• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اگر آج نیتاجی زندہ ہوتے تو کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ اس طرح مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دیتا‘‘

Updated: December 08, 2024, 4:48 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

ہارورڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر اپنی خدمات انجام دینے والے کئی کتابوں کے مصنف اور سابق رکن پارلیمان سگاتا بوس نے اپنی کتاب ’ہِز میجیسٹیس اوپونینٹ ‘ میں اپنے دادا کے سگے بھائی سبھاش چندر بوس کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔

In proportion to the Muslim population in united India, the number of Muslims in the Indian Army was significant. Photo: INN
متحدہ ہندوستان میں مسلم آبادی کے تناسب سے آزاد ہند فوج میں مسلمانوں کی تعداد خاصی تھی۔ تصویر: آئی این این

’’تم مجھے خون دو، میں تمھیں آزادی دوں گا۔ ‘‘ سوزِ یقیں سے غلاموں کے لہو کو گرمانے والا یہ نعرہ، ہمیں عظیم حُریت پسند، سُبھاش چندر بوس کی یاد دلاتا ہے۔ اُن کی زندگی حرکت سے عبارت تھی۔ غیر متزلزل اصولوں اور فرض کے پختہ احساس کی مجسم مثال، اس مقناطیسی شخصیت کو عوام نے نیتاجی کہہ کر پکارا۔ کرشماتی شخصیت جو متنازع اور آخر میں پُراسرا ربھی نظر آتی ہے۔ اُن کی سوانح’ہِز میجیسٹیس اوپونینٹ: سبھاش چندر بوس اینڈ انڈیاز اسٹرگل اگینسٹ امپائر‘( بادشاہ سلامت کا رقیب :سبھاش چندر بوس اور سامراج کے خلاف ہندوستان کی جدو جہد) ایک ماہر تاریخ داں کی تحقیق ہے جو عمدگی سے قاری کے ذہن کے دریچوں کو واکرتی ہے۔ سگاتا بوس کی یہ شاندار کتاب نیتاجی کی سیاسی، سماجی، نظریاتی اور نجی وابستگیوں پر سیر حاصل بصیرت دیتی ہے۔ 
 ڈاکٹر سُگاتا بوس ماہر تاریخِ جنوبی ایشیا ہیں۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ اپنی تحقیق کے ذریعے عالمی سطح پر نوآبادیاتی عہد کے مسائل، آزادی کی تحریکوں اور قومیتوں کے پیچیدہ تعلقات کو نمایاں انداز میں بیان کرتے رہے ہیں۔ اُن کا علمی سفر صرف اعلیٰ درجے کی تحقیق تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی اہم کتابیں بھی تصنیف کی ہیں، جن میں مذکورہ کتاب خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ سگاتا، ترنمول کانگریس کے ایم پی رہے۔ انھوں نے لوک سبھا میں اقلیتوں کے حقوق پر آواز بھی اٹھائی۔ سگاتا بڑی عرق ریزی اور عمیق مطالعے کے بعد اس سوانح حیات میں اپنے دادا کے سگے بھائی سبھاش چندر بوس کی حیات و خدمات کو اجاگر کرتے ہیں۔ کتاب نیتاجی کی شخصیت اور اُن کے انقلابی خیالات کی تفصیلات دلکش انداز میں پیش کرتی ہے۔ 
زندگی اِک جہدِ مسلسل
 سبھاش چندر بوس ۱۸۹۷ء میں کٹک میں پیدا ہوئے۔ کلکتہ کے مشہور پریسیڈنسی کالج میں تعلیم کے دوران ایک انگریز پروفیسر کے ہندوستان مخالف تبصرے پر احتجاج کے سبب وہ کالج سے خارج کردیئے گئے۔ پھر اسکاٹش کالج سے ڈگری مکمل کی۔ انگلستان میں سِول سروس کا امتحان پاس تو کیا لیکن غیر کے آگے جُھک کر تن اور من کو کھودینے پرخود کو راضی نہ کرسکے۔ ۱۹۲۱ء میں کانگریس کی رکنیت لی۔ نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پُرسوز تھی، جلد ہی مقبول عوامی رہنما بن گئے۔ ۱۹۲۵ء میں برما میں مقید رہے۔ رہائی پر کانگریس کی نوجوان وِنگ کو منظم کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:اینٹی بائیوٹک کا کثرت سے استعمال پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے

سبھاش چندر بوس نے۱۹۳۰ء کی سول نافرمانی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ۱۹۳۳ء تا ۱۹۳۶ء یورپ میں سرگرم رہے۔ مسولینی جیسے لیڈروں سے ملاقات کرکے ہندوستان کی آزادی کیلئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ۱۹۳۸ء میں کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور ہندوستانیوں کی اقتصادی خود کفالت کی حمایت کی۔ ۱۹۳۹ء میں کانگریس سے استعفے دے کر فارورڈ بلاک قائم کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کلکتہ میں گرفتار ہوکر نظر بند کردیئے گئے۔ خفیہ طور پر افغانستان اور سوویت یونین کے راستے یورپ پہنچے۔ پھر جرمنی اور جاپان کی حکومتوں کے ساتھ مِل کر برطانیہ کے خلاف ہندوستان کی آزادی کیلئے لڑتے رہے۔ ۱۹۴۳ء میں، سنگاپور میں آزاد ہند فوج کی قیادت سنبھالی اور آزاد ہندوستان کی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ اِمپھال اور کوہیما میں جیشِ حُریتِ ہند نے برطانوی فوج کے دانت کھٹّے کئے۔ نیتاجی کی موت کےمتعلق عرصے تک افواہیں گردش میں رہیں۔ ۱۹۴۵ء میں، تائیوان میں ایک لڑاکا طیارے کے حادثے میں اُن کی موت نے بوس کو ایک افسانوی ہیرو میں بدل دیا تھا۔ 
مسلمانوں کی جاں نثاری
 نفرت انگیز تقریروں کےپس منظر میں، دو سال قبل سگاتا بوس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ اگر آج نیتاجی زندہ ہوتے تو کسی کہ ہمت نہ ہوتی کہ اس طرح مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکی دیتا۔ ‘‘ سبھاش غایت درجے کے غیر متعصب اور سب کا یکساں احترام کرنے والے لیڈر تھے۔ نیتاجی کے مِلٹری سیکریٹری محبوب احمد نے مصنف سے کہا تھا کہ ’’ مجھے گاندھی اور نہرو دونوں کے ساتھ کام کا موقع ملا لیکن ایک شخص جس کیلئے میں جان دے سکتا تھا تو وہ نیتاجی تھے۔ ‘‘ فرار ہوکر نیتاجی جب صوبہ سرحد پہنچے تو وہاں میاں اکبر شاہ نے اُن کا استقبال کیا اور مدد فراہم کی۔ جرمن آبدوز کی پُر خطر زیرِ آب مہم میں ان کے ہمراہ عابد حسن تھے۔ حبیب الرحمان، نیتاجی کے ساتھ اُن کے آخری ہوائی سفر میں شریک تھے۔ 
 متحدہ ہندوستان میں مسلم آبادی کے تناسب سے آزاد ہند فوج میں مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ اس لشکر کے نسوانی دستے، جھانسی کی رانی رجمنٹ میں مسلم خواتین بھی خاطر خواہ تعداد میں شامل ہوئیں۔ کمانڈر شاہنواز خان نے برما اور شمال مشرقی ہندوستان کی مہمات کی قیادت کی تھی۔ شاہنواز، ڈھلوں اور سہگل کے ساتھ، ۱۹۴۵ءکے مشہور لال قلعہ مقدمہ کے ملزم تھے۔ آزاد ہند فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف کیپٹن محمد زمان کیانی نے برما میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سینئر افسر عزیز احمد نے فوجیوں کی تنظیم و تربیت اور مشکل حالات میں میں اُن کے حوصلوں کو بلند رکھنے میں بڑا رول ادا کیا تھا۔ ایم اے حسن نے سنگاپور اور اطراف میں مقیم ہندوستانیوں کو نیتاجی کی حمایت میں متحرک کیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں مالی اور دیگر تکنیکی مدد فراہم کی۔ کیپٹن عباس علی، میجر عبدالرشید اور نہ جانے کتنے افسران نیتاجی کے شانہ بشانہ اپنی جان کی بازی لگاتے رہے۔ کتاب سیکڑوں ہندو، مسلم اورسکھ ہندوستانیوں کا تذکرہ کرتی ہے جنھوں نے نیتاجی کا ساتھ دیا اور سامراج کے خلاف جدوجہد کی۔ اس مبصر کا قلب ان سب کے تئیں احترام کے جذبات سے معمور ہے۔ 
 ٹیپو سلطان کاجھپٹتا ہوا شیر، آزاد ہند فوج کا امتیازی نشان تھا۔ اتحاد، اعتماد، قربانی یہ تین اُردو الفاظ اُس کے موٹو میں شامل تھے۔ نیتاجی یہ مانتے تھے کہ ہندوستان میں انگریزوں سے پہلے کے دور کومسلم حکومت کہنا درست نہیں بلکہ وہ ہندوستانیوں ہی کا ایک مِلا جُلا انتظامی سسٹم تھا۔ اُن کا سیاسی فلسفہ ’سامیہ واد‘ یعنی مساوات تھا۔ آزاد ہند ریڈیو کی نشریات، سراج الدولہ ڈے کا اعلان، سنگاپور میں شاندار استقبال، فوجی مہمات کی سنسنی خیزی، کتاب کیا ہے، علم و بصیرت کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔ 
اختلافات اور تنازعات
 کتاب متنازع معاملات کی حساسیت کو مد نظر تو رکھتی ہے، لیکن صاف گوئی سے پہلو تہی بھی نہیں کرتی۔ مذہبی و لسانی اقلیتوں کو طاقت میں ایماندرانہ اور مناسب حصہ داری کے متعلق بوس کے نظریات کی قدر نہیں کی گئی۔ مصنف کے مطابق نیتاجی کی کانگریس سے علاحدگی کو عجلت پسندی کے بجائے ایک پُرخلوص نظریاتی اختلاف کی شکل میں دیکھا جانا چاہئے۔ ۱۹۳۹ء میں کانگریس کے صدارتی الیکشن میں گاندھی جی کے تائید کردہ امیدوار کے مقابل بوس کو واضح فتح ملی لیکن کانگریس کے دائیں بازو نے جو ہتھکنڈے اپنائے وہ کارگر ثابت ہوئے۔ بوس کانگریس چھوڑنے پر مجبور ہوئے لیکن اس کے باوجود آزاد ہند فوج کے پہلے تین دستوں کے نام انھوں نے گاندھی، نہرو اور آزاد کے نام پر رکھے۔ بوس کے دل میں گاندھی کے عدم تشدد کی قدر تھی لیکن وہ سوچ سمجھ کر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ سامراج کا ظلم ستم ایک انقلابی جدو جہد اور راست تصادم کا مطالبہ کر رہا تھا۔ وندے ماترم تنازع پر، کتاب بیش بہا معلومات فراہم کرتی ہے۔ مئی ۱۹۳۸ء میں ہندومسلم سیاسی مفاہمت کی خاطر سبھاش، جناح سے مِلے اور مذاکرات کی شروعات ہوئی۔ اس وقت نیتاجی کو احساس ہوا کہ اُن کے دوست نہرو نے اُن کیلئے مذاکرات کو پیچیدہ کر دیا تھا۔ ۱۹۳۷ء کی انتخابی فتوحات کے بعدبحیثیت صدرِ کانگریس نہرو کے اِس بیان نے اعتماد کی فضا کو غبار آلود کردیا تھا کہ ہندوستان میں دو ہی پارٹیاں ہیں : انگریز اور کانگریس۔ مصنف اس بیان کو’متکبرانہ‘ لکھتا ہے۔ 
 مصنف، دوسری عالمی جنگ میں، محوری طاقتوں یعنی اٹلی جرمنی اور جاپان کے ساتھ، نیتاجی کے تعاون کا بھی گہرائی سے تجزیہ کرتا ہے۔ اُن کا یہ اتحاد، نازی فلسفے یا فاشزم سے قائل ہونے کا مظہر ہرگز نہ تھا۔ اُن کی حکمتِ عملی کو اُس زمانے میں موجود محدود متبادلات کے پس منظر میں ، عملیت پر مبنی ایک ترکیب کی شکل میں دیکھا جانا چا ہئے۔ 
 آزاد ہند فوج کو بہت زیادہ کامیابیاں نہ مل سکیں لیکن ان عسکری کاروائیوں کے نتیجے میں ہندوستان کی مجموعی تحریک آزادی کو ایک زبردست نفسیاتی فتح ملی۔ لاکھوں ہندوستانیوں کو یہ احساس ہوا کہ آزادی محض ایک خواب نہیں بلکہ زندہ حقیقت بن سکتی ہے۔ ان میں تحریک آزادی سے جُڑنے کا جذبہ بیدار ہوا۔ 
 آزاد ہندوستان اور ایشیا کیلئے سُبھاش کا وِیژن کیا تھا؟ ہماری جدوجہد صرف برطانوی راج سے آزادی کیلئے نہیں ہے بلکہ ایک عظیم انقلاب کیلئے ہے جو ایشیا اور دنیا کو جگائے گا۔ ایک آزاد ہندوستان کو انصاف اور مساوات کیلئے کھڑا ہونا چاہئے، نہ صرف اپنے لئے بلکہ ان تمام لوگوں کیلئے جو ظلم کا شکار ہیں۔ موجودہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی گرتی ہوئی صورتحال میں، بالخصوص نئی نسل کے نقطہ نظر کی اصلاح میں یہ کتاب بھرپور معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK