ریاست میں بی جے پی مسلسل کمزور اور اسی تناسب میں کانگریس مضبوط ہورہی ہے۔ چھوٹی پارٹیوں سے کانگریس کو کچھ نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن بی جے پی کو بھی بڑے پیمانے پر بغاوتوں کا سامنا ہے۔
EPAPER
Updated: September 23, 2024, 4:49 PM IST | Sanjay Kumar | Mumbai
ریاست میں بی جے پی مسلسل کمزور اور اسی تناسب میں کانگریس مضبوط ہورہی ہے۔ چھوٹی پارٹیوں سے کانگریس کو کچھ نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن بی جے پی کو بھی بڑے پیمانے پر بغاوتوں کا سامنا ہے۔
ہریانہ میں گزشتہ ایک دہائی سے برسراقتدار رہنے والی بی جے پی کو اس بار سخت چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ رائے دہندگان میں بی جے پی کے تئیں سخت ناراضگی پائی جارہی ہے۔ اس کا براہ راست فائدہ کانگریس کو ہو سکتا ہے، حالانکہ بہت سی چھوٹی اور علاقائی پارٹیاں تنہا یا اتحاد کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیں۔ جن نائیک جنتا پارٹی (چند ماہ قبل تک ہریانہ میں بی جے پی حکومت کی ایک اتحادی) اب چندرشیکھر آزاد کی ’آزادسماج پارٹی‘ کے ساتھ اتحاد میں ہے اور بی ایس پی، انڈین نیشنل لوک دل اور عام آدمی کے ساتھ اتحاد میں تقریباً تمام۹۰؍ اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، لیکن زیادہ تر سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کے پاس ہریانہ اسمبلی انتخابات جیتنے کا اچھا موقع صرف اسلئے ہے کیونکہ اسے اقتدار مخالف ووٹوں کا سب سے بڑا فائدہ ہوگا، بلکہ اس کی جیت کے امکانات اسلئے بھی روشن ہیں کیونکہ کانگریس کو ہریانہ کے رائے دہندگان کی اچھی حمایت مل رہی ہے۔ ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں اس کی کارکردگی اس کا واضح ثبوت ہے۔ ایسے میں اسے خطرہ صرف چھوٹی پارٹیوں سے ہے۔ علاقائی پارٹیاں بھلے ہی خاصی تعداد میں سیٹیں نہ جیت پائیں، لیکن اگر بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں، تو وہ کانگریس کا کھیل ضرور خراب کر سکتی ہیں۔
ہریانہ میں بی جے پی نہ صرف ’حکومت مخالف رجحان‘ کی وجہ سے خود کو مشکل حالات میں پارہی ہے بلکہ اس کیلئے یہ بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے کہ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پارٹی کے کئی اہم لیڈروں میں بڑے پیمانے پر ناراضگی ہے اور ان میں سے زیادہ تر پارٹی سے بغاوت کر کے انتخابی میدان میں اُتر گئےہیں۔ انتخابات سے پہلے ابھی تک تین درجن سے زیادہ لیڈر پارٹی چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے کچھ غیر جاٹ برادریوں میں بی جے پی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اُترے ہیں تو کچھ نے دوسری پارٹیوں کا دامن تھام لیا ہے۔
یہ حکمت عملی گزشتہ دہائی کے دوران بی جے پی نے کامیابی کے ساتھ اپنائی تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہریانہ میں بی جے پی کے ووٹروں کی تعداد میں گزشتہ ۵؍ برسوں میں نہایت تیزی کے ساتھ کمی آئی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں، بی جے پی ۴۶ء۱؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ۱۰؍ میں سے۵؍ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی، جبکہ کانگریس۴۳ء۷؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ بی جے پی سے بقیہ۵؍ سیٹیں چھیننے میں کامیاب رہی۔ ایسے تو مقابلہ برابری کا رہا لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس دوران بی جے پی کے ووٹ شیئر میں ۱۲؍ فیصد (۲۰۱۹ء کے مقابلے) کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ کانگریس نے ۲۰۱۹ء کے اپنے ووٹ شیئر میں ۱۵ء۳؍ فیصد ووٹوں کا اضافہ کیا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہریانہ میں ہوا کس طرف چل رہی ہے۔
یہ بات دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات کے کچھ مہینوں بعد ہی جب۲۰۱۹ء میں ہریانہ کے اسمبلی انتخابات ہوئے تھے، تو بی جے پی کی کارکردگی امید کے مطابق نہیں تھی۔ اسے ۳۶ء۵؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ریاست کی ۹۰؍ میں سے صرف ۴۰؍سیٹیں ہی مل سکی تھیں، جبکہ ہریانہ کے رائے دہندگان نے چند ماہ قبل ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں ریاست کی تمام۱۰؍ سیٹوں پر بی جے پی کو کامیابی دلائی تھی۔ انہی ووٹروں نےریاست میں اپنی حکومت کو منتخب کرنے کیلئے الگ پیٹرن پر ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جبکہ اُس وقت پہلوانوں، کسانوں اور جوانوں کے مسائل کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔ اُس وقت ریاستی حکومت اور وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی کارکردگی کی وجہ سے عوام میں ناراضگی تھی۔
اگر بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں شاندار کارکردگی کے باوجود ۲۰۱۹ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اچھی کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی تو بھلا وہ اب اپنی کارکردگی کو کیسے بہتر بنا پائے گی۔ ۲۰۱۹ء میں، جب بی جے پی ہریانہ میں اپنی حکومت کا دفاع کر رہی تھی، تو اسے صرف ۵؍ سال کی ’حکومت مخالف رجحان‘ کا سامنا تھا۔ اب اسے۱۰؍ سال پرانی ’اینٹی ان کم بنسی‘ کا سامنا ہے۔ ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات سے عین قبل منوہر لال کھٹر کی جگہ ایک کم معروف چہرہ نائب سنگھ سینی کو وزیر اعلیٰ بنانا ایک طرح سے بی جے پی کا عوام کی ناراضگی کو قبول کرنا تھا۔ بی جے پی کو انتخابات میں کسی حد تک سزا مل چکی ہے اور اس نتیجے کے بعد بھی رائے دہندگان کا موڈ کہیں سے بھی بدلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ہریانہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے پر بی جے پی کے انحصار کی آزمائش بھی ہونے والی ہے۔ ’لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس‘ کے سروے بتاتے ہیں کہ نریندر مودی کی اپنی ذاتی کرشمہ کی بنیاد پر بی جے پی کیلئے ووٹ حاصل کرنے کی صلاحیت اسمبلی انتخابات کے مقابلے لوک سبھا انتخابات میں زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری طرف۲۰۱۹ء کے مقابلے راہل گاندھی کی مقبولیت ہریانہ میں بڑھ رہی ہے۔ کانگریس نے اپنے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن اس کی ریاستی قیادت (بھوپیندر سنگھ ہڈا اور کماری شیلجا) مختلف گروہوں میں منقسم ہونے کے باوجود منوہر لال کھٹر اور نائب سنگھ سینی کی ریاستی قیادت سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔
اس کی وجہ سےکانگریس یقیناً بہتر پوزیشن میں ہے، لیکن کچھ سیٹوں پر اس کے ناراض لیڈر، جو ٹکٹ نہ ملنے سے برہم ہیں، اس کیلئے ضرور مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ کانگریس کو اس پر نظر رکھنی ہوگی اور چھوٹی علاقائی پارٹیوں سمیت پارٹی میں گروپ بندی کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانا ہوگی۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ اس بار پہلوان، کسان اور جوان، یہ تینوں ہی مسائل ہریانہ اسمبلی انتخابات میں جیت کی کلید ثابت ہوں گے۔
مضمون نگار انتخابی تجزیہ نگار ہیں اور ’سی ایس ڈی ایس‘ کے سربراہ رہے ہیں۔