اس بار جموں کشمیر میں معلق اسمبلی کا امکان تھا، لیکن وہاں واضح فیصلہ نیشنل کانفرنس کے حق میں آیا۔ وہیں ہریانہ میں جہاں تجزیہ کاروں نے کانگریس کی جیت کی پیش گوئی کی تھی، وہاں بی جے پی جیت گئی۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 4:22 PM IST | Barkha Dutt | Mumbai
اس بار جموں کشمیر میں معلق اسمبلی کا امکان تھا، لیکن وہاں واضح فیصلہ نیشنل کانفرنس کے حق میں آیا۔ وہیں ہریانہ میں جہاں تجزیہ کاروں نے کانگریس کی جیت کی پیش گوئی کی تھی، وہاں بی جے پی جیت گئی۔
اس بار جموں کشمیر میں معلق اسمبلی کا امکان تھا، لیکن وہاں واضح فیصلہ نیشنل کانفرنس کے حق میں آیا۔ وہیں ہریانہ میں جہاں تجزیہ کاروں نے کانگریس کی جیت کی پیش گوئی کی تھی، وہاں بی جے پی جیت گئی۔ اگر سرسری طور پر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں انتخابی نتائج کا اسکور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک ایک سے برابر رہا، لیکن جس پارٹی کو دونوں ہی نتائج سے سب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہئے، وہ کانگریس ہے۔ اسے دونوں ہی ریاستوں میں بڑا نقصان ہوا ہے۔
جموں کشمیر میں، توقعات تھیں کہ کانگریس ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی کا مقابلہ کرے گی جبکہ عمر عبداللہ کی زیرقیادت نیشنل کانفرنس وادی پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ اس کے بجائے، کانگریس نے جموں میں بہت سست انتخابی مہم چلائی۔ اس پر عمر عبداللہ نے اپنی مایوسی کااظہار بھی کیا۔
انتخابی دنوں میں جب میں کشمیر میں تھی، میں نے عمر عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔ اُس وقت مجھ سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے ازراہ مذاق یہ بات کہی تھی کہ’’ کانگریس کا رجحان آخری دور میں سب کچھ کرنے کا ہے۔ ‘‘ اُس وقت بھی وہ توقع کر رہے تھے کہ راہل اور پرینکا گاندھی جموں میں زیادہ وقت اور توانائی لگائیں گے، لیکن جیسے ہی ووٹنگ اپنے آخری مراحل میں داخل ہوئی، عمر نے صحافیوں کو یہ بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ کانگریس اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اور یہ نتائج میں بھی نظر آیا۔ کانگریس کی طرف سے جموں کی۴۳؍ میں سے صرف۲۹؍ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے گئے تھے اور ان میں سے صرف ایک سیٹ پرکامیابی ملی۔ جموں میں ۱۹۶۷ء کے بعد سے کانگریس کی یہ بدترین کارکردگی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں مودی لہر کے عروج میں بھی کانگریس نے جموں خطے میں ۵؍ سیٹیں جیتی تھیں۔ وادی میں کانگریس کو جو ۵؍ سیٹوں پر کامیابی ملی ہے، اسے بھی نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ عمر عبداللہ کو کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کا واحد حقیقی فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے ایسا کرکے اُس نازک دور میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے تمام امکانات کو ختم کر دیا تھا جس وقت بہت سے دوسرے آزاد امیدواروں پر دہلی کے نمائندہ ہونے کا الزام لگایا جا رہا تھا۔ اس کا انہیں خاطر خواہ فائدہ ملا۔
کانگریس نے ہریانہ میں انتخابات کے پیش نظر دفعہ ۳۷۰؍ جیسے متنازع مسائل پر کسی بھی پولرائزیشن سے بچنے کیلئئ جموں کشمیر کی فرنٹ لائن سے دوری برقرار رکھی تھی، اس کے باوجود اسے ہریانہ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس شکست نے پارٹی کو دُہرا جھٹکا دیا ہے۔ حد سے زیادہ اعتماد، آپس کی لڑائی، صرف ایک خاندان اور ایک ذات (ہڈا اور جاٹ) کا غلبہ، آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد جنہوں نے نتائج کو چھوٹے فرق سے بدل دیا، یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ ہریانہ میں کانگریس کیلئے کیا غلط ہوا ہے۔
لیکن کانگریس کیلئے شاید سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تنظیم کی طاقت کے بغیر صرف نظریاتی ہم آہنگی کے ذریعے انتخابات نہیں جیتے جا سکتے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس نے پہلوانوں، کسانوں اور جوانوں سے متعلق خدشات کو لے کر عوام کے ایک بڑے طبقے کے اندر پائے جانے والے غصے کو غلط سمجھا ہے۔ ووٹ شیئر میں قریبی مقابلہ (کانگریس کو ۳۹ء۱؍ فیصد ووٹ ملے جو کہ بی جے پی کے۳۹ء۹؍ سے تھوڑا ہی کم ہے) بھی اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ دراصل، ہریانہ میں کانگریس کے ووٹوں میں پچھلے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں ۱۱؍ فیصد کااضافہ ہوا ہےجبکہ بی جے پی کے ووٹوں میں صرف۳؍ فیصد کا ہی اضافہ ہوا ہے لیکن کانگریس اس برتری کو سیٹوں میں نمایاں اضافے میں تبدیل نہیں کر سکی۔ اپنی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے کہ وہ تو جیت ہی رہ ی ہے، اس نے سیٹ مینجمنٹ اور تنظیمی مہارتوں پر کم ہی توجہ دی۔ ۱۳؍ دنوں تک اپنے اہم، بااثر اور سینئر لیڈروں میں سے ایک لیڈر کے انتخابی مہم سے دور رہنے کو کانگریس نہایت خاموشی سے دیکھتی رہی۔ کماری شیلجا کے کئی انٹرویوز میں، جس میں میرے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی شامل ہے، یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہ بھوپیندر سنگھ ہڈا سے ان کے سیاسی تعلقات میں کشیدگی ہے، لیکن کانگریس نے اسے بھی نظر انداز کیا۔ یہ مان لیا گیا تھا کہ پارٹی کے حق میں ’ہوا ‘اتنی تیز ہے کہ یہ سارے تنازعات اور موضوعات کوئی اہمیت نہیں رکھیں گے۔
اس کے باوجودبی جے پی کو سخت محنت کرنے کا کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہئے، اُس وقت بھی جب ہر کوئی اس کی صلاحیتوں کو کم کر کے دیکھ رہا تھا۔ منوہر لال کھٹر کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ کسی بھی تشہیری مہم پر نظر نہ آئیں، کسی حد تک حکومت مخالف جذبات کو روکنے میں کارگر ثابت ہوئے۔ غیر جاٹ ووٹوں کو حاصل کرنے کی بی جے پی کی کوششوں نے ایسے وقت میں اچھا کام کیا جب دلت رائے دہندگان کماری شیلجا کے حاشئے پر جانے سے پہلے ہی مایوس تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ہریانہ کی جیت وزیراعظم نریندر مودی کو مہم کا چہرہ بنائے بغیر حاصل کی۔ مودی نے۲۰۱۴ء میں ہریانہ میں ۱۰؍ ریلیاں کی تھیں جبکہ اس بار انہوں نے صرف ۴؍ جلسے کئے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بی جے پی جارحانہ انداز میں مودی فیکٹر پر سوار ہوئے بغیر بھی جیت سکتی ہے۔ دراصل یہ جیت اس کے تنظیمی ڈھانچے اور انتخابی انتظام کی مضبوطی کے بارے میں بھی بہت کچھ واضح کرتی ہے۔
گراؤنڈ رپورٹ یہ ہے کہ زمین پر پُرجوش انداز میں کام کرنے والے آرایس ایس کےسویم سیوکوں نے یہ فرق پیداکیا ہے۔ اب بی جے پی کے صدر جے پی نڈا شاید ایسی باتیں نہ کہیں کہ بی جے پی، سنگھ کے بغیر بھی اپنا کام چلا سکتی ہے، جیسا کہ انہوں نے لوک سبھا انتخابات کے دوران کہا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ’تنظیم‘ میں طاقت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر نظریاتی موقف کو نشستوں میں مؤثر طریقے سے تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔