• Sun, 19 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایچ ایم پی وی پرعالمی میڈیا میں کوئی ہلچل نہیں پر ہندوستانی میڈیا کی عجیب خبریں

Updated: January 19, 2025, 9:11 PM IST | Ejaz Abdul Ghani | Mumbai

نئے سال میں قدم رکھتے ہی دنیا بھر میں کوویڈ- ۱۹؍ جیسی وبائی بیماری ہیومن میٹا نیومو وائرس (ایچ ایم پی وی) کے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ حالانکہ مرکزی محکمہ صحت نے اس وائرس کو پرانا بتاتے ہوئے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہےلیکن عوام کورونا کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے خوف زدہ ہورہی ہے۔

HMPV is not a new virus, it was first found in the Netherlands in 2001. Photo: INN
ایچ ایم پی وی کوئی نیا وارئرس نہیں ہے، پہلی بار یہ ۲۰۰۱ء میں نیدر لینڈ میں پایا گیا تھا۔۔ تصویر: آئی این این


نئے سال میں قدم رکھتے ہی دنیا بھر میں کوویڈ- ۱۹؍ جیسی وبائی بیماری ہیومن میٹا نیومو وائرس (ایچ ایم پی وی) کے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ حالانکہ مرکزی محکمہ صحت نے اس وائرس کو پرانا بتاتے ہوئے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہےلیکن عوام کورونا کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے خوف زدہ ہورہی ہے۔ رہی سہی کسر ہندوستانی میڈیا پوری کررہا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں مختلف شک و شبہات اور اندیشوں کے درمیان غیر اردو اخبارات نے ایچ ایم پی وی سے متعلق کیا کچھ لکھا ہے۔ 
مضبوط نظام صحت کی ضرورت
 مراٹھی اخبار ’’لوک مت‘‘ نے ۷؍ جنوری کے اداریہ میں لکھا ہے کہ’’کورونا کا نام سنتے ہی پوری دنیا خوفزدہ ہو جاتی ہے۔ اس عالمی وبائی بیماری نے بے شمار جانیں لیں اور نہ جانے کتنا نقصان کیا۔ اب جبکہ دنیا اس بحران سے باہر نکل رہی ہے، ایک بار پھر وبائی بیماری نے ہمارے دروازہ پر دستک دی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایک نیا وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ عالمگیریت صرف نالج تک محدود نہیں بلکہ اب وبائی امراض بھی عالمی شہرت اختیار کررہے ہیں۔ ۱۸۹۲ء میں پونے سمیت ہندوستان بھر میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی۔ آج بھی اس کا چرچا ہوتا ہے۔ ساوتری بائی پھلے کا انتقال طاعون کے مریضوں کی خدمت کرتے ہوا تھا۔ عالم کاری کے بعد کئی آفات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جب تک آپ ایک وبا سے صحت یاب ہوتے تب تک دوسرا انفیکشن سامنے آجاتا ہے۔ سوائن فلو، ایبولا، زیکا کے بعد کورونا نے انسانی زندگی تباہ کردی ہے۔ اسی ذیل میں ایک نئی بیماری نے بے چینی پیدا کردی ہے۔ ہیومن میٹا نیومو وائرس( ایچ ایم پی وی) نے چین میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ ہندوستان اس وائرس کا پہلا مریض بنگلور میں پایا گیا ہے۔ اب ہم پر اس وائرس کی منتقلی کو روکنے کی بڑی ذمہ داری ہے۔ اس میں انتظامیہ اور شہریوں کا کردار بہت اہم ثابت ہوگا۔ بنیادی طور پر گھبرانے اور کورونا سے موازانہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب کو خیال رکھنا ہوگا کہ نیا وائرس پھیلنے نہ پائے اس کیلئے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوگا۔ ۲۰۲۰ء میں چین سے آنے والے کورونا نے ہمیں سکھایا کہ صحت کا ایک قابل اور مضبوط نظام ہونا کتنا ضروری ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: کلیان: ایک کروڑ ۴۳؍ لاکھ روپے سے زائد کا مسروقہ سامان ان کے مالکان کو لوٹایا گیا

کمزور مدافعتی نظام والوں  کیلئے خطرہ
مراٹھی اخبار’’ایک مت‘‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’پانچ سال قبل کورونا `نامی وائرس نے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے اس وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچائی تھی۔ وائرس کی ابتداء کیسے ہوئی اس کی تحقیقات اب تک جاری ہے۔ اب اس میں ایک اور نئے وائرس کا اضافہ ہوا ہے۔ وائرس کا نام `ہیومن میٹا نیومو وائرس `(ایچ ایم پی وی)ہے اور یہ بھی چین سے پھیل رہا ہے۔ نئے وائرس نے چین میں ایسی ہی صورتحال پیدا کردی ہے جیسی کورونا نے دنیا بھر میں پیدا کردی تھی۔ اسپتال نئے وائرس سے متاثرہ مریضوں سے بھر گئے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جان بحق ہونے والے مریضوں کیلئے قبرستانوں میں جگہ ختم ہورہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے اور چین نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔ ایچ ایم پی وی کی علامت عام طور پر کورونا وائرس سے ملتی جلتی ہے۔ یعنی کھانسی، نزلہ اور بخار جیسی علامات ہیں۔ چین کے کئی حصوں میں وائرس کا پھیلاو بڑھتا جارہا ہے۔ اس لئے محکمہ صحت نے لوگوں سے ماسک لگانے اور بار بار ہاتھ دھونے کی اپیل کی ہے۔ یہ وائرس کسی متاثرہ شخص یا آلودہ ماحول سے رابطے کے ذریعہ بھی پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس سردیوں میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ چھوٹے بچے، بوڑھے کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہیں اور کمزور مدافعتی نظام والے نئے وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ نئے وائرس کے خلاف ابھی تک کوئی ویکسین تیار نہیں کی گئی ہے۔ شنگھائی میں عمل تنفس کے ماہر نے خبردار کیا ہے کہ طبی مشورے کے بغیر نئے وائرس کے علاج کیلئے اینٹی وائرل ادویات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگرچہ علامات ایک عام نزلہ زکام سے ملتی جلتی ہیں۔ ‘‘
کورونا کے دور کا خوف تازہ
 ہندی اخبار’’لوک مت سماچار‘‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ہیومن میٹا نیومو وائرس(ایچ ایم پی وی ) کے حوالے سے ملک بھر میں تشویش پائی جارہی ہے۔ ملک کو کورونا بحران سے باہر آئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔ کورونا کی ہولناکیوں کے پیش نظر ایچ ایم پی وی کے متعلق فکر مند ہونا فطری ہے۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس کووڈ ۱۹ کے بحران کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ تاہم طبی ماہرین نے یقین دلایا ہے کہ اس وائرس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وائرس متعدی ضرور ہے مگر کوویڈ ۱۹ جیسا مہلک نہیں ہے۔ ہندوستان میں اس وائرس کے دو کیس کرناٹک اور ایک گجرات میں سامنے آیا ہے۔ یہ وائرس سانس لینے، زکام اور کھانسی جیسے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ وائرس پہلے سے موجود ہے اور اس سے متاثر ہونے والا مریض تین سے پانچ دن میں تندرست ہوجاتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس وائرس کا تیزی سے پھیلاو خوف پیدا کررہا ہے۔ کوویڈ ۱۹ سے ہونے والی اموات کی تعداد یومیہ ہزاروں میں ہوتی تھی۔ یہ وائرس دنیا کیلئے بالکل نیا تھا۔ ڈاکٹرز اس کے علاج کے طریقوں سے لا علم تھے۔ ایسی کوئی دوا دستیاب نہیں تھی جو کوویڈ ۱۹ کو ختم کرسکے۔ ڈاکٹر اور سائنس داں ہر طرح کے تجربات کررہے تھے۔ کوویڈ کے مریضوں کے علاج کیلئے مختلف قسم کی اینٹی بائیوٹک استعمال میں لائی جا رہی تھی۔ بالآخر سائنس دانوں کی محنت رنگ لائی اور اب کوویڈ ۱۹ ایک معمولی سا وائرس بن کر رہ گیا ہے۔ ایچ ایم پی وی کے ساتھ ایسا کچھ معاملہ نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کی نظر میں یہ ایک ایسا وائرس ہے۔ جو بہت عام ہے اور اس کا علاج آسانی سے دستیاب ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: کلیان : نکڑ ناٹک کے ذریعے نشہ کیخلاف بیداری پیدا کرنے کی کوشش

ہندوستانی میڈیا کا رویہ 
انگریزی اخبار’’ دی ہندو‘‘ نے اپنے ذمہ دارانہ اداریہ میں لکھا ہے کہ کورونا بحران کے ۵؍ سال بعد چین کے ووہان شہر میں ہیومن میٹا نیومو وائرس(ایچ ایم پی وی ) نے بچوں اور بوڑھوں کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ چین کے شمالی صوبوں میں سانس لینے اور انفلوئنزا کے متعدد معاملات سامنے آرہے ہیں۔ تاہم سال کے ان مہینوں میں سانس کی بیماریوں میں اضافہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یو ایس سینٹر فار ڈیسیز نے ایچ ایم پی وی وائرس سے متعلق ابھی تک کوئی ایڈوائزی جاری نہیں کی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں اس تعلق سے کوئی ہلچل نہیں ہے لیکن ہندوستانی میڈیا چین میں پھیلے وائرس کے تعلق سے عجیب عجیب خبریں نشر کررہا ہے۔ مرکزی وزارت صحت نے جوائنٹ مانیٹرنگ گروپ کی ایک حالیہ میٹنگ میں بتایا کہ’’ چین کی صورتحال غیر معمولی نہیں ہے۔ اس موسم میں وہاں زکام، کھانسی اور سانس لینے کی بیماریاں عام بات ہے۔ ۲۰۰۱ میں پہلی بار نیدرلینڈ میں بچوں میں ایچ ایم پی وی کی علامت پائی گئی تھی۔ یہ وائرس عام طور پر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں پایا جاتا ہے۔ وائرس کی وجہ سے مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ اگرچہ یہ وائرس ہلکی بیماریوں کا سبب بنتا ہے تاہم کبھی کبھار اس میں شدت بھی آ جاتی ہے۔ ایک تحقیقی مقالہ کے مطابق کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ایچ ایم پی وی کی وجہ سے موت کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ ‘‘

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK