• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی پھر سامنے آگئی

Updated: August 19, 2024, 5:41 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

سری لنکا ، نیپال ، افغانستان ، مالدیپ اور چین کے معاملے میںجگ ہنسائی کیا کم تھی کہ اب بنگلہ دیش کے حالات نےہمیں مجبورِ محض ثابت کردیا۔

What happened in Bangladesh in the past few days is not only the failure of the government but also the failure of our foreign policy. Photo: INN
بنگلہ دیش میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، وہ وہاں کی حکومت کی ناکامی تو ہے ہی لیکن اس میں ہماری خارجہ پالیسی کی بھی ناکامی ہے۔ تصویر : آئی این این

بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اس کاتصور ہی نہیں کیا گیا تھا۔ کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ملک کی وزیر اعظم کو استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ مظاہرین اس قدر پرتشدد ہو جائیں گے کہ حکومت لاچار نظر آئے گی اور مظاہرین کا بنگلہ دیش میں بول بالا ہو گا۔ ویسے تو حکومت کے خلاف ناراضگی کی وجہ سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن نظام بنی لیکن اس میں شیخ حسینہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کا بھی بہت حد تک دخل رہا۔ دراصل بنگلہ دیش میں ۳۰؍ فیصد ریزرویشن ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ۱۹۷۱ء کی بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لیا تھا۔ بعد ازاں اس ریزرویشن میں ان مجاہدین آزادی کے بچوں اور بعد میں ان کے بچوں کے بچوں کو بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ سرکاری نوکریوں کے لئے مارا ماری تھی، اوپر سے اس ریزرویشن نے اور بڑھتی بے روزگاری نے اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ شیخ حسینہ نے اس مسئلےکو حل کرنے کے لئے اقدامات کئے۔ انہوں نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ سے گفتگو کر کے ان کے تمام مطالبات مان لئے تھے جس کی وجہ سے یہ مظاہرے کچھ روز کے لئے تھم گئے تھے لیکن کچھ دن پہلے دوبارہ شروع ہوئے اور اس مرتبہ مظاہرین نے شیخ حسینہ حکومت کو برطرف کرکے ہی دم لیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:نرملا سیتا رمن کے بجٹ سےسرمایہ کاربھی مایوس ہیں

جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا حسینہ کے اقتدار سے بے دخل ہونے میں جہاں ان کی داخلی پالیسیوں کا دخل ہے وہیں ان کی خارجہ پالیسی کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ حسینہ حکومت کی خارجہ پالیسی بڑی حد تک ہندوستان پر انحصار کی تھی۔ حالانکہ انہوں نے چین سے بھی بہتر روابط بنا لئے تھے لیکن چاروں طرف سےہندوستان سے گھرے ہونے کی وجہ سے اور بنگلہ دیش کی آزادی میں ہندوستان کے رول کی وجہ سے بھی انہوں نے ہندوستان پر انحصار کچھ زیادہ ہی کیا۔ اسی لئے وہ بنگلہ دیش سے فرار ہوکر کسی بھی دوسرے ملک میں نہ جاکر ہندوستان آئیں۔ ہندوستان نے بھی انہیں پناہ دینے میں ہچکچاہٹ نہیں دکھائی لیکن جہاں تک بنگلہ دیش کے تعلق سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی بات ہے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ وہ بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔ 
  گزشتہ ۱۰؍ سال میں ہندوستان نے جن ممالک سے بھی قربت بڑھائی ہے وہاں اسے ناکامی یا رسوائی ہی ہاتھ لگی ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی اندھا دھند حمایت، الیکشن میں کھلی ہوئی دھاندلیوں کے باوجود ہندوستان کی جانب سے لب کشائی نہ کرنا اور شیخ حسینہ حکومت کے متنازع اقدامات پر چپی سادھ لینے سے بھی بنگلہ دیش میں ہندوستان مخالف جذبات بڑھے ہیں۔ ان جذبات کا اندازہ لگانے میں ہندوستانی وزارت خارجہ ا ب تک ناکام ہے۔ عالم یہ ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش میں دیگر پڑوسی ممالک کے مفادات تو کسی حد تک محفوظ ہیں لیکن بنگلہ دیش کی ہر ممکن حمایت کرنے والےہندوستان کے مفادات پر مسلسل ضرب لگ رہی ہے۔ نہ اس وقت بنگلہ دیش میں ہندوستانی محفوظ ہیں ، نہ ہند مخالف جذبات میں کمی آئی ہے اور نہ ہندوستان کی سرحدیں محفوظ ہیں۔  وہاں ہجرت کرنے والوں کی بڑی تعداد مسلسل پہنچ رہی ہے اور سرحد کھلنے کا انتظار کررہی ہے تاکہ ہندوستان میں داخل ہو سکے۔ ان اطلاعات سے سرحدی ریاستوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے حالات صرف ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کو ہی ظاہر نہیں کرتے بلکہ ہماری انٹیلی جنس حاصل کرنے اور وقت سے پہلے باخبر رہنے کی بھی ناکامی کو ظاہر کررہے ہیں۔ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا ہر چند کہ وہ بہت اچانک اور غیر منصوبہ بند تھا لیکن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کی بھنک ہمیشہ پہلے سے لگ جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں امریکہ اور دیگر ممالک کو اس بارے میں پہلے سے خبر تھی لیکن ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیاں جو بنگلہ دیش میں سرگرم ہیں ، انہیں اس کی کوئی خبر نہیں ہوئی۔ صرف بنگلہ دیش کے محاذ پر ہی نہیں بلکہ ہندوستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہمیں دیگر ممالک میں بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ جب تک سشما سوراج وزیر خارجہ تھیں تب تک بڑی حد تک ملک کی شبیہ اور خارجہ پالیسی وہی تھی جو پنڈت نہرو نے شروع کی تھی اور جسے بعد کے تقریباً تمام وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ نے آگے بڑھایا تھا۔ سشما سوراج نے بھی اس میں کوئی بڑی یا انقلابی تبدیلی کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ مودی جی نے اس میں مداخلت کی بلکہ وہ تو اپنے غیر ملکی دوروں سے کافی مطمئن تھے لیکن جیسے ہی ہندوستانی بیوروکریسی سے ہندوستانی سیاست میں ایس جے شنکر کا ظہور ہوا مودی حکومت نے جارح ہندوتوا کی پالیسی اور صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھنا شروع کردیا۔ اپنے مفاد کو مقدم رکھنے پرکوئی خاص اعتراض اس وقت تک نہیں کیاجاسکتا جب تک مقابل کے مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہو لیکن جارح ہندوتوا کی پالیسی، دیگر ممالک میں ہندو شدت پسندوں کی حمایت اور ہر فورم پر صرف اپنا گن گان کرنے کی وجہ سے خارجی سطح پر ہندوستان کی شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ 
 صرف بنگلہ دیش میں ہمیں ناکامی ہاتھ لگی ہو ایسا نہیں ہے کیوں کہ اس سے قبل سری لنکا میں جو کچھ ہوا وہ چند برس پہلے کی ہی بات ہے۔ وہاں ہندوتوا وادی نظریہ والی حکومت برسراقتدار تھی جسے عوام نے اکھاڑ پھینکا۔ اس حکومت کی بھی ہندوستان نے ہر ممکن مدد کی تھی لیکن وہ سب رائیگاں گئی۔ نیپال کے معاملے میں بھی ہندوستان اس پر وہ دبائو قائم نہیں رکھ سکا جس میں اس کے مفادات کی حفاظت ہوتی اور وہاں کی ہندوستانی نسل کی آبادی جنہیں ’مدھیسی‘ کہا جاتا ہے ان کو حق بھی ملتا۔ اسی طرح بحر ہند میں واقع بہت چھوٹے سے جزیرے مالدیپ نے جس طرح سے ہندوستان کو آنکھیں دکھائیں اور اپنی فوجیں وہاں سے نکال لینے پر مجبور کیا وہ ریکارڈ کے طور پر درج ہو گیا ہے۔ پاکستان سے ۲۰۱۵ء کے بعد سے ہندوستان نے کسی بھی سطح پر کوئی بات چیت نہیں کی ہے جبکہ چین رپورٹس کے مطابق لداخ میں اندر تک گھس آیا ہے لیکن اب تک اسے باہر نہیں نکالا جاسکا ہے۔ وزیر خارجہ اس معاملے میں صرف بیان دے کر رہ جاتے ہیں لیکن حقیقی صورتحال سے کسی کو آگاہ نہیں کرتے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ایک اور بڑا مظہر افغانستان سے امریکہ کا فرار اور طالبان کی دوبارہ آمد ہے۔ حکومت ہند یا وزارت خارجہ کو اس کی بھی بھنک تک نہیں لگی جبکہ گزشتہ ۱۰؍ سے ۱۵؍ سال سے ہندوستان افغانستان میں بہت بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس پر کام کررہا تھا۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے لیکن جب طالبان آئے تو یہاں وزارت خارجہ کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK