت آدمی دُنیا میں کرتا ہے، بلکہ اس میں تو اللہ کے رسول کی محبت بھی شامل ہے اور اللہ کا رسول دراصل اللہ کا نمایندہ اور دوسروں کیلئے اس کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ اس کی زندگی وہ زندگی ہے جو اللہ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس کی اطاعت، اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کا کہا ماننا دراصل اپنے محبوب کا کہا ماننا ہے۔ اس کے پیچھے چلنا، اپنے محبوب کے پیچھے چلنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو خود حکم دیا:
’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ ‘‘ (آل عمران:۳۱)
حج حضرت ابراہیم ؑ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی بھی اسی محبت کو تازہ کرنے کیلئے ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی محبت میں جس طرح اپنے باپ کو چھوڑا، اپنا گھر بار چھوڑا، رشتہ داروں کو چھوڑا، ایک بیابان جنگل میں اپنے بیوی بچے کو لا بسایا، وہاں پر پتھروں سے اللہ کا گھر بنایا، یہ سب محبت کی علامت ہے۔ وہ جس طرح آتے تھے، اس گھر کے گرد چکر کاٹتے تھے، اس کو چومتے تھے، اس سے اظہارِ الفت کرتے تھے، یہ بھی محبت کی علامت ہے۔
تکمیل ِدین کا مرحلہ
حج، دین کی تکمیل کا نام ہے۔ قرآن مجید کے نزول کا آغاز رمضان المبارک میں ہوا۔ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کیلئے اپنے نفس پر ضبط اور اس کے احکام کی اطاعت و پیروی ضروری ہے۔ اس قرآن کو لے کر کھڑے ہونا، اس کو دُنیا تک پہنچانا، اس کو غالب کرنا، دین کی تکمیل کیلئے ضروری ہے۔ دین کی تکمیل بھی حج کے موقع ہی پر ہوئی۔ حضوؐر حج ِ وداع کے موقع پر عرفات کے میدان میں کھڑے تھے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ ‘‘ (المائدہ:۳)
اس آیت کا حج کے موقع پر نازل ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دین کی تکمیل کا رشتہ حج کے ساتھ وابستہ ہے۔ حضوؐر نے پوری زندگی میں صرف ایک بار حج کیا اور اس کے تین مہینے بعد آپؐکا وصال ہو گیا اور آپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپؐ نے اپنے وصال سے پہلے حج کا فریضہ انجام دیا، اس کے سارے مناسک اور آداب اور مسائل لوگوں کو سکھائے اور یہ آپؐ ہی واضح کر سکتے تھے۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر دین کی تکمیل بھی ہوگئی۔
دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب دین پوری زندگی میں غالب آ جائے اور پوری زندگی دین کے مطابق ہو۔ یہ مرحلہ اس وقت آیا جب لوگ دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور فتح عنایت فرمائی اور مکہ فتح ہوگیا اور بتدریج پورے عرب پر دین غالب آ گیا۔ جب آپؐ مغلوب تھے، اس وقت آپؐ عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ حج کیلئے آپؐتب نکلے جب پورا مکہ، مدینہ اور سارا عرب آپؐ کے زیر نگیں آگیا، اسلام کی حکومت قائم ہوگئی، دین غالب آگیا، لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے۔ سورۂ نصر میں اسی مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب لوگ گروہ در گروہ دین میں داخل ہونے لگے تھے۔
حج کا اہم ترین فرض
حج کی عبادت میں، کوئی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے جس طرح نماز اور دیگر عبادات میں ہے۔ حج کے فرائض صرف تین ہیں۔ ان میں کوئی بھی چیز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ آدمی عرفات میں حاضر ہو جائے، یعنی گھر سے نکلے، سفر کرے، میقات پر احرام باندھے اور عرفات کے میدان میں پہنچ جائے۔ اور جو شخص عرفات کے میدان میں سورج نکلنے سے لے کر (بعض کے نزدیک سورج غروب ہونے تک اور بعض کے نزدیک اگلے دن فجر تک) پہنچ گیا، اس کا حج ہو گیا اور جو نہیں پہنچا، اس کو اگلے سال حج کیلئے دوبارہ آنا پڑے گا۔ ہر چیز کی قضا ہوسکتی ہے، ہر چیز کا مداوا ہے، ہر چیز کا علاج ہے، آدمی سے طواف چھوٹ گیا بعد میں کر لے، قربانی بعد میں دے دے لیکن عرفات کے میدان میں حاضری کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگلے سال لازماً پھر آنا پڑے گا۔ کسی قربانی سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ لوگ گھروں سے نکلیں، سفرکریں، بیوی بچوں کو چھوڑیں، کاروبار چھوڑیں، ملازمت چھوڑیں اور اس کے دربار میں کھڑے ہوکے واپس چلے جائیں۔ صرف حاضری دیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر آدمی میدانِ عرفات میں سے ایک منٹ بھی گزارے تو اس کا حج ہو جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے نہیں پہنچ پاتا تو اس کا حج نہیں ہوتا ہے۔
یہ حج کا پہلا اہم ترین فرض ہے۔ پھر اس کے ساتھ بہت ساری چیزیں اور مناسک ہیں لیکن حج کا رکنِ اعظم یہی ہے۔