• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مثالی شخصیت کی تعمیر کے لئے فرائض کے ساتھ اخلاقی امور پر بھی توجہ ضروری ہے

Updated: July 26, 2024, 2:38 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کا کرنا ضروری ہوتا ہے اور نہ کرنے پر مواخذہ اور پکڑ ہوتی ہے۔

Compassion, love and sociability should be learned from our elders. Photo: INN
ہمدردی، محبت اور ملنساری ہمیں اپنے بزرگوں سے بھی سیکھنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کا کرنا ضروری ہوتا ہے اور نہ کرنے پر مواخذہ اور پکڑ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دینی اعتبار سے نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ ایسے اعمال ہیں جن کو انجام نہ دینے پر اللہ کی پکڑ اور سزا یقینی ہے۔ اسی طرح دنیاوی اعتبار سے ملازمت، مزدوری، یا کسی اور ذمے داری کو اگر وقت پر اور صحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دیا گیا تو متعلقہ ذمے داروں کی طرف سے گرفت لازمی ہے۔ اسی طرح دینی اور دنیاوی اعتبار سے کچھ کام ایسے بھی ہیں کہ جو لازم اور واجب نہیں ہوتے لیکن ان کی انجام دہی سے انسان کا رتبہ بلند ہوتا ہے، وہ اللہ رب العزت کا پسندیدہ بندہ بن جاتا ہے اور انسانوں میں اسے محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔ 
 آئیے! اب ہم دینی اعتبار سے کچھ ایسے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں جو فرض اور واجب نہیں ہیں لیکن فضیلت کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ مجھے میرے خلیل (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے کہ مرتے دم تک انہیں نہ چھوڑوں : ہر مہینے میں تین روزے رکھنا، نماز چاشت پڑھنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔ ‘‘ (بخاری) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت نفل (اوابین) اس طرح پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے، اس کے لئے یہ نفل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔ ‘‘ (ترمذی) ان دونوں احادیث کے علاوہ بھی بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں جو نوافل اور مستحب اعمال کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:کسی پر احسان یا نیکی کرکے اسے جتانا، خود کو ثواب سے محروم کرنا ہے

اسی طرح بہت سارے دنیوی کام ایسے ہیں جو فرض اور واجب نہیں ہوتے لیکن ان کو انجام دینے سے انسان دوسروں سے ممتاز اور فائق ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں ہمیں مل جاتی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی ذمے داری کو اللہ رب العزت نے ذیل کی آیت میں صاف بیان فرمایا ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ ‘‘ (الجمعہ:۲) لیکن جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا باالاستعاب مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جو آیت میں مذکور ذمے داریوں کے علاوہ اخلاقیات کے قبیل سے ہیں اور شرعی اعتبار سے لازم نہیں ہیں ؛ پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انجام دے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کو وسیع القلب، وسیع النظر اور بہترین انسان بننے کی دعوت دی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھریلو کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؓ نے بتایا کہ : حضورؐ اپنی بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنی خدمت خود کرلیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھاوہ چھوڑ کر چلے جاتے۔ ‘‘ (ترمذی)
 مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ جہاں ہم فرائض و واجبات کے تئیں پابند رہیں، وہیں نفل اور مستحب اعمال کو بھی غفلت کی نذر نہ کریں ؛ کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم بہت ساری برکتوں، فضیلتوں اور فوائد سے محروم ہو جائیں گے۔ مزید برآں، علمائے امت نے یہ بیان کیا ہے کہ سنت و مستحب کو مستقل نظر انداز کرنے اور چھوڑنے سے اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ انسان فرائض و واجبات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ 
 یہاں موضوع کی مناسبت سے اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں چاہے گھر میں ہوں یا گھر سے باہر ملازمت یا تجارت میں ؛ ہمیں اس بات کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے کہ ہم مفوضہ اور ضروری کام سے آگے بھی کچھ اور کام کرنے کی عادت بنائیں۔ مثال کے طور پر گھر میں ضرورت کے مطابق جو کام سامنے آجائے اس کو کردینا؛ اگرچہ وہ کام دوسرا بھی کرسکتا ہے۔ اسی طرح آفس اور اسکول وغیرہ میں اگرچہ صفائی کے لیئے کچھ لوگ ہوتے ہیں لیکن اگر ہمارے سامنے کچھ گندگی نظر آجائے تو ہم اس کو خود صاف کر دیں۔ سماجی کام بھی اس قبیل سے ہیں کہ جب بھی اور جس اعتبار سے بھی ہمیں موقع ملے ہم دست تعاون ضرور دراز کریں۔ اگر ہم نے اپنی زندگی کو مذکورہ معروضات کی روشنی میں مزین کر لیا تو دن بدن ہماری شخصیت نکھرتی جائے گی اور ہم دوسروں کے لئے اچھائی کی مثال بن جائیں گے۔ (ان شاء اللہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK