طلبہ کی نشوونما اور اُن میں موجود صلاحیتوں کا سب سے زیادہ ادراک والدین کو ہونا چاہئے۔ والدین ہی کی گود میں بچے پلتے ہیں ، وہ اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور اُن کی عادات و اطوار کا بغور مشاہدہ وہی کرسکتے ہیں ، ا
EPAPER
Updated: December 15, 2024, 1:54 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
طلبہ کی نشوونما اور اُن میں موجود صلاحیتوں کا سب سے زیادہ ادراک والدین کو ہونا چاہئے۔ والدین ہی کی گود میں بچے پلتے ہیں ، وہ اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور اُن کی عادات و اطوار کا بغور مشاہدہ وہی کرسکتے ہیں ، ا
طلبہ کی نشوونما اور اُن میں موجود صلاحیتوں کا سب سے زیادہ ادراک والدین کو ہونا چاہئے۔ والدین ہی کی گود میں بچے پلتے ہیں ، وہ اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور اُن کی عادات و اطوار کا بغور مشاہدہ وہی کرسکتے ہیں ، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ طلبہ کی تعلیمی ترقی میں سب سے اہم کردار والدین ادا کرتے ہیں تو اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا مگر اس سے قبل کہ ہم کوئی اور بات کہیں ذرا ٹھہریئے، وہ تمام والدین جن کے بچے اِس وقت اسکولوں اور کالجوں میں ہیں ، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کتنا جانتے ہیں ؟ اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں اُن کے پاس کون سی معلومات ہیں ؟ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی اور نفسیاتی نشوونما کیلئے کیا کرتے ہیں ؟ اُن کے ساتھ کتنا وقت گزارتے ہیں ؟ اُن کی دلی اور ذہنی کیفیات کا کیا علم رکھتے ہیں ؟ ان سوالوں کو سن کر اکثر والدین کہیں گے کہ ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ ہمیں اس کا شعور نہیں تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ اُن میں کیا کیا تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
والدین کا یہی عجز اصل رونا ہے۔ اساتذہ کتنے ہی فرض شناس اور محنتی ہوں ، وہ طالب علم کو دور سے جانتے ہیں ۔ وہ اُن کی دلی اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کا علم نہیں رکھتے۔ رکھ بھی نہیں سکتے کیونکہ اُنہیں تو نصاب مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اُن کے پاس تعلیم و تدریس سے متعلق کئی اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور اب تو محکمۂ تعلیم اُن پر اضافی بوجھ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ والدین کا رول اس لئے بھی اہم ہے کہ بچے کی ابتدائی زندگی کا مکمل کنٹرول اُنہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ وہ کیسے کھاتا ہے، کیسے اُٹھتا بیٹھتا ہے، کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے، کتنی بات سنتا ہے، سعادت مندی کے جراثیم اس میں ہیں یا نہیں ، پڑھائی لکھائی میں اس کی کتنی دلچسپی ہے وغیرہ۔ ایسے تمام سوالوں کے جوابات سے اُن کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ اپنی مصروفیتوں کے باعث ان اُمور کا جائزہ نہ لیں تو اس سے اُنہی کے جگر گوشوں کی ترقی متاثر ہوگی۔ عمر کے ابتدائی سال بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ یہ، جسم کے ساتھ ساتھ ذہن اور نفسیات کی نشوونما کا دور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کسی چیز کا گھٹی میں پڑا ہونا یعنی اخلاق و عادات کا نہایت کم سنی میں تشکیل پانا۔ اگر طالب علم اچھی خصوصیات کا حامل ہے تو یہ والدین کی توجہ کا نتیجہ قرار پاتا ہے اور اگر اچھی خصوصیات کا حامل نہیں ہے تو والدین ہی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔اسکول صلاحیتوں کو نکھارتا ہے اور اساتذہ موجود صلاحیتو ں کو تراشنے اور نئی صلاحیتیں پیدا کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔ مگر اس کی وجہ سے طالب علم کتنا قیمتی ہوجائیگا اس کا انحصار بچپن کی گھریلو تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قرض کا جال، قرض کا بوجھ
بہت سے والدین اپنی ان ذمہ داریوں سےنا آشنا تو رہتے ہی ہیں ، جب طالب علم اہم امتحانات کی تیاری کرتا ہے تب بھی وہ اُسے بہتر وسائل فراہم کرنے، اچھا ماحول تیار کرنے اور اُسے ہمت و حوصلہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وہ بچے کو اسکول جاتا آتا دیکھ کر مطمئن رہتے ہیں ۔ وہ پڑھتا لکھتا ہے یا نہیں اس کا بہت کم علم اُن کے پاس ہوتا ہے۔ جب طالب علم سال بھر محنت نہ کرے تو عین امتحان کے وقت اس کا کمربستہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے مگر والدین کی توجہ سے بہت فرق پڑتا ہے۔ والدین کی توجہ اُسے فیل سے پاس، کم نمبر سے زیادہ نمبر اور اگر پڑھائی لکھائی میں اچھا ہے تو اعلیٰ کامیابی تک پہنچا سکتی ہے۔