گزشتہ ۵۷؍ سال میں ملک کو کبھی ایک ساتھ انتخابات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تو پھر اب کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے؟
EPAPER
Updated: September 23, 2024, 5:18 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
گزشتہ ۵۷؍ سال میں ملک کو کبھی ایک ساتھ انتخابات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تو پھر اب کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے؟
’ایک ملک ایک انتخاب ‘ کا شوشہ ایک مرتبہ پھر چھوڑا گیا ہے لیکن اس مرتبہ اسے کابینہ سے منظور کرواکے اب پارلیمنٹ میں منظور کروانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۶۷ء تک ملک میں پارلیمنٹ اورریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوتے تھے لیکن ۱۹۶۸ء اور ۶۹ء میں کچھ ریاستی اسمبلیو ں کو وقت سے پہلے تحلیل کردئیے جانے اور حکومتیں گر جانے کے سبب یہ سلسلہ تھم گیا اور اب ۵۷؍ سال میں کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ ایک ساتھ ریاستوں اور پارلیمنٹ کے انتخابات کروائے جائیں۔ ہر چند کہ۱۹۹۹ء میں لاء کمیشن نے اس کی سفارش کی تھی لیکن اس وقت کی واجپئی حکومت نے اس کی ’آپریشنل ‘ پریشانیوں کو محسوس کرتے ہوئے اسے سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔ حالانکہ ایل کے اڈوانی ایک ساتھ الیکشن کروانے کے سب سے بڑے حامی تھے اور کئی مرتبہ عوامی فورمس پر وہ اس کی وکالت بھی کرچکے ہیں کہ ملک کے عوام کا سرمایہ بچانے کے لئے اور سرکاری کاموں کو رفتار دینے کے لئے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کروائے جانے چاہئیں لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی کیوں کہ دیگر کسی بھی پارٹی نے یا کسی بھی لیڈر نے ان کی حمایت نہیں کی۔ اڈوانی نے ایک ساتھ الیکشن کروانے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ مانگ بھی کی تھی کہ الیکشن میں پیسے کی ریل پیل ختم کرنے کیلئے الیکشن سرکاری خرچ پر کروایا جائے اور ہر امیدوار کو برابر برابر موقع دیا جائے لیکن اس پر اب تک کسی بھی سرکار نے کان دھرنا مناسب نہیں سمجھا۔ خود وزیر اعظم مودی جو اڈوانی کو اپنا گرو مانتے ہیں ان کی اس تجویز پر آج تک خاموش ہیں۔ بی جے پی اس تجویز کو مان ہی نہیں سکتی کیوں کہ اس کی پوری انتخابی مہم ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرکے ہی چلائی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ووٹرس متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:بینکوں میں ڈپازٹ میں کمی اور قرضوں میں اضافہ کا بحران
ایک ملک ایک انتخاب کے معاملے میں پریشانیاں کیا ہیں ؟ ان پر اگر تفصیل سے نظر نہ بھی ڈالی جائے محض طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ مقامی سطح پر ۳۰؍ لاکھ سے زائد منتخب نمائندوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ساتھ انتخاب کرانے کو لے کر پورے ملک میں ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ ہی مہینوں کے وقفے پر الگ الگ انتخاب کرانے سے بڑے لاجسٹک چیلنجز سامنے آئیں گے اور ووٹرس کو بھی شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کووندکمیٹی رپورٹ میں مشورہ دیا گیا ہے کہ پنچایت انتخابات اور دیگر بلدیاتی الیکشن اسمبلی اور پارلیمنٹ کے الیکشن کے ۱۰۰؍ دنوں کے اندر اندر الگ سے ہوں گے۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک ساتھ انتخابات کے بنیادی عنصر کے برعکس ہے۔ انتخابی کمیشن نے اشارہ دیا ہے کہ اسے ایک ساتھ انتخابات کرانے کے لئے موجودہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) اور ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریلس (وی وی پی اے ٹی) کے مقابلے تین گنا زیادہ کی ضرورت ہوگی۔ ایسے میں کمیشن کو تقریباً ۴۰؍ لاکھ اضافی مشینوں کی ضرورت پڑے گی جس سے مالی اور ساز و سامان سے متعلق رخنے پیدا ہوں گے۔ اسلئےحساب لگایا جائے تو ہزاروں کروڑ روپے کی اضافی ضرورت ہوگی۔
ایک ملک، ایک انتخاب‘ سے متعلق تجویز کو نافذکرنے کے بعد پیش آنے والی آئینی ضروریات پر غور کریں تو کسی بھی ترمیم کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت کی ضرورت ہوگی، ساتھ ہی کم از کم نصف ریاستوں سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ یہ عمل بہت پیچیدہ اور متنازع ثابت ہو سکتا ہے۔ خود سرکار کو اندازہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اسے انتظامی سطح پر کیا کیا تیاریاں کرنی پڑیں گی۔ اس کے علاوہ جو اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش ہو گی اس پر بھی سرکار کو کئی مرتبہ سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ ایسے میں سرکار کے کرنے والے کام متاثر ہونے کا قوی امکان ہے۔ جس سرکار کو ملک کا انتظام بحسن و خوبی چلانے کی کوشش کرنی چاہئے، آسمان چھوتی بے روزگاری اور اتنی ہی شدید مہنگائی سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس کی تمام قوت، سرمایہ اور مین پاور ون نیشن ون الیکشن کی تیاریوں میں صرف ہو گا۔ یہ حکومتی وسائل کے سراسر غلط استعمال کے مترادف ہوگا۔ واضح رہے کہ ملک کےسابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ کے تعلق سے کچھ اندیشے ظاہر کئے ہیں۔ انہوں نے بھی اس کے قا بل عمل ہونے اور اس کے ممکنہ اثرات پر فکر ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو سفارشات پیش کی گئی ہیں، وہ خامیوں سے پُر ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں پارلیمنٹ کے اندر بحث کی ضرورت پر زور دیاہے اور کہا ہےکہ بغیر پارلیمانی بحث کے ان سفارشات میں موجود خامیوں کو دور نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ملک ایک انتخاب اس ملک میں یا اس صورت میں بہتر ہو سکتا تھا اگر یہاں صرف ۲؍ ہی پارٹیاں ہوتیں۔ اس صورتحال میں یہ اتنا دقت طلب مسئلہ نہیں ہو تا لیکن جن ممالک میں دو ہی پارٹیاں ہیں جیسے امریکہ وہاں بھی ایک ساتھ انتخابات نہیں کرائے جاتے۔ اس مشق پر دوسرا بڑا اعتراض یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کا وفاقی نظام جو۱۹۶۷ء کے بعد موجودہ صورت میں ڈھل گیا ہے وہ بھی شدید متاثر ہو گا۔ اس وقت اگر مختلف ریاستوں میں انتخابات ہوتے ہیں تو یہ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کیلئے ایک طرح کا ریفرنڈم ہوتے ہیں ۔ ان انتخابات کی وجہ سے سرکار بڑے پیمانے پر کوئی عوام مخالف قدم نہیں اٹھاپاتی۔ اسے اس ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مودی حکومت نے گیس سلنڈر، پیٹرول اور ڈیزل کے دام آسمان پر پہنچا دئیے ہیں اور کسی بھی صورت کم کرنے کو تیار نہیں ہے لیکن جیسے ہی کچھ ریاستوں میں انتخابات آتے ہیں وہ پیٹرول اور ڈیزل کے دام میں معمولی ہی سہی، تخفیف کردیتی ہے جبکہ سلنڈر کے دام پسماندہ طبقے کیلئے ۵؍ سو سے ۶؍ سو روپے کی رینج میں لانے پر وہ مجبور ہےجبکہ ایک وقت یہ دام ۱۲؍ سو روپے تک پہنچا دئیے گئے تھے۔ یہ اسی لئے ممکن ہو ا کیوں کہ مختلف ریاستوں کے عوام نے بی جے پی کو آئینہ دکھایا ہے۔
سرکار کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر آئینی تبدیلیوں اور لاجسٹک تیاریو ں کے باوجود بات یہیں آکررکتی ہے کہ مان لیا کہ ایک ساتھ انتخابات کروالئے جائیں اور سرکاریں بن بھی جائیں لیکن اتحادی سیاست کے دور میں جب کوئی ریاستی حکومت گرجائے گی یا مرکزی حکومت گرے گی تو کیا پھر سے الیکشن کروائے جائیں گے؟ ووٹرس کو پھر سے امتحان میں ڈالا جائے گا ؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ وسط مدتی الیکشن کروایا جائے گا اور وہ سرکار صرف بقیہ مدت کیلئے ہی ہو گی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ووٹرس کو بار بار انتخاب کرنے کی زحمت دی جائے گی۔ ایسے ملک میں جہاں اب بھی ووٹرس کا شعور بیدا نہیں ہوا ہے انہیں بار بار ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنا کہیں انہیں جمہوری عمل سے بیزار نہ کردے۔ ویسے ہی ملک میں مختلف انتخابات میں ۸۰؍ فیصد بھی پولنگ نہیں ہوتی ہے۔ سرکار کو اس فیکٹر پر بھی غور کرنا چاہئے۔