• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کافیصلہ گجرات حکومت کیلئے تازیانہ سے کم نہیں ہے

Updated: January 14, 2024, 3:11 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

۲۵۱؍ صفحات پر مشتمل جسٹس بی وی ناگرتنااور جسٹساُجَل بھویاں کی دورکنی بنچ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کیلئے مجرم رادھے شیام شاہ کو ہی آڑے ہاتھوں نہیں لیتا بلکہ کم از کم ۳؍ پیراگراف میں گجرات سرکار کی ملی بھگت کو بھی بیان کرتا ہے۔

A bench of Justice BV Nagaratna and Justice Ujal Bhuyan delivered the historic verdict in the Supreme Court. Veranda Grover, the lawyer in this case. Photo: INN
سپریم کورٹ میں جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس اُجَل بھویاں کی بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس کیس کی وکیل ورندا گروور۔ تصویر : آئی این این

بلقیس بانو کیس ملک کی ان بہادر بیٹیوں  میں  ممتاز حیثیت رکھتی ہیں  جنہوں نے نہ صرف اپنے لئے انصاف کی لڑائی لڑی بلکہ ہم وطنوں  کو انتہائی ابتر حالات میں  بھی ہمت نہ ہارنے کا حوصلہ بخشا۔ موجودہ حالات میں  سپریم کورٹ کافیصلہ تیز وتند اور نامواق ہواؤں  کے بیچ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا سا ہے۔ اس فیصلے نے بلقیس کو وہ انصاف لوٹا دیا جو انہوں   نے طویل اور غیر معمولی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھاا ور جسے ’’اقتدار کا غلط استعمال ‘‘کرتے ہوئے ان سے چھین لیاگیاتھا۔ا تنا ہی نہیں  اس فیصلے نےاُن لوگوں  کو ایک بار پھر سرعام ننگا کردیا جو گجرات فساد کے دوران انسانیت کو شرمسار کردینے والے جرم کے مرتکبین کے ساتھ اُس وقت بھی کھڑے تھے اور آج بھی کھڑے ہیں ۔ مجرمین کی قبل از وقت رہائی (سز ا میں  تخفیف ) کے فیصلے کو رد کرتے جسٹس بی وی ناگرتناا ور جسٹس اُجَل بھویاں پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے ۸؍ جنوری کو جوفیصلہ سنایا وہ تاریخی نوعیت کا حامل ہے۔ کورٹ نے فیصلے کی شروعات مجرمین کی قبل از وقت رہائی کے التزام’ ریمیشن‘ کو موضوع بحث بناتے ہوئے کی ہے اور سپریم کورٹ کے ہی ۱۹۸۰ء کے ایک فیصلے (مارو رام بنام حکومت ہند)کا حوالہ دیا ہے کہ ’’یہ صحیح ہے کہ جدید رجحان سزا کو اصلاح کا رنگ دینے کا ہے جس میں  اصرار مجرم کو جیل میں  رکھنے سے زیادہ اس کی اصلاح  پرہو....مگر سوال یہ ہے کہ کیاملک مجرموں  کے ہاتھوں  معصوم شہریوں کو اِس امید پر قتل ہونے دے سکتا ہے کہ مجرم چاہے کیسے ہی سنگین جرائم کا رتکاب کررہے ہوں ، ایک دن خود کو سدھار لیں گے ۔‘‘اس کے ساتھ ہی دورکنی بنچ نے بلقیس بانو کے ساتھ ہونے والے ظلم کے پس منظر میں  کہا ہے کہ ’’سماج میں  کسی خاتون کوکتنا ہی اعلیٰ یا ادنیٰ سمجھا جاتا ہو، وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو یاکسی بھی ذات سے ہو، احترام کی مستحق ہے۔کیا خواتین کے خلاف انتہائی سنگین اور گھناؤنے جرائم کےمجرموں کو ان کی سزا میں کمی یا وقت سے پہلے رہائی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جو زیر بحث پٹیشنوں  میں  کھل کر سامنے آیا ہے۔‘‘
   یہ فیصلہ جو مجرمین کی قبل از وقت رہائی کے خلاف داخل کی گئی پٹیشنوں  پر ہے،اس لئے بھی دستاویزی حیثیت رکھتا ہے کہ جسٹس بی وی ناگرتناا ور جسٹس اُجَل بھویاں نے ۲۵۱؍ صفحات کے اس فیصلے میں جہاں   طرفین کے دلائل کو تفصیل سے پیش کردیا ہے وہیں بلقیس بانو کے ساتھ پیش آنے والے درد انگیز واقعات اور پھر اُن کی قانونی جدوجہد کو بھی تفصیل کے ساتھ شامل کیا ہے۔۲۰۰۲ء کی تلخ یادیں  حالانکہ ابھی شہریوں  کے حافظوں سے حذف نہیں  ہوئیں  مگر دھندلی ضرور ہوگئی ہیں ۔ کم لوگوں  کو یاد ہوگا کہ صرف بلقیس جو اُس وقت ۵؍ ماہ کی حاملہ بھی تھیں ، آبروریزی کا شکار نہیں  ہوئی تھیں بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی والدہ اور بھابھی جن کی دو روز قبل ہی زچگی ہوئی تھی کو بھی بھگوا جنونیوں   نے آبروریزی کرکے موت کے گھاٹ اتار دیاتھا۔ مارے گئے۱۴؍ افراد میں   ۸؍ بچے تھےجن میں  بلقیس کی بھابھی کا ۲؍ دن کا بچہ بھی شامل ہے۔خود بلقیس کو نہ صرف بے آبرو کیاگیا بلکہ ان کا ۵؍ ماہ کا حمل ضائع ہوگیا اور ان کی آنکھوں  کے سامنے ان کی ۳؍ سال کی بیٹی کا سر دیوار سے ٹکرا کر مار دیاگیا۔ 
 اس کے بعد گجرات پولیس نے جانچ کے نام پر متاثرین کے ساتھ جو بھونڈا مذاق کیا،اس کا حوالہ بھی فیصلے میں موجود ہے کہ کس طرح  ۲۰۰۳ء میں  ہی پولیس نے کیس کو بند کردیا اور پھر انصاف کیلئے بلقیس کو سپریم کورٹ تک کا دروازہ ایک بار نہیں  کئی بار کھٹکھٹانا پڑا۔ طویل جدوجہد کے بعد مجرمین کوممبئی میں  سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی جس کی نہ صرف بامبے ہائی کورٹ نے توثیق کی بلکہ سپریم کورٹ نے بھی مہر لگادی۔ مجرمین مہاراشٹر سے گجرات کی جیل میں  منتقل کردیئے گئے ۔ سزا کے ۱۴؍ سال، ۵؍ مہینے ۶؍ دن مکمل ہوتے ہی مجرم نمبر ۳؍ رادھے شیام بھگوا ن داس شاہ اپنی رہائی کیلئے سرگرم ہوگیا۔ا س نے گجرات ہائی کورٹ میں  ایک عرضی داخل کرکے شکایت کی کہ گجرات حکومت ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۴۳۳؍ اور ۴۳۳(اے) کے تحت قبل از وقت رہائی کی اس اپیل پر توجہ نہیں  دے رہی ہے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ مقدمے کی سماعت مہاراشٹر میں  ہوئی ہے اس لئے دفعہ ۴۳۲(۷) کے تحت اس کافیصلہ کرنے کیلئے ’’مجاز حکومت‘‘ گجرات نہیں  مہاراشٹر ہوگی۔اس طرح رادھے شیام نے مہاراشٹر میں  اپیل داخل کی۔ مہاراشٹر سرکار نےا س پر جانچ ایجنسی ’سی بی آئی ‘ اور مقدمہ کی سماعت کرنے والی سی بی آئی کی خصوصی عدالت کی رائے طلب کی۔ سی بی آئی نے یہ کہتے ہوئے قبل از وقت رہائی کی مخالفت کی کہ جرم کی نوعیت انتہائی سنگین ہے اور مجرم نے اس میں  متحرک رول دا کیا ہے۔ سی بی آئی کورٹ نے بھی منفی رپورٹ دی جس کے بعد مہاراشٹر سرکار سے قبل از وقت رہائی کا حکم صادر ہونے کے امکانات معدوم ہوگئے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ بھی ’جملہ‘ ہی ہے

اس بیچ داہوڈ جیل میں  قیددیگر مجرمین (مجرم نمبر ۴؍ سے ۱۴؍ تک ) نے بھی اپنے اپنے طور پر الگ الگ تاریخوں میں قبل از وقت رہائی کیلئے درخواستیں  داخل کیں  مگر انہیں  بھی منفی جواب ملے اور نشاندہی کی گئی کہ اس کا اختیار ریاست مہاراشٹر کو ہے۔اسی دوران رادھے شیام نے مہاراشٹر کو مجاز حکومت قرار دینے کے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے یہ حکم حاصل کرلیا کہ قبل از وقت رہائی کافیصلہ کرنے کیلئے مجاز حکومت مہاراشٹر نہیں ’’گجرات ‘‘ ہے۔ اسی فیصلے کی بنیاد پر  ۱۵؍ اگست ۲۰۲۲ء کو تمام مجرمین کی رہائی ہوئی۔ 
  سپریم کورٹ نے اپنے ہی مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مجرم رادھے شیام اورگجرات سرکار کے خلاف سخت رویہ بھی اختیار کیا اور نشاندہی کی کہ مذکورہ فیصلہ حاصل کرتے وقت کئی حقائق کو مخفی رکھا گیا۔ کورٹ کے مطابق مجرم نے بامبے ہائی کورٹ کے ۵؍ اگست ۲۰۱۳ء اور گجرات ہائی کورٹ کے ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۹ء کے فیصلے کوپیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں ہائی کورٹس کے فیصلوں میں ’مجاز حکومت‘ کے تعلق سے اختلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے مجرمین کی قبل از وقت رہائی ۱۹۹۲ء اور ۲۰۱۴ءکی پالیسیوں کے تعلق سے بھی کورٹ کو گمراہ کرنے کا حوالہ دیا ہے۔ ۲۰۱۴ء کی پالیسی کے مطابق چونکہ ایک سے زائد قتل ،آبروریزی اور اجتماعی آبروریزی کے مجرمین کی قبل از وقت رہائی پر غور نہیں  کیا جاسکتا اس لئے سپریم کورٹ سے ایسا حکم حاصل کیاگیا جس میں  گجرات حکومت کو بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی اپیل پر ۱۹۹۲ء کی پالیسی کے مطابق غور کرنے کیلئے کہاگیا۔ جسٹس بی وی ناگرتنا فیصلے میں  لکھتی ہیں کہ ’’یہ اندازہ ہونے کے بعد کہ مجرمین کو ۲۰۱۴ء کی پالیسی کے تحت وقت سے پہلے رہانہیں  کیا جاسکتا مجرم نے سپریم کورٹ میں یہ خصوصی ہدایت حاصل کرنے کیلئے رِٹ پٹیشن داخل کی کہ اس کی اپیل پر گجرات حکومت ۱۹۹۲ء کی پالیسی کے مطابق غور کرے، حالانکہ اس وقت تک یہ پالیسی منسوخ ہوچکی تھی اور ۲۳؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کواس کی جگہ نہیں پالیسی نے لی تھی۔ ‘‘جسٹس بی وی ناگرتناا ور جسٹس اُجَل بھویاں کی بنچ نے اسے سپریم کورٹ کے ساتھ فراڈ سے تعبیر کیا اور اس کی بنیاد پر سنائے گئے فیصلے کو کالعدم قراردیا۔ اس کےساتھ ہی کورٹ نے گجرات حکومت کے تعلق سے فیصلے میں  کہا ہے کہ ’’اختیار کو غصب کرنے کی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی اختیار کسی کو دیاگیا ہو مگر اس کا استعمال کوئی ایسی اتھاریٹی کرے جسے وقت اختیار نہیں سونپا گیا۔ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس اتھاریٹی نے اختیار کا استعمال کیا کیا وہ مجاز تھی؟ گجرات حکومت کامجرمین کی سزا میں  تخفیف کے اختیار کو استعمال کرنا اختیار کو غصب کرنے کی ہی مثال ہے۔‘‘ 
ججوں نے اس بات پر حیرت کااظہار کیا کہ گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرثانی کی پٹیشن کیوں نہیں داخل کی جو مجرم رادھے شیام نے گمراہ کرکے حاصل کیا تھا۔ جسٹس ناگرتنا کے ذریعہ تحریر کردہ یہ فیصلہ گجرات حکومت کیلئے کسی تازیانہ سے کم نہیں  ہے۔ اس میں  کہاگیاہے کہ ’’مجرمین سپریم کورٹ سے جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے اس کیلئے گجرات حکومت نے ان کےساتھ مل کر کام کیا۔ یہ بالکل وہی ہے جس کا اندیشہ اس کیس میں  وقتاً فوقتاً یہ عدالت(سپریم کورٹ) ظاہر کرتا رہاہےاور جس کی وجہ سے ماضی میں  کم از کم ۳؍ بار اس نے مداخلت کی ، جانچ سی بی آئی کو منتقل کی اور سماعت ممبئی میں  خصوصی عدالت میں منتقل کی۔‘‘سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں  کم از کم ۳؍ پیراگراف گجرات سرکار کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کئے ہیں اور نشاندہی کی ہے کہ اگر وہ ریویو پٹیشن داخل کرکے کورٹ کو متوجہ کرتی کہ ’مجاز حکومت‘ وہ نہیں  ہےتو بعد کی قانونی چارہ جوئی کا دروازہ ہی بند ہوجاتا۔ 

بلقیس بانو کیس میں کب کیا ہوا؟
۳؍ مارچ ۲۰۰۲ء : گجرات فسادات کے دوران جب بلقیس بانو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ محفوظ مقام کی تلاش میں جارہی تھیں، احمدآباد کے رندھک پور میں  بھگواعناصر کی ایک بھیڑ نے ان پر حملہ کیا،  ان کی شیر خوار بچی کا سردیوار سے ٹکرا کر اسے بے دردی سے مار دیا ، خاندان کے ۷؍ افراد کوقتل کیا اور بلقیس کی اجتماعی آبروریزی کےبعد اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔
دسمبر ۲۰۰۳ء :طویل قانونی لڑائی کے بعد  سپریم کورٹ نے سی بی آئی جانچ کا حکم دیا۔ 
۲۱؍ جنوری ۲۰۰۸ء: مہاراشٹر میں خصوصی عدالت نے ۱۱؍ مجرمین کو تاعمر قید کی سزا سنائی۔ 
مئی ۲۰۱۷ء: بامبےہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا کے خلاف مجرمین کی اپیل خارج کردی۔
۲۳؍ اپریل ۲۰۱۹ء: سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی کہ وہ بلقیس بانو کو ۵۰؍ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرے۔
۱۳؍ مئی ۲۰۲۳ء: سپریم کورٹ نے اس کے کیس کے ایک مجرم کی قبل از وقت رہائی کیلئے داخل کی گئی درخواست پر گجرات سرکار کو۹؍  جولائی ۱۹۹۲ء کی  پالیسی کے مطابق سماعت کا حکم دیا۔
۱۵؍ اگست۲۰۲۲ء: گجرات حکومت کی  عام معافی کی پالیسی  کے تحت تمام ۱۱؍ مجرموں کو گودھرا جیل سے رہاکردیا گیا۔
۳۰؍نومبر۲۰۲۲ء: بلقیس بانو نےمجرموںکی معافی اور رہائی کے گجرات حکومت کے فیصلے کوسپریم کورٹ میں چیلنج  کیا اور کہا کہ قبل از وقت رہائی  نے’’معاشرے کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
۱۷؍دسمبر۲۰۲۲ء: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں اس کے ۱۳؍ مئی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی گئی تھی۔اس فیصلے میں ملزمین کی رہائی کے فیصلے کا اختیار گجرات  حکومت کو دیاگیاتھا۔
۲۷؍مارچ۲۰۲۳: بلقیس بانو کی  درخواست پرسپریم کورٹ نے مرکز، گجرات حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیا۔
۷؍ اگست ۲۰۲۳ء : مجرمین کی رہائی کے خلاف بلقیس بانو کی درخواست پر حتمی شنوائی کا آغاز ہوا۔
۱۲؍ اکتوبر۲۰۲۳ء:  ۱۱؍ دن کی سماعت  کےبعد سپریم کورٹ نے اپنافیصلہ محفوظ کرلیا۔
 ۸؍جنوری۲۰۲۴ء : سپریم کورٹ نے تمام ۱۱؍ مجرمین کی معافی کو منسوخ کردیا۔اسی کے ساتھ تمام  مجرمین کو ۲؍ ہفتوں  میں خود سپردگی کی ہدایت بھی دی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK