آتشی مارلینا کواپنا سیاسی جانشین منتخب کرکے اروند کیجریوال نے اشارہ دیا ہے کہ ان کا مطلب حکمرانی کے محاذ پر کام کرنا ہے۔ جب وہ ۷؍ ماہ تک جیل میں تھے، آتشی نے۱۴؍ محکموں کو سنبھال کر خود کو ایک قابل منتظم اور ایک مؤثر لیڈر کے طور پر ثابت کیا تھا۔
EPAPER
Updated: September 23, 2024, 4:40 PM IST | Arti Jareth | Mumbai
آتشی مارلینا کواپنا سیاسی جانشین منتخب کرکے اروند کیجریوال نے اشارہ دیا ہے کہ ان کا مطلب حکمرانی کے محاذ پر کام کرنا ہے۔ جب وہ ۷؍ ماہ تک جیل میں تھے، آتشی نے۱۴؍ محکموں کو سنبھال کر خود کو ایک قابل منتظم اور ایک مؤثر لیڈر کے طور پر ثابت کیا تھا۔
آتشی مارلینا کواپنا سیاسی جانشین منتخب کرکے اروند کیجریوال نے اشارہ دیا ہے کہ ان کا مطلب حکمرانی کے محاذ پر کام کرنا ہے۔ جب وہ ۷؍ ماہ تک جیل میں تھے، آتشی نے۱۴؍ محکموں کو سنبھال کر خود کو ایک قابل منتظم اور ایک مؤثر لیڈر کے طور پر ثابت کیا تھا۔ آتشی کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ وہ سرکاری اسکول اصلاحات کا مرکزی چہرہ ہیں جو اَب دہلی حکومت کا ماڈل بن چکا ہے۔ آتشی نے پہلے سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سیسودیا کے مشیر اور بعد میں وزیر تعلیم کے طور پر کام کیا۔ یہ آتشی ہی ہیں جنہوں نے دہلی کے سرکاری اسکولوں میں تبدیلی کی کہانی لکھی ہے۔
کیجریوال کو ایک غیر معمولی سیاست دان ہونے پر فخر ہے۔ شاید اسی لئے انہوں نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا کہ ان کے جانشین کا انتخاب سیاسی فیصلہ ہوگا۔ روایتی پارٹیوں کے برعکس، اگلے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرتے وقت انہوں نے اس کی ذات، برادری یا جنس کا خیال نہیں رکھا۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ آتشی کاانتخاب محض اسلئے ہوا کہ وہ ایک خاتون ہیں اور اس طرح خاتون رائے دہندگان کو ہموار کرنا مقصد ہے۔ ان کی تقرری سے کیجریوال یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی میں قابلیت اور نظریاتی وابستگی اہمیت رکھتی ہے۔ آتشی پارٹی کی بہترین اور موثر لیڈروں میں سے ایک ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے والی اسکالر اور ایک صاف ستھری شبیہ کی مالک آتشی اس بات کی نمائندگی کرتی ہیں جس نے دہلی کے متوسط طبقے کو اپنے ابتدائی دنوں میں ’آپ‘ کی طرف راغب کیا تھا۔
اس دوران ہندوستانی سیاست میں پیش آنے والے منفی حالات کی وجہ سے کیجریوال کی شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ دہلی ایکسائز پالیسی گھوٹالے اور بدعنوانی کے معاملات نے بھی ان کی شبیہ کو کسی حد تک داغدار کیا ہے۔ اس کی وجہ سے دہلی کے متوسط طبقے کے ووٹروں میں ان کی حمایت میں کمی آئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:فسطائی عناصر نے قانون کی حکمرانی کو سبوتاژ کر دیا ہے
اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہ وہ ایک جاٹ (ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر)، ایک دلت (شیڈولڈ کاسٹ کے ووٹروں تک پہنچنے کیلئے)، ایک بنیا (تاجر طبقےکو خوش رکھنے کیلئے) یا اپنی اہلیہ سنیتا کیجریوال ( پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بچنے کیلئے) کو وزیراعلیٰ کے طور پر مقرر کرسکتے ہیں لیکن کیجریوال نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان قیاس آرائیوں کے برعکس آتشی کا انتخاب کیا تاکہ وہ متوسط طبقے تک پہنچ سکیں جہاں سے ان کی حمایت ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔
اگرچہ جمہوری ملک میں غریب اور پسماندہ لوگ زیادہ ووٹ دیتے ہیں، لیکن کیجریوال سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ متوسط طبقے کو راغب کرنے کا سیاسی فائدہ زیادہ ہوتا ہے، جیسا کہ وہ پہلی بار۲۰۱۱ء کی بدعنوانی مخالف تحریک کے دوران اقتدار میں آئے تھے۔ اپنے سیاسی کریئر کے اس موڑ پر، جبکہ ان کا اثر و رسوخ کم ہو چکا ہے، انتخابات کے دن بہت قریب ہیں اور وہ خود بدعنوانی کے الزامات میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں، انہیں وہ تمام مدد درکار ہے جو ’آپ‘ کی مضبوطی کا سبب بن سکے۔
اس لحاظ سے، آتشی ان کا سب سے بڑا داؤ ہے۔ کیجریوال کے جیل جانے کے بعد، انہوں نے’ آپ‘ کا پرچم لہرایا، پیچیدہ مسائل پر پارٹی کے موقف کو واضح کیا، لوگوں سے متعلق مسائل پر لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کے ساتھ بحث کی اور طویل گرمی کے مہینوں میں دہلی کو پانی کی قلت کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے دوران بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھیں۔ اسی طرح انہوں نے اپنی پارٹی کے سربراہ کو ہمیشہ خبروں میں رکھا تاکہ کوئی انہیں بھول نہ سکے۔
وزیراعلیٰ بننے سے حالانکہ پارٹی میں آتشی کا قد بڑا ہو گیا ہے لیکن وزیراعلی ٰکا عہدہ کانٹوں بھرا تاج بھی ثابت ہو سکتا ہےکیونکہ اب ان کے کاندھوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑنے والا ہے۔ دہلی کو چلانے کیلئے کچھ طاقت اور اختیارات لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) کے پاس بھی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ’آپ‘ حکومت کا پہلے ہی سے لیفٹیننٹ گورنر کے ساتھ تصادم ہوتا رہا ہے۔ خاص طور پر جب سے دہلی این سی ٹی حکومت (ترمیمی) بل۲۰۲۳ء وجود میں آیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اختیارات کم کردیئے گئے ہیں اور زیادہ تر فیصلوں کیلئے ایل جی کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ حالانکہ اس ترمیم سے پہلے بھی، بہت سے اہم اختیارات ہمیشہ مرکزی حکومت کے پاس ہی تھے۔ ایسے میں جیسے جیسے دہلی کے انتخابات قریب آرہے ہیں، سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ یقینی ہے، جس سے ایل جی آفس اور سی ایم آفس کے درمیان رسہ کشی بھی بڑھے گی۔
آتشی کو آنے والے مہینوں میں احتیاط سے چلنا پڑے گاکیونکہ وہ بڑھتی ہوئی اختلافی سیاست کے درمیان ایک اچھی حکومت چلانے کیلئے انہیں کافی جدوجہد کرنا پڑے گا۔ ایک طرف، کیجریوال جہاں سڑکوں پر ہوں گے، بی جے پی کے حوالے سے ایل جی کو نشانہ بنائیں گے تو وہیں دوسری طرف، بی جے پی کیجریوال کو بدنام کرنے کے ساتھ ہی پارٹی اور حکومت دونوں کو نشانہ بنانے کیلئے ہر ممکن وسائل کااستعمال کرے گی۔ کیجریوال ایک اچھے مقرر ہیں، اس کے باوجود یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ کس طرح سے اپنی پارٹی کو فائدہ پہنچا پاتے ہیں ؟
آتشی کے سامنے بہت ساری مشکلات ہیں اور ا نہیں کافی چیلنجز کا سامنا بھی ہوگا۔ دہلی شراب کی پالیسی کا مسئلہ اور ایل جی آفس کے ساتھ مسلسل تصادم نے دہلی میں گڈ گورننس کو کافی متاثر کیا ہے۔ آج ہر طرف کچرے کے پہاڑ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، نالوں سے نکاسی میں تاخیر، مانسون کے درمیان موسلادھار بارش نے دہلی میں ایک طرح کی تباہی مچا ئی جس کی وجہ سے عوام میں ناراضگی بھی پائی جارہی ہے۔
ایسے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کیجریوال نے آتشی کو بھاری بوجھ سونپ دیا ہے۔ ایسے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ انتخابات کے اعلان سے پہلے مختصر وقت میں اس بھاری نقصان کا ازالہ کر سکتی ہیں ؟ اسی طرح یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ کیجریوال اور سکسینہ کے درمیان روزانہ لڑائی جاری رہنے کے دوران کیا وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہیں ؟