• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حضور اکرم ﷺ اور انکشاف ِحقیقت: انوکھا تجربہ، اولین درس ِ خداوندی

Updated: October 23, 2024, 3:47 PM IST | Syed Asad Gilani | Mumbai

اُس دور کا ذکر جب رسولؐ اکرم اللہ کی بڑائی بیان کرنے، اس کی کبریائی کا سکہ جمانے اور اُس کے مدمقابل کھڑے ہونے، شرک کی ہر قباحت و کثافت کو مٹانے کیلئے صبر و ہمت اور جوش و جذبے کے ساتھ کھڑے ہوگئےتھے۔

Ghar-e-Hira, located at the foot of Jabal Buqbis, is where the first revelation was revealed to the Holy Prophet. Photo: INN
جبل بوقبیس کے دامن میں واقع غارِ حرا، جہاں نبی کریم ؐ پر اولین وحی نازل ہوئی تھی۔ تصویر : آئی این این

جسم اور روح کے رشتے میں پانی کی ایک چھاگل اور ستو ّکی ایک پوٹلی ہی ایک واضح نشانی باقی رہ گئے تھے۔ باقی دنیا بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اور انہیں حقیقت کی تلاش تھی۔ حقیقت کی تلاش ہی مقصد ِ زندگی بن کر رہ گئی تھی۔
 وہ حقیقت جو ضمیر ِ انسانی میں جھلکتی ہے، وہ حقیقت جو فطرت ِ انسانی میں بولتی ہے، وہ حقیقت جو پیشانی کے واضح خطوط میں نشانِ بندگی بن کر ابھرتی ہے، وہ حقیقت جو تخلیق بن کر خالق کے وجود پر مجسم گواہی پیش کرتی ہے، وہ حقیقت جو بندے کے عجز و عبودیت میں رحم و شفقت کی بھرپور اور اطمینان ِ قلب کی پُرسرور پکار بن کر سامنے آتی ہے۔ وہ حقیقت کہاں ہے؟ وہ حقیقت کدھر ہے؟ عاجز بندے کو اس حقیقت کی بہت تلاش ہے۔ اے حقیقت ِ منتظر! تو کہاں ہے؟ اضطراب ِ بندگی تیری تلاش میں ہے۔
  سر سجدے میں ہے۔ غور و فکر کا عمل جاری ہے۔ بوقبیس کا بلند و بالا پہاڑ ہے۔ اس کے بلند و بالا دامن میں ایک مختصر سا غار ہے۔ صدیوں سے اس غار میں کبھی کوئی نہیں آیا ہے، لیکن اب کچھ مدت سے ایک انسان اس غار کا مکین ہے۔ وہ انسانِ عظیم جس کا شہر میں اپنا گھر بھی موجود ہے، اس کے گھر میں آسائش کے سارے سامان موجود ہیں، اس کےبیوی بچے ہیں، اس کا کاروبار ہے، اُسے فارغ البالی حاصل ہے، لیکن ان سب آسائشوں کے درمیان وہ سخت مضطرب ہے، اس کا دل مضطرب ہے، اس کا ذہن سوچتا ہے، اس کی فکر پہنائے کائنات میں تلاش حقیقت میں سرگرداں ہے۔ اے حقیقت ِ عظمیٰ تو کہاں ہے، بندۂ عاجز کو تیری تلاش ہے، تیرا انتظار ہے۔ اے حقیقت ِ کبریٰ تیرے انکشاف کا انتظار ہے۔
  بندے کو اب ایک شے مل گئی ہے، جو نشانِ بندگی ہے، وہ شے سجدۂ عبودیت ہے۔انتہائی اضطراب میں، ہجوم میں اور تلاشِ حقیقت کے پرشور تصورات میں وہ جب کبھی حقیقت ِ عظمیٰ کے سامنے سربسجود ہوتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ اس کے سکون کا سب سے بڑا مرکز اُس کا اپنا سجدہ ہے۔ غارِ حرا میں حقیقت ِ عظمیٰ کے سامنے ایک بھرپور سجدہ، جس میں بندے کی بندگی کا سارا عجز سمٹ کر خالق ِ اکبر کے سامنے نذر کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: زوال کا وقت بہت قلیل ہوتا ہے،عمرہ سے متعلق ایک مسئلہ،ایک طرف سے ڈبل دلالی لینا

مکمل خانہ داری اور بھرپور دنیاداری کی زندگی سے گریز جاری ہے۔ سارا سکون اب پہاڑ کی اِسی کھوہ میں سمٹ آیا ہے۔ دل کو کسی کی تلاش ہے، ذہن کو کسی کی تلاش ہے، حواس کو کسی کی آمد کا احساس ہے۔ کوئی بتائے کہ یہ کائنات کیا ہے؟ اس کا خالق کون ہے؟ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم کون ہیں اور کیوں ہیں ؟ دل مضطرب ہے اور پیشانی مالک کے آگے جھکی پڑتی ہے۔ میرے آقا، میرے آقا تو کہاں ہے، تیرا بندہ حاضر ہے، تیرا بندہ تیری تلاش میں سرگرداں ہے، بندہ حاضر ہے، مالک تو کہاں ہے۔ مجھے صرف تیری تلاش ہے۔ مجھے صرف تیرا انتظار ہے۔
  اور پھر اس کھوہ میں جہاں اس کے سوا کبھی کوئی نہ آیا تھا، اس غار میں جو بلند و بالا پہاڑ کے بلند و بالا دامن میں دشوار گزار تھا اور اس تک جانے کی کسی کو کوئی غرض نہ تھی، جہاں صرف وہی جاتا تھا اور دوسرا کوئی نہ جاتا تھا، جہاں مضطرب سکون تھا اور جہاں متجسس اطمینان تھا، وہاں اچانک کوئی دوسرا بھی آگیا جس کی آمد کا اُسے دور دور تک گمان نہ تھا، جس کا انتظار نہ تھا، جس کے وجود کا وہم و گمان بھی نہ تھا، جس کی آمد کی کوئی اطلاع اور کوئی خبر بھی نہ تھی، جو نہ ہم جنس تھا اور نہ اپنا ہمسایہ اور شہری تھا۔ لیکن وہ بہت ہی زیادہ اپنا بن کر آیا تھا اور اُس نے آتے ہی حروف و الفاظ کی دنیاسے ناآشنا اس مضطرب انسان اور متلاشی روح سے حیران کن بات کہہ دی تھی۔ یہ بات اُس کا جاننے والا کوئی دوسرا نہ کہہ سکتا تھا۔ وہ بات اُس آنے والے نے اُس حیران و پریشان بندے سے کہہ دی تھی:
 ’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا‘‘ یہ بات کہنے والے کو بتایا گیا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، آنے والے نے یہ سن کر حق کے متلاشی کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور پھر چھوڑ کر دہرایا ’’پڑھئے!‘‘ اس نے پھر یہی دہرایا کہ میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر آنے والے نے پکڑ کر اسے زور سے ایسا بھینچا کہ جیسے دم ہی نکال دے گا اور پھر کہا ’’پڑھئے، جس نے انسان پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعےعلم سکھایا، اور انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ یہ باتیں سکھا کر وہ اچانک آنے والا اچانک ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
  آنے والا تو اوجھل ہوگیا لیکن حقیقت منکشف ہوگئی۔ جس کی تلاش تھی وہ مل گیا۔ پیدا کرنے والا ہی درحقیقت رب تھا اور وہ بڑا کریم تھا اور انسان کو سارا علم اسی کا دیا ہوا تھا اور وہی بندگی اور عبادت کے قابل اور اُس کا سزاوار تھا۔ بخدا حقیقت واضح ہوگئی تھی۔ لیکن یہ ایک بڑا ہی انوکھا تجربہ اور دہشت ناک صورت حال تھی۔ انسان اپنے چاروں طرف جن معلومات کا عادی ہوتا ہے اُن سے ہٹ کر کوئی بات واقع ہوجائے تو وہ چیز اُس کیلئے بڑی دہشت ناک ہوتی ہے۔ وہ دہل گیا تھا۔ اب غار میں مزید ٹھہرنا ممکن نہ رہا تھا۔
  اور آپؐ پہاڑ سے اتر کر واپس گھر تشریف لائے۔ ڈرے ڈرے، سہمے سہمے، گھبرائے گھبرائے، پریشان پریشان، خوفزدہ خوفزدہ۔ آپؐ سے پہلے یہ انوکھا تجربہ صدیوں کے بعد بعض انسانوں کو ہوتا رہا تھا۔ مالک کا اپنے بندوں سے رابطہ کا یہی ذریعہ تھا۔ بہ سلسلۂ رسالت غار حرا میں مکتب ِ خداوندی کا یہ اولین درس تھا جو اپنے محبوب اور منتخب بندے کو دیا گیا تھا۔
  آپؐ لرزتے کانپتے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہ الکبریٰؓ سے فرمایا:
 ’’خدیجہ ؓ مجھے اوڑھا دو، مجھے اوڑھادو۔‘‘
  فرمانبردار بیوی نے آپؐ کو لپیٹ کر اوڑھا کر لٹا دیا۔ جب ذرا طبیعت میں سکون پیدا ہوا تو اپنی اہلیہ کو سارا واقعہ سنایا اور پھر فرمایا:
 ’’اے خدیجہؓ! یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘
  محرم ِراز نے عرض کیا نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے بلکہ آپ خوش ہوجائیے۔ خدا کی قسم آپ خلق خدا کی امانتیں ادا کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان داری کرتے ہیں، نیک کاموں میں مدد دیتے ہیں، بخدا اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
  اور پھر غیر محسوس طور پر آپؐ کو اس انوکھے تجربے کا انتظار رہنے لگا۔ غارِ حرا کی عبادت اور وہاں کی آمد و رفت میں مزید اضافہ ہوگیا، یہاں تک کہ ایک بار پھر وہی رفیق ِ تنہائی آپؐ کو آسمان و زمین کے درمیان ایک عظیم الشان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا، وہی عظیم اجنبی جس نے علم وحی کا پہلا سبق آپؐ کو غار ِ حرا میں دیا تھا۔ اُسے اس ہیئت میں دیکھ کر آپؐ ایک بار پھر سہم گئے اور جلد جلد گھر لوٹ آئے: ’’خدیجہ، مجھے اوڑھاؤ، مجھے اوڑھاؤ۔‘‘ اور آپ کو کمبل اوڑھا دیا گیا۔ تب آپ پر وہ ناموس الٰہی نازل ہوا: 
  ’’اے گلیم پوش (کمبل اوڑھنے والے) اٹھئے اور لوگوں کو خدا سے ڈرائیے۔ اپنے رب کی کبریائی بیان کیجئے۔ اپنے کپڑے پاک صاف رکھئے۔ گندگی سے دور رہئے، اور اس طرح احسان نہ کرو کہ زیادہ کے طلب گار بن جاؤ، اور اپنےرب کی خاطر مشکلات پر صبر کیجئے۔‘‘ (المدثر)
  یوں اللہ کی بڑائی بیان کرنے، اس کی کبریائی کا سکہ جمانے اور اُس کے مدمقابل کھڑے ہونے، شرک کی ہر گندگی کو مٹانے کیلئے صبر و ہمت اور جوش و جذبے کے ساتھ حضورؐ کھڑے ہوگئے۔ کفر اور شکر کے گڑھ میں پوری قوم کے مدمقابل، جس قوم کے سارے مفادات اس شرک کی مجاوری سے وابستہ ہوکر رہ گئے تھے، تنہا ایک فرد کا کھڑے ہوجانا اس بات کی دلیل تھا کہ جس عظیم ربّ کائنات کے نمائندے بن کر آپؐ کھڑے ہوئے تھے، اس کی کبریائی نے پوری قوم کے غیظ و غضب کا سارا خوف و خطر آپؐ کے دل سے بالکل نکال دیا تھا اور یہ مقابلہ بڑا ہی عجیب تھا کہ ایک طرف پوری قوم تھی اور دوسری طرف تن تنہا ایک فرد رب کبریائی بیان کرتا ہوا میدانِ عمل میں اتر آیا تھا، جس کے پاس صرف ایمان باللہ، عمل صالح اور صبر کے ہتھیار تھے۔ اور یہی ہتھیار اس معرکے میں مؤثر ترین تھے۔ دعوت ایک مختصر سے کلمے کی طرف دی جارہی تھی۔ کلمہ کیا تھا؟ وہی جو ہم پڑھتے ہیں : ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
  اللہ ہی واحد الٰہ ہے۔ یہ باری تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت تھی۔ محمدؐ ہی اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں۔ یہ حضور اکرم ؐ کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت تھی۔ اللہ کے سامنے ساری زندگی کے اعمال کی جوابدہی ہوگی۔ یہ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت تھی۔
  پس انہی تین باتوں سے دعوت ِ اسلامی کا آغاز ہوا تھا۔ بظاہر یہ روکھی پھیکی سی دعوت تھی جس سے کسی کا بھی کوئی مادی مفاد وابستہ نہ تھا، البتہ اس دعوت سے بہت سے معزز اور معتبر لوگوں کے مفادات پر چوٹ پڑتی تھی لیکن کسی گروہ کا بھی مادی مفاد اس دعوت سے وابستہ دکھائی نہ دیتا تھا۔
 اس وقت مکہ کی بستی میں ایسی دعوت کا شاید کسی کو بھی انتظار نہ تھا۔
 عرب کا کافی زرخیز علاقہ ایرانی اور رومی سلطنتوں کے زیرنگیں تھا اور صرف اس کا بنجر علاقہ ہی آزاد پڑا رہ گیا تھا۔ وہ بھی ان دونوں بڑی سلطنتوں کے غالب سیاسی اثرات کے تحت نیم آزاد تھا ۔ ایران کے کسریٰ اس علاقے کو بس اتنا سا ہی آزاد سمجھتےتھے کہ انہوں نے عرب میں ایک دعوت اٹھنے کی خبر سننے پر اُس کے داعی کو گرفتار کرنے کیلئے مدینے میں دو پیادے بھیج دینا ہی کافی سمجھا تھا۔ حضورؐ اگر عرب کے استقلال اور استحکام و آزادی و ترقی اور اتحاد کی دعوت لے کر اٹھتے تو قوم میں سے پرجوش عناصر ضرور آگے بڑھ کر آپؐ کا ساتھ دیتے کہ اس دعوت میں انہیں قوم و وطن کی خوشحالی اور ملک و ملت کی ترقی کے آثار دکھائی دیتے اور اس طرح ایک آزاد ترقی یافتہ خوشحال عرب معاشرہ وجود میں لانا ممکن ہوجاتا۔
  آپؐ نے ایسی کوئی دعوت نہیں دی اور جو دعوت آپ ؐ نے پیش کی وہ یہ تھی:
 ’’خدا کے بندو، خدا کی بندگی اختیار کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ خدا کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور اس کی اطاعت کرو۔ مرنے کے بعد خدا کے سامنے جانے اور اپنے دنیا کے کارخانۂ زندگی کا حساب دینے کیلئے تیار ہوجاؤ۔‘‘
 یہ عوت اول روز سے ہر متکبر، مفادپرست، جاہ پسند، ہٹ دھرم اور خوشامد پسند انسان کو ناپسند رہی ہے جس میں بظاہر مادی فوائد کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا لیکن ہر انسان سے خدا و رسولؐ کے لئے ایثارِ نفس، کلی اطاعت، قربانی اور خدا ترسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
لیکن آپؐ نے دعوت ِ حق کا یہی کٹھن راستہ اختیار کیا۔ اس لئے کہ آپؐ کے سامنے دعوت کو پیش کرنے میں اپنی پسند کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ آپؐ اس کام کیلئے خدا کی طرف سے مامور تھے اور اللہ کی ترجیحات دوسری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تو یہ طریقہ ہے کہ وہ حق کو باطل سے ٹکراتا ہے تاکہ حق اپنی ساری قوت و توانائی کے ساتھ غالب آجائے اور باطل اپنی ساری کھوٹ کے ساتھ تباہ و برباد ہوکر فنا ہوجائے۔ اس لئے حق اپنے ظہور کیلئے کسی دنیوی مصلحت اور کسی وقتی ضرورت کا قائل یا منتظر نہیں ہوتا۔ ہر دَور میں انسان کیلئے سب سے بڑی وقتی ضرورت خود حق ہی ہوتا ہے جو اس کے سارے مسائل حل کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسان کی کوتاہ نظر حق کے دوررس نتائج سے بے خبر اور بے بصر ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK