بجٹ ۲۰۲۴ء ملک کیلئے رواں سال کی اقتصادی منصوبہ بندی کم اور اقتدار پر برقراررہنےکیلئے وزیراعظم مودی کی مجبوریوں کا مظہر زیادہ ہے۔
EPAPER
Updated: July 28, 2024, 6:06 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
بجٹ ۲۰۲۴ء ملک کیلئے رواں سال کی اقتصادی منصوبہ بندی کم اور اقتدار پر برقراررہنےکیلئے وزیراعظم مودی کی مجبوریوں کا مظہر زیادہ ہے۔
وزیراعظم مودی نے اگر لگاتار تیسری بار وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال کر جواہر لال نہرو کے ریکارڈ کی برابری کرلی ہے تو وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے لگاتار ساتویں بار عام بجٹ پیش کرکے ایک نیا ریکارڈ اپنے نام کرلیا ہے۔ اس سے قبل یکے بعد دیگرے ۶؍ عام بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ مرارجی دیسائی کے نام رہا ہے۔ تاہم اپنے ساتویں بجٹ سے وزیر مالیات بہار اور آندھرا پردیش کے علاوہ نہ کسی ریاست کو خوش کرسکیں اور نہ ہی سماج کا کوئی طبقہ ان کے بجٹ سے خوش یا پُرجوش نظر آرہاہے۔
۲۰۱۴ء میں وزیراعظم نریندر مودی نے جب ’’اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ کے نعرہ کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا تویہ تاثر قائم کیا تھاکہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے مگر موجودہ بجٹ کےبعد ان کی قیادت والی حکومت پر دوسروں کے ’آئیڈیاز‘ کو چرانے کا الزام عائد ہو رہا ہے۔ نرملا سیتارمن کے بجٹ میں وہ اسکیمیں موجود ہیں جن کے تعلق سے کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کے انتخابی منشور کا حصہ تھیں۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ ’’پہلی نوکری پکی‘‘ کے عنوان سے انتخابی منشور میں اس نے جو منصوبہ پیش کیا تھا اسی کو بجٹ میں ہنر مندی کے فروغ کےذیل میں ۵؍ سال میں ایک کروڑ نوجوانوں کو ۵۰۰؍ بڑی کمپنیوں میں ماہانہ ۵؍ ہزار روپے کی اپرنٹس شپ کی تجویز کے طور پر پیش کردیاگیاہے۔ کچھ لوگ اسے اس بات کے ثبوت کے طو رپر بھی پیش کرنے لگے ہیں کہ حکومت کے پاس نعرے اور بیا ن بازیاں تو خوب ہیں مگر وہ ویژن اور نظریہ سے محروم ہے اس لئے یہاں وہاں ہاتھ مارنے پر مجبور ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مودی کو تیسری میعاد میں اپنی شبیہ بچانے کا چیلنج
ویسے بجٹ میں ایک اور مجبوری حکومت بچانے کی بھی صاف نظر آرہی ہے۔ ایک طرف جہاں تمام ریاستیں اس لئے ناراض ہیں کہ بجٹ میں انہیں نظر انداز کیاگیا ہے وہیں آندھرا پردیش اور بہار کو دل کھول کر نوازا گیا ہے۔ امرناتھ مینن اور امیتابھ سریواستو نے بجٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے جو تخمینہ پیش کیا ہے اس کے مطابق آندھرا پردیش کیلئے ۶۵؍ ہزار کروڑ روپے اور بہار کو ۵۸؍ ہزار ۹۰۰؍ کروڑ روپوں کے پروجیکٹوں کے ذریعہ نوازا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ مودی کی قیادت میں موجودہ حکومت لوک سبھا میں تیلگودیشم پارٹی کے ۱۶؍ اور جنتادل متحدہ کے ۱۲؍ اراکین پارلیمان کے مرہون منت ہے۔ اسلئے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہاہے کہ دونوں ریاستوں کو اس لئے نوازا گیا کیوں کہ مودی حکومت کو قائم رکھنے کیلئے ناگزیر ہے کہ چندرا بابو اور نتیش کمار خوش رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں ریاستوں کی اپنی ضرورتیں ہیں اور مرکزی بجٹ میں ان ضرورتوں کا خیال رکھا جانا چاہئے تھا مگر ایسی ہی ضرورتیں دیگر ریاستوں کی بھی تو ہیں، انہیں کیوں نظر انداز کردیا گیا۔ کیا یہ دیگر ریاستوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟ ایسی صورت میں اگر اپوزیشن اسے ’’حکومت بچاؤ بجٹ‘‘ قرار دے رہی ہے تو کیا اس کا موقع خود مودی حکومت نے فراہم نہیں کیا ہے؟ کیا یہ مرکز میں اقتدار پر جمے رہنے کیلئے قومی خزانہ سے ملک کی دو ریاستوں کو ’’رشوت‘‘ دینے جیسانہیں ہے؟ کیا یہ ملک کے وفاقی نظام کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے جس میں مرکزی حکومت کی ذمہ داری تمام ریاستوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کی ہے۔ مجموعی طور پر نرملا سیتارمن کا یہ بجٹ مودی حکومت کی مجبوریوں کا مظہر نظر آتا ہے۔
عالم یہ ہے کہ نرملا سیتارمن کے اس بجٹ نے غیروں کو ہی نہیں اپنوں کو بھی ناراض کردیاہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے ۲۳؍ جولائی کو لوک سبھا میں بجٹ پیش کرتے ہوئے متوسط طبقہ کو راحت دینے کی خواہش کااظہار تو کیا مگر یہ کہتے ہوئے کہ ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں، یہ صاف کر دیا کہ بجٹ میں اُس متوسط طبقہ کوخوش کرنے کیلئے بہت کچھ یا یہ کہیں کہ کچھ بھی نہیں ہے جس نے مالی سال (۲۴۔ ۲۰۲۳ء ) میں انکم ٹیکس کی شکل میں مجموعی طور پر کارپوریٹ گھرانوں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔ مذکورہ مالی سال میں مرکزی حکومت کو جو محصول حاصل ہوا ہے اس میں ۱۹؍ فیصد انکم ٹیکس کی شکل میں تھاجبکہ کارپوریٹ ٹیکس ۱۷؍ فیصد رہا۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ متوسط طبقہ دُہرا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اپنی سالانہ آمدنی پر یکمشت ایک بڑی رقم ’انکم ٹیکس‘ کی شکل میں حکومت کے حوالے کردینے کے ساتھ ہی وہ روز مرہ کی زندگی میں ہرچھوٹی، بڑی چیز خریدتے اور خدمات کا استعمال کرتے وقت کبھی جی ایس ٹی، کبھی سیس تو کبھی ٹول ٹیکس کی شکل میں ٹیکس ادا کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ ۱۰؍ برسوں سے انکم ٹیکس یا بالواسطہ ٹیکس میں کسی بھی طرح کی بڑی راحت نہ ملنے کے باوجود متوسط طبقہ کا ایک بڑا حصہ خاموشی سے کسی امید کے تحت بی جےپی کے حق میں ووٹ دیتا چلا آ رہا ہے مگر اب اس کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے لگا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مودی کومضبوط ہی نہیں مربوط اور منظم اپوزیشن کا سامنا ہے
یہی وجہ ہے کہ بجٹ کے آنے کے بعد سے متوسط طبقہ شدید ناراضگی کااظہار کررہا ہے۔ اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والے پیغامات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ’ایکس ‘، انسٹا گرام، فیس بک اور وہاٹس ایپ کے پیغامات اُس جھنجھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں جس کا شکاروہ لوگ ہورہے ہیں جو اَب تک بلاکسی شرط کے بی جےپی کی حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے ٹیکس کے معاملے میں کسی طرح کی راحت نہ ملنے کے باوجود یہ لوگ وزیراعظم مودی کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے تھے مگر اب ان میں مایوسی نظر آنے لگی ہے۔ مثال کے طور پر پائل شرما نامی ایک خاتون جس نے مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے پریہ کہتے ہوئے اطمینان کااظہار کیاتھا کہ ’’اب میں چین سے مر سکتی ہوں ‘‘ وہی بجٹ کے بعد جھنجھلا کر کہتی ہے کہ ’’ٹیکس کے معاملے میں مَیں نے اس سے بدترحکومت نہیں دیکھی۔ ‘‘ متعدد معروف شخصیات جنہوں نے کبھی اپنی بی جےپی نوازی کو نہیں چھپایا، اب علی الاعلان نہ صرف بجٹ پر تنقیدیں کر رہے ہیں بلکہ کچھ تو قسمیں بھی کھارہے ہیں وہ بی جےپی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ بی جےپی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے سوشل میڈیا پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایاتو آر ایس ایس کے ایک سینئرلیڈر نے ان کی سرزنش کی اور پھر انہیں اپنا تنقیدی ٹویٹ واپس لینا پڑا۔ اس سے ظاہر ہے کہ آر ایس ایس کا ایک طبقہ بھی عوام کے اس ردعمل کو جائز محسوس کررہاہے اوراسے یہ احساس ہے کہ عوام کی اس ناراضگی پر اسے اُلٹا نشانہ بنانا پارٹی کیلئے نقصاندہ ہوسکتا ہے۔ ویسے ایسا نہیں ہے کہ وزیراعظم مودی کی حکومت میں متوسط طبقے کومالی طور پر ’نچوڑنے‘ کی کوشش پہلی بار کی گئی ہے۔ ’دی وائر‘ میں پرنجے راج نے ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۴ء کے درمیان انکم ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں اضافے کے جو اعداد وشمار اکٹھے کئے ہیں، ان کے مطابق اِن ۱۰؍ برسوں میں کارپوریٹ ٹیکس ۴ء۲۸؍ لاکھ کروڑ سے بڑھ کر ۱۰ء۲؍ لاکھ کروڑ پر پہنچا ہے تو انکم ٹیکس ۲ء۵؍لاکھ کروڑ سے بڑھ کر ۱۱ء۸؍ لاکھ کروڑ ہو گیا ہے یعنی کارپوریٹ ٹیکس میں ۲ء۳؍ فیصد کا اور انکم ٹیکس میں ۴ء۵؍ فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے جو مودی سرکار کی ترجیحات کا بھی مظہر ہے۔