گزشتہ کچھ برسوں میں جب سے ملک کے تفریحی پلیٹ فارمس پراوٹی ٹی(اوور دی ٹاپ) کا ظہور ہوا ہے مختلف کنٹینٹ چینلوں پر سائنس فکشن کی فلموں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: August 25, 2024, 6:08 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
گزشتہ کچھ برسوں میں جب سے ملک کے تفریحی پلیٹ فارمس پراوٹی ٹی(اوور دی ٹاپ) کا ظہور ہوا ہے مختلف کنٹینٹ چینلوں پر سائنس فکشن کی فلموں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں جب سے ملک کے تفریحی پلیٹ فارمس پراوٹی ٹی(اوور دی ٹاپ) کا ظہور ہوا ہے مختلف کنٹینٹ چینلوں پر سائنس فکشن کی فلموں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ان میں کئی فلمیں اور سیریز بہترین ہیں اور یادگار کے ذیل میں رکھی جاسکتی ہیں جیسے ’مینی فیسٹ ‘، ’ لاسٹ اِن اسپیس ‘ ، جبکہ کچھ تھریلر اور سسپنس سے بھرپور بھی ہیں جن کے نام یہاں گنوانا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصد ہے کہ یہ سب خلاء اور اس کے مشن اور زمین سے باہر کی دنیائوں کے مشن پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان میں سنسنی خیزی بھی ہو تی ہے، رومان بھی ہوتا ہے، تحیر اور تجسس کی دنیا بھی ہوتی ہے اور یہ تھریلر سے بھی بھرپور ہوتی ہیں ۔ ہر چند کہ یہ محض فکشن ہے لیکن حقیقی زندگی میں بھی ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جو کسی سائنس فکشن سے کم نہیں ہوتے۔ ان میں بھی بھرپور تجسس اورتحیر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ اس کی مثال ہم ہند نژاد خلا باز سنیتا ولیمز کی خلاء میں روانگی سے دینا چاہیں گے جو اس وقت زمین سے ۴۰۰؍ کلومیٹر دور خلا میں معلق عالمی خلائی اسٹیشن میں پھنس گئی ہیں۔
سنیتا ولیمز اور ان کے ساتھی خلاء باز بچ ولمور ۲؍ ماہ قبل یعنی جون میں بوئنگ کمپنی کے خلائی جہاز اسٹار لائنر پر سوار ہو کر محض ۷؍ سے ۱۰؍ دنوں کے لئے خلائی اسٹیشن میں گئے تھے۔ یہ خلائی اسٹیشن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا زمین سے تقریباً ۴۰۰؍ کلومیٹر دور ہے اور ۲۸؍ ہزار ۱۶۳؍ کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے زمین کے گرد چکر لگارہا ہے۔ اسی وجہ سے یہ ہر ۹۰؍ منٹ میں زمین کا ایک چکر پورا کرلیتا ہے اور ۲۴؍ گھنٹے میں ۱۶؍ چکر پورے کرتا ہے۔ اسی خلائی اسٹیشن پر فی الحال سنیتا ولیمز اپنے ساتھی کے ساتھ پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ گئی تو تھیں محض ایک ہفتے کے لئے لیکن اب خدشہ ہے کہ وہ آئندہ سال فروری سے پہلے شاید واپس نہ آسکیں۔ اس خلائی اسٹیشن پر فی الحال دوسرا عملہ موجود ہے جو کچھ سال پہلے ہی وہاں گیا ہے لیکن سنیتا ولیمز وہاں صرف ٹیسٹ فلائٹ پر گئی تھیں جو محض چند دن کی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ اتنے دنوں تک وہاں پر کیا کریں گی کیوں کہ خلائی اسٹیشن کوئی عام جگہ نہیں ہے۔ اس کی رفتار اور زمین کے مدار میں اس کی مسلسل گردش کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خلائی اسٹیشن ۲۴؍ گھنٹے میں ۱۶؍ مرتبہ سورج نکلنے اور سورج کے غروب ہونے کا تجربہ کرتا ہے۔ اگر زمین پر ایک مرتبہ سورج نکلتا ہے اور غروب ہوتا ہے تو کاروبار زندگی اسی کے مطابق ترتیب پاتا ہے لیکن اندازہ لگائیے کہ آپ کے سامنے روزانہ ۱۶؍ مرتبہ سورج طلوع ہو رہا ہے اور پھر غروب بھی ہو رہا ہے۔ ایسے میں آپ کی ذہنی کیفیات کیا ہوں گی ؟ ذہنی کیفیات سے زیادہ جسمانی کیفیات کیا ہوں گی کیوں کہ سورج کی روشنی نسل انسانی کیلئے بنیادی ماخذوں میں سے ایک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس صورتحال کو خلائی اسٹیشن میں کام کرنے والے خلابازوں کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم بہت زیادہ پُر امید نہیں رہ سکتے۔
یہ بھی پڑھئے:ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی پھر سامنے آگئی
سنیتا ولیمز کے وہاں پھنسنے اور واپس نہ آپانے کے تعلق سے طرح طرح کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کیوں کہ خلائی اسٹیشن میں کسی بھی خلا باز کو طویل عرصے تک رہنے نہیں دیا جاتا ہے۔ کچھ روسی اور امریکی خلابازوں نے ۶؍ سے ۱۲؍ مہینے خلاء میں گزارے ہیں لیکن یہ وقفے وقفے سے ہوا ہے۔ ایک ساتھ کئی مہینوں تک خلاء میں ٹھہرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ اس کی وجہ سے صحت سے متعلق متعدد پریشانیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ اس تعلق سے متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ خلاء میں زیادہ وقت تک رہنے سے خلاباز تابکاری کی زد میں آنے لگتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لے کر دل تک کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے علاوہ اتنے طویل عرصے تک کشش ثقل کے بغیر رہنے کی وجہ سے ہڈیوں کے عوارض بھی انہیں پریشان کرتے ہیں، زیرو گریویٹی کی وجہ سے انہیں کئی نفسیاتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہی یہ رپورٹ بھی آئی ہے کہ خلاء میں زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے خلا بازوں کے ڈی این اے میں بھی تفاوت پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی لئے پوری دنیا میں اس وقت سنیتا ولیمزاور ان کے ساتھی کے تعلق سے تشویش پائی جارہی ہے جو ہماری نظر میں بجا ہے۔
اس معاملے میں غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ سنیتا ولیمز امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور ہوابازی کی مشہورکمپنی بوئنگ کے معاہدہ کے تحت تیار ہونے والے خلائی جہاز اسٹار لائنر میں خلاء میں گئی ہیں۔ یہ پرواز ناسا اور بوئنگ نے محض اس لئے رکھی تھی تاکہ وہ ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس کے خلائی مشن سے آگے نکل سکیں لیکن اب سنیتا کی واپسی نہ ہونے کی وجہ اسٹار لائنر کے تھرسٹرز میں آنےوالی تکنیکی خرابی اور اس میں ہیلیم گیس لیٖک کو قرار دیا جارہا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ناسا مجبوری میں یا کسی منصوبے کے تحت اسپیس ایکس کے ہی خلائی جہاز ڈریگن کا استعمال کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔ اس میں بہت سے لوگوں کوکسی سائنس فکشن کا زاویہ نظر آسکتا ہے اور ’سازشی تھیوری ‘بھی محسوس ہوسکتی ہے کہ یہ امریکہ کی دو بڑی کمپنیوں کی آپسی لڑائی ہے۔
یہ لڑائی خلاء میں چھڑ گئی ہے اور وہ دونوں ہی کمپنیاں اپنی اپنی بالادستی کے لئے سرگرم ہیں لیکن فی الحال ہم اس پر زور نہ دیتے ہوئے سنیتا ولیمز کی محفوظ واپسی پر زور دینا چاہیں گے کیوں کہ ان کا محفوظ واپس آجانا کسی کرشمہ سے کم نہیں ہو گا۔ ناسا نے یہ مشن کیوں کیا اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بوئنگ کے ساتھ مل کر خلائی اسٹیشن تک ہر ۶؍ ماہ میں ایک فلائٹ لے جانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے جس سے خلا باز مسلسل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں رہ کر خلائی تجربات کرسکیں۔ اسٹار لائنر حالانکہ انتہائی ایمر جنسی حالات میں دونوں کو واپس لانے کا اہل ہے لیکن ناسا کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتاکیوں کہ اس سے قبل ایک اور ہندوستانی نژاد خلا باز کلپنا چائولہ کی خلاءسے زمین پر واپسی میں بھی ایسی ہی کوئی بڑی گڑبڑی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے کلپنا چائولہ سمیت بہت سے خلاءبازوں کی جان چلی گئی تھی۔ ناسا بہت اطمینان کے ساتھ اپنے تمام متبادلات پر غور کر رہا ہے۔
ناسا کے ذرائع سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ دونوں ہی خلابازوں کو فروری ۲۰۲۵ء سے قبل واپس نہیں لایا جائے گا اور وہ بھی اسپیس ایکس کے خلائی جہاز ڈریگن کے ذریعے۔ حالانکہ ناسا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ سنیتا ولیمز اور ولمور خلائی اسٹیشن پر پھنسے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ وہاں تجربات کررہے ہیں۔ ناسا انہیں ہر طرح سے مصروف رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کی صحت کی بھی مسلسل جانچ کروائی جارہی ہے اور اہل خانہ سے گفتگو بھی کروائی جارہی ہے۔ ان سبھی باتوں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ دونوں خلا باز اس وقت خلاء میں معلق ہیں اور واپس آنے کے لئے جی توڑ کوششیں بھی کررہے ہیں ۔ سنیتا ولیمز کا مستقبل کس رخ پر جاتا ہے اور وہ زمین پر محفوظ واپس آتی ہیں یا نہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ناسا اور دیگر ممالک کے خلائی شعبوں نے اب تک جتنی ترقی کی ہے، سائنسدانوں کو زمین اور اس کے اطراف کے ماحول کو سمجھنے میں جتنی بھی کامیابی ملی ہے، خلاء میں انسان نے جتنی کمندیں ڈالی ہیں وہ سب سنیتا ولیمز، کلپنا چائولہ اور بچ ولمور جیسے خلابازوں کی ہمت اورجانفشانی کی بدولت ہی ہے۔ ہم اس وقت صرف دعا اور امید کرسکتے ہیں کہ یہ دونوں ہی خلاء باز زمین پر محفوظ طریقے سے واپس آجائیں۔