• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حضرت انسؓ فرماتے تھے:’’مَیں دس سال حاضر ِ خدمت رہا، آپؐ کبھی برہم تک نہ ہوئے!‘‘

Updated: July 12, 2024, 4:34 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

اسوۂ حسنہ پر مشتمل اِس نئے سلسلے میں آج رسول اللہ ﷺ کی محبوبیت، چند واقعات اور احادیث میں آپؐ کے اخلاق کا ذکر ملاحظہ کیجئے۔

The Holy Prophet (PBUH) was beloved in Arabia even before the Prophethood, and after the Prophethood, he remained beloved and every Muslim`s heart will be illuminated by the love of the Prophet (PBUH). Photo: INN
آپؐ کی ذات ِ مبارکہ نبوت سے قبل بھی عرب میں محبوب تھی، نبوت کے بعد بھی آپ ؐ محبوب رہے اور تاقیامت ہر مسلمان کا دل حبّ رسولؐ سے منور رہے گا۔ تصویر : آئی این این

صحابہؓ کو اخلاق حسنہ کی تعلیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی معلم اور مربی کی حیثیت رکھتی تھی، اس لئے آپ امت کو بھی اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے رہے، حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل: ۷/۴۱۰، رقم الحدیث: ۲۰۸۷۴) ایک روایت میں ، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے آپؐ کا یہ ارشاد گرامی ملتا ہے: بندہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے اس شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو دن میں روزہ رکھے اور رات میں نماز پڑھے۔ (المعجم الوسیط: ۴/۳۷۲، رقم الحدیث: ۶۲۸۳) حضرت ابو الدرداءؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے: میزانِ عمل میں حسن اخلاق سے بڑھ کر وزن دار کوئی چیز نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد: ۴/۳۳۲، رقم الحدیث: ۴۷۹۹) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ سے دریافت فرمایا: کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتلاؤں جو قیامت کے دن مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا، اور جو میری مجلس میں مجھ سے زیادہ قریب ہوگا، صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ضرور بتلائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کیا، تیسری مرتبہ آپؐ نے فرمایا: یہ وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق تم میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے۔ (مسند امام احمد بن حنبل: ۲/۶۷۹، رقم الحدیث: ۷۰۵۶)
حضرت عقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: اے عقبہ! کیا میں تمہیں یہ نہ بتلادوں کہ دنیا وآخرت کے اخلاق فاضلہ کیا ہیں ؟ (پھر فرمایا) تم اس سے جڑ کر رہو جو تم سے کٹ کر رہنا چاہے، جو تم کو محروم کرے اسے دو، جو تمہیں تکلیف پہنچائے اسے معاف کردو۔ (مجمع الزوائد: ۸/۱۸۸) حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس سے جڑ کر رہوجو تم سے لڑے، جو تمہیں محروم کردے اسے دو، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’(اے پیغمبرؐ) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں ، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ ‘‘ (الاعراف: ۱۹۹) حضرت عبد اللہ بن مبارک کا ارشاد ہے کہ حسن اخلاق یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، لوگوں کو اذیت نہ پہنچائے۔ (ترمذی: ۲/۶۱) حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ عفو ودرگزر، سخاوت، صبر وتحمل، شفقت ورحمت، لوگوں کی حاجت برآری، ان کے ساتھ محبت واخوت کا برتاؤ، اور نرمی کا معاملہ یہ سب حسن اخلاق کے اعمال ہیں۔ (فتح الباری: ۴۵۷)
رسول اللہﷺ کی محبوبیت
یہ وہ اخلاق کریمانہ تھے جن کی وجہ سے آپ کی شخصیت ِ مبارکہ صحابہؓ کے درمیان محبوب ہی نہیں بلکہ محبوب ترین تھی، نبوت سے پہلے بھی آپ مکّے کے لوگوں میں ہر دل عزیز تھے، نبوت کے بعد اگرچہ لوگ آپؐ کے مخالف ہوگئے تھے مگر جو مکارم اخلاق آپؐ کے اندر پائے جاتے تھے ان کے سب معترف تھے۔ قبل نبوت کا ایک واقعہ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ ہر حالت میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتے تھے، آپ کی معیت کے مقابلہ میں انہیں کچھ بھی منظور نہ تھا، نہ ماں ، باپ، نہ بیوی بچے اور نہ کنبہ قبیلہ۔ 
حضرت زید بن حارثہؓ وہ تنہا صحابی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیٹا بنا لیا تھا، اور وہ مکّے میں زید بن محمد کے نام سے معروف بھی تھے، قرآن کریم کے اس اعلان کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے باپ نہیں ہیں ، زید؛ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے تو نہ رہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تعلق خاطر ان سے تھا وہ اسی طرح برقرار رہا۔ خود حضرت زید بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت محبوب رکھتے تھے۔ 
حضرت زید کا تعلق بنوکلب سے تھا، حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے، آٹھ سال کی عمر تھی، اپنی والدہ سعدی بنت ثعلبہ کے ساتھ کسی سفر پر تھے کہ قبیلہ بنی قین کے لوگوں نے ان کے قافلے پر حملہ کردیا، لوٹ مار کی اور کچھ لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، گرفتار شدہ گان میں حضرت زید بھی تھے، حملہ آور انہیں پکڑ کر مکّے لے آئے اور عکاظ کے بازار میں انہیں فروخت کے لئے بٹھا دیا، ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے اپنے بھتیجے حکیم بن حزام سے کہہ رکھا تھا کہ انہیں ایک کم عمر غلام کی ضرورت ہے، کہیں فروخت ہوتا ہوا ملے تو اسے خرید لانا، حکیم بن حزام نے عکاظ کے بازار میں زید کو دیکھا تو اسے خرید کر لے آئے جنہیں بعد میں حضرت خدیجہؓ نے بہ طور تحفہ اپنے شوہر نامدار کی خدمت میں پیش کردیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسوۂ حسنہ ایک جامع تعبیر ہے، آپؐ کے اخلاق، معاملات اور معاشرت سبھی شامل ہیں

حضرت زید ایک آزاد عیسائی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کی گم شدگی سے والدین سمیت سارا گھرانا پریشان تھا، سب لوگ ان کی تلاش میں رات دن ایک کئے ہوئے تھے، جو قافلے بھی ان کی طرف سے گزرتے ان کو زید کی نشانیاں بتلائی جاتیں اور ان سے گزارش کی جاتی کہ وہ اس بچے کے بارے میں معلومات کریں ، اتفاق سے انہی دنوں قبیلے کے کچھ لوگ حج کے لئے مکّہ گئے، وہاں انہوں نے حضرت زید کو دیکھا اور پہچان لیا۔ حج سے واپسی پر انہوں نے زید کے والدین کو بتلایا کہ تمہارا بیٹا مکّہ میں فلاں خاندان کے فلاں شخص کے پاس ہے، حضرت زید کے والد اور چچا بچے کو لینے کے لئے اسی وقت چل پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے، عرض کیا: اے اولاد ہاشم! تم اپنی قوم کے سردار ہو، حرم کے رہنے والے ہو، اللہ کے گھر کے پڑوسی ہو، قیدیوں کو رہا کراتے ہو، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہو، ہم اپنے بیٹے کی تلاش میں یہاں آئے ہیں ، ہم پر احسان کرو، یہ زر فدیہ ہے، اسے قبول کرکے ہمارا بچہ ہمارے حوالے کردو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو بلایا اور فرمایا: یہ ہے وہ بچہ جس کی تلاش میں تم نے یہاں کا سفر کیا ہے، اس سے معلوم کرلو، اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں فدیہ کے بغیر ہی اسے آزاد کرتا ہوں ، وہ تمہارے ساتھ جاسکتا ہے، اور اگر نہ جانا چاہے تو میں اسے جانے کے لئے مجبور نہیں کرسکتا، حضرت زید سے پوچھا! کیا تم ان دونوں کو پہچانتے ہو، انہوں نے عرض کیا: جی ہاں ! یارسولؐ اللہ! یہ میرے والد ہیں اور یہ دوسرے میرے چچا ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ان کے ساتھ جانا چاہو تو جاسکتے ہو، اور نہ جانا چاہو تو تم پر کوئی زبردستی نہیں کرسکتا، حضرت زیدؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! بھلا میں آپؐ کے مقابلے میں کسے پسند کرسکتا ہوں ، آپؐ میرے باپ بھی ہیں اور چچا بھی۔ باپ اور چچا نے پوچھا کہ زید کیا تم آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو، انہوں نے عرض کیا: ہاں ! میں نے ان میں ایک ایسی بات دیکھی ہے کہ میں اس کے لئے اپنے باپ کو تو کیا پوری دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بے حد خوش ہوئے، ان کو اسی وقت آزاد کردیا، اور خانۂ کعبہ میں جاکر اعلان کردیا کہ آج سے زید میرا غلام نہیں بلکہ میرا بیٹا ہے۔ حضرت زید کے والد اور چچا بھی مطمئن ہوکر چلے گئے کہ ان کا بیٹا بنی ہاشم کے ایک اعلیٰ گھرانے کے ایک ذی عزت شخص کے پاس اس کے بیٹے کی حیثیت سے رہ رہا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاؤ اپنے غلاموں کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا کہ وہ لوگ بھی کسی قیمت پر آپ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابہ: ۱/۶۴۳)
حدیث کی کتابوں میں اخلاقِ رسولﷺ کا ذکر
جس طرح قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کا بہ طور خاص ذکر فرمایا ہے اسی طرح حدیث کی کتابوں میں بھی محدثین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر خاص ابواب قائم کئے ہیں اور ان ابواب کے تحت احادیث بیان کی ہیں، مشہور محدث امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب ’’الشمائل المحمدیہ‘‘ میں باب ماجاء فی خُلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قائم کیا اور اس کے تحت مصنف نے بہ طور نمونہ پندرہ حدیثیں نقل کرکے محمدی اخلاق کی ایک معمولی سی جھلک پیش کی ہے، ان میں سے چند حدیثیں یہ ہیں:
ایک صحابی ہیں حضرت زید بن ثابتؓ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور عرض کیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات ہمیں سنائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تمہیں کیا حالات سناؤں (کہ وہ بیان سے باہر ہیں ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوسی تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ لکھنے کے لئے مجھے بلالیا کرتے تھے، میں حاضر ہوکر لکھ لیا کرتا تھا، (آپؐ کے اخلاق اور مروّت کا حال یہ تھا کہ) جس قسم کا تذکرہ بھی ہم کرتے تھے آپؐ بھی اسی طرح کا تذکرہ فرماتے تھے، جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو آپؐ بھی آخرت کا ذکر فرماتے، اگر کھانے پینے کا ذکر ہوتا تو آپؐ بھی کھانے پینے کا تذکرہ فرماتے۔ (الشمائل المحمدیہ: ۱/۱۹۵، رقم الحدیث: ۳۲۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں صحابہؓ کی آمد ورفت کا سلسلہ شب وروز جاری رہتا، بعض حضرات عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں سنتے، بعض تنہائی اور خلوت میں بھی ہم نشینی کا شرف حاصل کرلیتے تھے، ہر زائر کے ساتھ آپؐ کا لطف وکرم، توجہ اور عنایت کا معاملہ یکساں ہوتا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ قوم کے بدترین شخص کی طرف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قلب کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف مائل کرنے کی غرض سے اپنی خاص توجہ مبذول فرماتے اور اس سے گفتگو کرتے، خود میری طرف بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کا یہی حال تھا، اس سے میں یہ سمجھنے لگا کہ میں قوم کا بہترین شخص ہوں۔ 
حضرت انس بن مالکؓ کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے، کم عمری میں حضرت انسؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں کام کاج کے لئے رکھا گیا تھا، بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ سے فرمایا کہ گھر کے کاموں کے لئے کوئی لڑکا تلاش کرکے لاؤ، وہ تلاش کرہی رہے تھے کہ حضرت انسؓ کی والدہ خود انہیں لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچ گئیں ، حضرت انسؓ کی روایات میں ہے کہ انہوں نے دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اس عرصے میں یقینی طور پر کچھ ناگوار امور بھی سامنے آئے ہوں گے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا حال یہ تھا جیسا کہ حضرت انسؓ خود فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی کسی بات پر اف تک نہیں فرمایا، نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا، اور نہ کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا، حضرت انسؓ مزید فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق لوگوں میں سب سے بہتر تھے، (ایسے ہی جسمانی اعتبار سے بھی آپ سب سے اچھے تھے چناں چہ) میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا یا خالص ریشم یا کوئی اور نرم چیز ایسی نہیں چھوئی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور میں نے کبھی کسی قسم کا مشک یا کوئی عطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے زیادہ خوشبودار نہیں پایا۔ (الشمائل المحمدیہ: ۱/۱۹۶، رقم الحدیث: ۳۲۸)
شمائل ترمذی میں تو یہ روایت اسی قدر ہے، مگر حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں یہ حدیث قدرے تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت انسؓ صحابہ سے یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں دس سال تک رہا، آپ نے نہ کبھی مجھے برا بھلا کہا، نہ مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ مجھ پر غصہ کیا، نہ کسی کام میں سستی کرنے پر مجھے جھِڑکا، بلکہ اگر کوئی دوسرا مجھ پر ناراض ہوتا تو آپ فرماتے، اسے کچھ نہ کہو، جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ (ابونعیم بحوالہ المواہب اللدنیہ ص: ۲۵۲) 
شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ حضرت انسؓ کے یہ چند جملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا روشن عنوان ہیں ، ان جملوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر، حسن معاشرت، تحمل برداشت، بردباری، عفو ودرگزر، چشم پوشی اور تسامح، زبان کی حفاظت، خادموں پر شفقت، بندگان خدا کی تالیفِ قلب ان کے ساتھ محبت وغیرہ جیسے اوصاف کی بہترین منظر کشی ہوتی ہے۔ (المواہب اللدنیہ ص:۲۵۲) (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK