ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کئے گئے رام مندر کا ۲۲؍ جنوری کو افتتاح بی جےپی کا انتخابی موضوع تو ہوگا ہی، گیان واپی مسجد کا معاملہ بھی جلد ہی سیاسی موضوع بن سکتا ہے، مسلم فریق کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ذیلی عدالت کو ۶؍ ماہ میںگیان واپی مسجد کی ملکیت کافیصلہ سنانے کا ہائی کورٹ کا حکم اس پس منظر میں اہمیت کا حامل ہے۔
بابری مسجد کی طرح اب گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجد پر بھی تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تصویر : آئی این این
گیان واپی مسجد کا معاملہ ہو کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ کا کیس، عدالتوں میں مقدموں کی شنوائی میں حالیہ چند برسوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ عدالت کے کم وبیش تمام ہی فیصلے مسلم فریق کیلئے جھٹکے کے مترادف رہے ہیں۔ پہلے مسلم فریق کی مخالفت کے باوجود شرنگار گوری کی یومیہ پوجا کی اجازت کیلئے ۵؍ خواتین کے ذریعہ داخل کی گئی پٹیشن کو بنیاد بنا کر مسجد کی ویڈیو گرافی کا حکم دیا گیا پھر ضلع عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ کو یہ ’معلوم کرنے‘ کی ذمہ داری سونپ دی کہ کیا ’موجودہ عمارت‘(گیان واپی مسجد) پہلے سے موجود’ہندو مندر کے ڈھانچے پر تعمیر ہوئی ہے؟‘ اس کیلئے محکمہ آثار قدیمہ کو سروے کا حکم دیاگیا جس پر روک لگانے سے سپریم کورٹ نے بھی انکار کردیا۔
سروے مکمل ہوتے ہی جہاں متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کا حکم سنا یا گیا وہیں بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے میں جو عرضیاں ۱۹۹۷ء میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کی بنیاد پر ’’ناقابل سماعت ‘‘ قراردی گئی تھیں ،و ہی عرضیاں نظر ثانی کی پٹیشنوں کی شکل میں قبول کرلی گئیں اور مسلم فریق کے تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کو ان پر آئندہ ۶؍ ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔ دلچسپ بات ہے کہ ملک میں پارلیمانی الیکشن بھی آئندہ ۶؍ ماہ میں ہی ہونے ہیں۔ ’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ یہ یقین دہانی کراتا ہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جس عبادت گاہ کی جو مذہبی حیثیت تھی وہ برقراررہےگی،اسے تبدیل نہیں کیا جائےگا۔ اسی بنیاد پر مسلم فریق نےہندو فریق کے پٹیشنوں کی مخالفت کی اور ان کے ’’ناقابل سماعت‘‘ ہونے کی دلیل دی تھی مگر الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس روہت رنجن اگروال نے یہ کہہ کراعتراضات کو مسترد کر دیا کہ ۱۹۹۱ء کا مذکورہ قانون ان عرضیوں کیلئے رکاوٹ نہیں بنتا۔ جج نے ذیلی عدالت کو ۶؍ ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ عرضی گزاروں (ہندوفریق) نے عبادت گاہ کی مذہبی حیثیت بدلنے کی اپیل نہیں کی بلکہ وہ مذہبی حیثیت کی ’’بحالی‘‘ اور اسے طے کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایک طرح سے گیان واپی مسجد کامپلکس کی موجودہ مسلم حیثیت کو ہی ماننے سے انکار کردیا ۔ کورٹ نے کہا کہ مسجد کمپاؤنڈ مسلم حیثیت کا بھی حامل ہوسکتاہے اور ہندوحیثیت کا بھی، معاملے کی سماعت کےوقت ہی یہ طے نہیں کیا جاسکتا(کہ اس کی مذہبی حیثیت کیا ہے۔)
یہ بھی پڑھئے: کانگریس کو بی جے پی سے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہوگا
اس بیچ میڈیا کے توسط سے عوامی سطح پر رائے بھی تیزی سے ’’ہموار‘‘کی جا رہی ہے۔ پہلے گیان واپی مسجد کی ویڈیو گرافی کو بنیاد بنا کراس بات کی تشہیر کی گئی کہ مسجد کے وضوخانہ کے حوض میں ’’شیولنگ‘‘ ملا ہے حالانکہ مسلم فریق چیخ چیخ کر بتاتا رہا کہ یہ حوض کا فوارہ ہے جسے ’شیولنگ ‘ بنا کر پیش کیا جارہاہے۔معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس نے بھی کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے وضو خانہ کو ہی سیل کردیا۔ اسی طرح محکمہ آثار قدیمہ کے سروے کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر اب یہ تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ سروے میں بہت سی ’’مذہبی علامتیں‘‘ ملی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ اور سروے میں ملنے والی اشیاء مہر بند لفافے اور تھیلےمیں ضلع کورٹ کے حوالے کی گئی ہیں۔ ابھی یہ لفافے کھولے گئے ہیں نہ فریقین کو ان کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیاہے پھر بھی میڈیا ان کی تفصیلات ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے پیش کر نے لگا۔ اس عام تاثر کے باوجود کہ بابری مسجد کی ملکیت کافیصلہ سناتے وقت عدالت نے ’فیصلہ‘ تو سنایا،’انصاف‘ نہیں کیا، یہ امید بندھ گئی تھی کہ اس فیصلے کے متن میں چونکہ سپریم کورٹ نے ’’پلیس آف ورشپ ایکٹ-۱۹۹۱ء‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی توثیق کردی ہے اور ا س لئے آئندہ اگر اس طرح کے معاملات سراٹھائیں گے تو ملک کی سب سے بڑی عدالت مذکورہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں مسترد کردے گی مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔ بھلے ہی یہ نہ کہا جاسکے کہ یہ فیصلے ملک کے سیاسی ماحول سے متاثر ہیں ، مگر سیاست پر ان فیصلوں کےاثر سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتوں کے یہ فیصلے ملک کے سیاسی ماحول سے بڑی حدتک ہم آہنگ نظر آتے ہیں جن کا فائدہ اگر بی جےپی ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن میں اٹھانا چاہے تواسے کوئی روک نہیں سکتا۔ ایک طرف جہاں بابری مسجد کی جگہ پرتعمیر ہونے والے رام مندر کے ۲۲؍ جنوری کے افتتاح کو ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن میں بھنانے کی تیاری ہورہی ہے وہیں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے مقدمات میں عدالتی فیصلے بھی بھگوا سیاست کیلئے تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ۶؍ ماہ میں یہ فیصلہ سنائے کہ گیان واپی مسجد پر مسلمانوں کا دعویٰ درست ہے یا ہندوؤں کا۔ ۶؍ ماہ میں ہی ملک میں پارلیمانی انتخابات بھی ہونے ہیں۔ اسلئے اگر ۶؍ ماہ میں گیان واپی پر فیصلہ آہی جائے تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے ، نہ ہی اس معاملے کا سیاسی استحصال حیرت کا سبب ہوگا۔