ہمارے بزرگوں نے کتنی محنت اور مشقت سے مٹی کے کچے مکان تعمیر کئے تھے۔ اس وقت مکان بنانا بہت مشکل کام تھا۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 4:29 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
ہمارے بزرگوں نے کتنی محنت اور مشقت سے مٹی کے کچے مکان تعمیر کئے تھے۔ اس وقت مکان بنانا بہت مشکل کام تھا۔
ہمارے بزرگوں نے کتنی محنت اور مشقت سے مٹی کے کچے مکان تعمیر کئے تھے۔ اس وقت مکان بنانا بہت مشکل کام تھا۔ آج کے مشینی دور میں پکامکان جہاں چند دنوں میں تیار ہو جاتا ہے، وہیں اُس وقت کچے مکان کی تعمیر میں مہینوں تو کبھی سال بھر سے زیادہ کا وقت لگ جاتا تھا۔ چنانچہ گارے مٹی کے ساتھ اپنا پسینہ نچوڑ کر یہ مکان جب تیارہوتا تھا تو بنانے والا دنیا کے تمام خوب صورت محلات بھول جاتا تھا۔ اپنے مکان کے ساتھ اسے گاؤں کی یہ چھوٹی چھوٹی اور تنگ وتاریک گلیاں دنیا کے تمام خوبصورت شہروں سے بھلی اور پر سکون معلوم ہوتیں۔
کھپرے(کھپریل) کا مکان بنانے کیلئے مٹی جمع کی جاتی تھی۔ اس کیلئے پاس میں ہی بڑا سا گڑھا کھودا جاتا تھا۔ گڑھے سے نکالی گئی مٹی کو کئی مرحلوں میں صاف کرنے کے بعد وہ دیوار بنانے کے قابل ہوتی تھی۔ اس وقت بہت کم لوگوں کی یہ حیثیت تھی کہ وہ مزدور کو پیسے دے کر اپنا کام کرائیں۔ چنانچہ اس دور میں کام کے بدلے کام یا کام کے بدلے اناج دینے کا رواج تھا۔ لوگ خوشی خوشی ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کام کرنے والوں میں کوئی دیوار بنانے کا ماہر ہوتا تھا۔ کسی کو خوبصورت طاق بنانا آتا تھا۔ کوئی کھپرا، نریا چننا خوب اچھی طرح سے جانتا تھا۔ (کھپرا، نریا جس سے کچے مکان کی چھت بنائی جاتی ہے)۔ کھپرا، نریا بنانے کا کام کمہار کرتے تھے لیکن بڑے مکان کیلئے پاس میں ہی مٹی جمع کی جاتی تھی کمہار وہیں پر کھپرا، نریا تیار کرتا تھا پھر، اس کو پکانے کیلئے ’آوا‘ میں ڈال کر آگ کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ تقریباً دو دن مسلسل آگ میں پکنے کے بعدوہ تیار ہوتا تھا۔ ’آوا‘ میں ہی مٹی کے برتن پکائے جاتے تھے۔ یہیں سے سیدھے اور ٹیڑھے برتن نکلتے تھے۔ جیسا ’آوا ‘ ویسا برتن، ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ‘یعنی پوری بھٹی کا بھٹا بیٹھ گیا ہے اور سانچا ٹیڑھا ہو گیا ہے لہٰذا اس ’آوے‘ سے پک کر نکلنے والے جتنے برتن ہیں سب کے سب خراب اور ٹیڑھے میڑھے ہوکر نکلنے لگے ہیں۔ نسیم امروہوی نے خوب کہا ہے ؎
نہیں کرتا کوئی مرض کا مداوا
غرض یہ کہ بگڑا ہے آوے کا آوا
پکے مکانوں کی چھتوں میں سریا، سینک استعمال ہوتی ہے۔ کچے مکان میں لکڑی کی دھنّی جو کافی موٹی ہوتی تھی۔ اسی طرح لکڑی کی ہی بڑیر، کمر بڑیرا اورمنڈیرلگائی جاتی تھی۔ چھت پر پانی نہ رُکےاس کیلئے بڑے ہی سلیقے سے نریا کو ایک دوسرے میں پیوست کیا جاتا تھا۔
کچے مکان کے درمیان میں بڑا سا آنگن ہوتا تھا۔ اس کے چاروں طرف کمرے ہوتے تھے جسے گائوں میں ’بھیتر‘ کہتے تھے۔ اندر داخل ہونے والے برآمدے کو ’اوسار‘ بولا جاتا تھا۔ آنگن کے ایک کونے میں کچن بنایا جاتا، سردیوں کی گنگنی دھوپ میں یہاں ناشتہ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ آنگن کی بڑی اہمیت تھی، خواتین کازیادہ وقت آنگن ہی میں گزرتا تھا۔ یہیں پر وہ گھر کے سارے کام نمٹا تی تھیں۔ گرمیوں کی راتوں میں، یہیں کھلے آسمان کے نیچے سونے کیلئےچارپائیاں ڈالی جاتیں اور بچے آسمان میں چمکنے والے جھل مل تاروں کوگنتے ہوئے سو جاتے تھے۔
’گائوں کی باتیں ‘ آج کس موضوع پر لکھ رہےہو۔ میرا جواب تھا ’کچے مکان‘دس منٹ کے وقفہ کے بعد ریاض الدین خان صاحب نے دوبارہ فون کیا اور یوں گویا ہوئے ... بیٹا ہم نے جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں، وہاں خوبصورت محبتوں کا سامنا ہوا۔ ہمارے گائوں میں اس وقت سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولیات تو نہیں تھیں لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو۔ کائنات کی سب سے خوبصورت شئے جو میسر تھی وہ تھی محبت۔ اس وقت عالم یہ تھا کہ اگر کسی کے یہاں چنے کی دال بھی پکتی تھی تو ہم سب مل کر کھاتے تھے۔ گویا کچے مکان میں رہنے والے ایک دوسرےسے سچی اورپکی محبت کرتے تھے۔ اس وقت آپس میں کتنی اپنائیت تھی کہ اگر کوئی مہمان آ جائے تو وہ پورے گائوں کا مہمان ہوتا تھا، ہر گھر سے کچھ نہ کچھ خاص پکوان تیار کرکےمہمان کے قیام والے گھر میں بھیجا جاتا تھا۔ اب تو ہم ایک ایسے کنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں سے فطرت کا نظارہ بھی نصیب نہیں ہوتا، حالانکہ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی سورج ہے، وہی چاند ہے اور رات میں نکلنے والے تارے بھی وہی ہیں۔ کچے مکانات اور دیہات نے ہمیں خاندانی رشتوں کی مٹھاس دی ہے۔ ہمیں سچی محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا خلوص، صداقت اپنی مٹی اپنے وطن سے ناطہ جوڑنے کا درس دیا ہے۔ اتحاد و اتفاق، مہمان نوازی، ایثار وہمدردی اور خدمت و تعاون کا جذبہ ہم نے انہی کچے مکانات میں رہنے والوں سے سیکھا۔ مٹی کے ان گھروں نے محبت کی عظیم داستانوں اور کرداروں کو جنم دیا ہے، لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ اب نہ وہ کچے مکان ہیں اور نہ وہ کچے راستے۔ اب پکی سڑکیں ہیں اور اس پر دوڑنے والی بے تحاشہ گاڑیاں، جس کے تیز بجنے والے ہارن سے کان پڑی آوازبھی نہ سنائی دے۔ اب گائوں سے گزرنے والے تانگے اور ان کی گھنٹیوں سے نکلنے والی وہ ٹن ٹن کی آواز بھی گزرے دنوں کی بات ہوگئی ہے۔ n