تاریخ شاہد ہے کہ جس ادارہ (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج) کو اے ایم یو ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کا درجہ دیاگیا اسے مسلمانوں کی علمی تشنگی کو دور کرنے کیلئے سرسید احمد خان نے قائم کیاتھا۔ اس کے اقلیتی کردار کے خلاف جس طرح مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں دلائل دے رہی ہے وہ ملک کی اقلیتوں سے ان کا ادارہ چھیننے کے مترادف ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلمانوں کیلئے قائم کی گئی سرسید کی اس میراث پر مسلمانوں کا حق باقی رہے گا یانہیں؟۔ تصویر : آئی این این
کیا ہی مضحکہ خیز ہے کہ وہ ادارہ جس کا نام ہی اس بات کا مظہر ہے کہ وہ اقلیتوں کا ادارہ ہے، اپنے اقلیتی کردار کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ سے کون واقف نہیں؟ کون نہیں جانتا کہ مسلمانوںکی علمی تشنگی کو دور کرنے اورمذہبی نیز اسلامی قدروں کا توازن برقرار رکھتے ہوئے ان کو عصری تعلیم سے جوڑنے کیلئے سرسید احمد خان نے قوم سے چندہ اکٹھا کر کے ۱۸۷۷ء میں علی گڑھ میں ’’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ کی بنیاد رکھی جس نے پھلتے پھولتے ہوئے ۱۴؍ ستمبر ۱۹۲۰ء میں ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ (اے ایم یو) کی شکل اختیار کرلی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اوراس کے ذیلی اداروں کو منضبط کرتے ہوئے اسے یونیورسٹی کادرجہ پارلیمنٹ میں پاس ہونےو الے ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ‘‘ کے ذریعہ حاصل ہوا،مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ادارہ کا قیام مذکورہ قانون کے پاس ہونے کے بعد عمل میں نہیں آیا (جیسا کہ یوپی اے کے دور میں مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی پارلیمنٹ میں قانون پاس ہونے کے بعد قائم ہوئی )بلکہ وہ پہلے سے موجود تھااور قانون سازی کے ذریعہ اسےمحض کالج سے یونیورسٹی کا درجہ دے دیاگیا۔ افسوس کہ انگریزوں کے دور حکومت میں پاس ہونے والے اس ایکٹ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار چھیننے کیلئے استعمال کیا جارہاہے۔ اب جبکہ مرکزی حکومت بھی اس کے اقلیتی کردار کے خلاف مقدمہ میں فریق بن چکی ہے، قانونی لڑائی مزید سخت ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کی ۷؍ رکنی بنچ میں اس معاملے پر حتمی سماعت شروع ہوچکی ہے جس کا فیصلہ یہ طے کریگا کہ مسلمانوں کیلئے قائم کی گئی سرسید کی اس میراث پر مسلمانوں کا حق باقی رہے گا یانہیں۔ سپریم کورٹ کافیصلہ اس کے سامنے زیر غور ان دوسوالوں پر مبنی ہوگا کہ :
۱)آئین کے آرٹیکل۳۰؍کے تحت کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ دینے کا کیا پیمانہ ہے۔
۲)کیاپارلیمنٹ کے قانون کےتحت قائم ہونے والا تعلیمی ادارہ آرٹیکل۳۰؍کے تحت اقلیتی درجہ کا حامل ہوسکتاہے؟
یہ بھی پڑھئے: بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کافیصلہ گجرات حکومت کیلئے تازیانہ سے کم نہیں ہے
اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس قانونی تنازع میں گھری ہوئی ہے، اسے اجمالی طو رپر سمجھ لیتے ہیں۔ ۱۹۲۰ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اوراس کے ذیلی اداروں کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کیلئے بنائے گئے قانون (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ) کے سیکشن ۲۳؍ کی رو سے ’کورٹ آف دی یونیورسٹی‘ اس ادارہ کی اصل منتظمہ تھی جس کے رکن صرف اور صرف مسلمان ہوسکتے تھے۔ ۱۹۵۱ء میں وزیراعظم جواہر لال نہرو کے دور میں اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کی گئی جس کے تحت طلبہ کیلئے لازمی دینی تعلیم کے التزام کو ختم کیاگیا۔ اس کے ساتھ ہی ’کورٹ آف دی یونیورسٹی‘ کیلئے اراکین کیلئے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کردی گئی۔ اس کے بعد لال بہادر شاستری کے دور میں ۱۹۶۵ء میں ایک اور ترمیم کرکے ’کورٹ آف دی یونیورسٹی ‘کی یونیورسٹی کی اصل منتظمہ ہونے کی حیثیت بھی ختم کردی گئی۔ اس کے اراکین کی نامزدگی کا اختیار ’وزیٹر‘ (صدر جمہوریہ)کو سونپ دیا گیا اور انتظامی امور کی ذمہ داری یونیورسٹی کے مختلف اداروں میں تقسیم کر دی گئی۔ اس ترمیم کوعزیز باشا نے عدالت میں چیلنج کیا۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ ترمیم تعلیمی ادارہ قائم کرنے اوراس کا نظم ونسق سنبھالنے کے حق کے خلاف ہے نیز مذہبی تعلیم کے فروغ ، مذہبی آزادی ،ثقافت و زبان کے تحفظ کے حق کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے مگر۲۰؍ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو چیف جسٹس آف انڈیا کے این وانچو کی قیادت میں سپریم کورٹ کی ۵؍ رکنی بنچ نے عزیز باشا کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے ترمیم کو جائز ٹھہراتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ ان کے بنیادی حقوق میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ تو تسلیم کیا کہ مسلمانوں کی کوششوں سے مذکورہ قانون (ا ے ایم یو ایکٹ) پاس ہوا اور اینگلو اورینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملا مگر اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ کورٹ کا کہناتھا کہ ’’یہ ممکن ہے کہ ۱۹۲۰ء کا ایکٹ مسلم اقلیت کی کوششوں سے پاس ہوا ہومگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ۱۹۲۰ء کے ایکٹ کے تحت جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وجود میں آئی تواسے مسلمانوں نے قائم کیا۔‘‘ عدالت نےمذکورہ ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے التزامات واضح کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے انتظامی امور مسلمانوں کے پاس رہیں گے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کااقلیتی کردار تنازع کی زد پر ہے۔ حالانکہ۱۹۸۱ء میں مسلمانوں کی اشک شوئی کرتے ہوئے مرکز کی اندرا گاندھی حکومت نے اے ایم یو ایکٹ میں ایک ترمیم کرکے یہ شامل کر دیا کہ اسے مسلمانوں نے قائم کیا جو پہلے محمڈن اینگلو انڈین کالج ہوا کرتھا، نیز یہ کہ اس کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی ہےمگر اس ترمیم کے بعد بھی الہ آباد ہائی کورٹ نے اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ ماننے سے انکار کردیا۔ ۲۰۰۵ء میں جب یونیورسٹی نےاپنے اقلیتی ادارہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیکل کے پوسٹ گریجویشن میں۵۰؍ فیصد سیٹیں اقلیتوں کیلئے مختص کیں تو ڈاکٹر نریش اگروال نے اسے کورٹ میں چیلنج کردیا۔ انہوں نے یونیورسٹی کے اس فیصلے کی مخالفت کیلئے عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کے ۱۹۶۷ء کے فیصلے کو جواز بنایا اور دلیل دی کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ میں جب یہ معاملہ زیر بحث آیاتو حکومت ہند بھی یونیورسٹی کے ساتھ کھڑی ہوئی اور اس نے دلیل دی کہ ۱۹۸۱ء کی ترمیم کے ذریعہ ۱۹۶۷ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کردیاگیاہے مگر الہ آباد ہائی کورٹ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور عزیز باشا کیس کو ہی بنیاد بناتے ہوئے ریزرویشن کے فیصلے کو کالعدم قراردیا اور کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ ۲۰۰۶ء میں یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جس میں عرضی گزاروں میں یونیورسٹی کے ساتھ مرکزی حکومت بھی تھی مگر وزیراعظم مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ۲۰۱۶ء میں مرکزی حکومت نے اس معاملے میں اپنا وہ حلف نامہ واپس لے لیا جس میں اس نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی تائید کی تھی اور اس کے بعد سے یونیورسٹی یہ لڑائی اکیلے لڑ رہی ہے۔ فروری ۲۰۱۹ء میں عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کی ۵؍ رکنی بنچ کے فیصلے پر نظر ثانی کیلئے یہ معاملہ ۷؍ رکنی بنچ کے حوالے کیاگیا جس پر ۹؍ جنوری سے سماعت شروع ہوئی ہے۔ کم از کم ۳؍ سماعتوں کے بعد اب یہ معاملہ ۲۳؍ جنوری تک کیلئے ملتوی ہوچکاہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پیروی ایڈوکیٹ راجیو دھون، راجو رامچندرن اورکپل سبل جیسے سینئر وکیل کررہے ہیں تاہم ان کے مقابلے میں نریش اگروال(جس نےمسلمانوں کیلئے۵۰؍ فیصد ریزرویشن کو چیلنج کیاتھا) ے ساتھ مودی سرکار بھی ہے جو اس بات پر زور دے رہی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہوسکتی۔
مقدمہ کی سماعت ابتدائی مراحل میں ہے اور دونوں طرف سے دلائل دیئے جارہے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فیصلے کس کے حق میں آئے گا البتہ سپریم کورٹ کے چند مشاہدات حوصلہ افزا ہیں۔ مثال کے طور پر :
کسی قانون سے ریگولیٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ادارہ اقلیتی حیثیت کھودےگا۔
آئین کا آرٹیکل ۳۰ (جو اس کیس میں موضوع بحث ہے) کے مطابق کسی ادارہ کا اقلیتی ادارہ ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ اس کے انتظامی امور پوری طرح سے اقلیت کے پاس ہی ہوں۔
اقلیتی ادارہ سیکولر نوعیت کا ہوسکتاہے، اور اس کا صرف مذہبی کورسیز تک محدود رہنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں دیگر مذاہب کے طلبہ بھی زیر تعلیم ہوسکتے ہیں۔
بنچ کے مطابق اس کے سامنے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی ادارہ کو اس بنیاد پر اقلیتی ادارہ تسلیم کیا جاسکتاہے کہ اسے ان افراد نے قائم کیا ہے جو مذہبی یا لسانی اقلیت سے تعلق رکھتےہیں۔ طرفین کی بحث اوران کے دلائل سننے کے بعد اگر سپریم کورٹ کو مذکورہ سوال کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو فیصلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حق میں ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس ادارہ کا مقصد ہی فوت ہوجائےگا۔ اس مرتبہ قانونی لڑائی میں اہم بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت یونیورسٹی کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے خلاف مقدمہ لڑ رہی ہے۔ یہ اپنے آپ میں شرمناک ہے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک اس کا وہ موقف ہے جو یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف اس نے کورٹ میں اختیار کیا ہے۔ یہ ملک کی اقلیتوں سے ان کے خون پسینے کی کمائی سے قائم کئے گئے ایک ادارہ کو چھین لینے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔