قرض لینا حکومتوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ بالخصوص ترقی پزیر ممالک میں قرض لینے کا رواج دیگر ملکوں سے زیادہ ہے۔ وطن عزیز بھی انہی ملکوں میں شامل ہے جس پر قرض کا بوجھ کافی ہے۔
EPAPER
Updated: December 14, 2024, 1:29 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
قرض لینا حکومتوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ بالخصوص ترقی پزیر ممالک میں قرض لینے کا رواج دیگر ملکوں سے زیادہ ہے۔ وطن عزیز بھی انہی ملکوں میں شامل ہے جس پر قرض کا بوجھ کافی ہے۔
قرض لینا حکومتوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ بالخصوص ترقی پزیر ممالک میں قرض لینے کا رواج دیگر ملکوں سے زیادہ ہے۔ وطن عزیز بھی انہی ملکوں میں شامل ہے جس پر قرض کا بوجھ کافی ہے۔ عالمی سطح پر مقروض ملکوں پر کھربوں ڈالر کا بوجھ ہے جسے یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ تمام حکومتوں کو قرض لینا پڑتا ہے اور اس میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ حکومتیں اپنا خرچ پورا کرنے، عوام سے کئے گئے وعدے وفا کرنے اور عوامی مفادات کی حفاظت کیلئے قرض لیتی ہیں ، دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے، مگر جب قرض بڑھ جاتا ہے تو اس کا خمیازہ کسی اور کو نہیں عوام ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ عجب تماشا ہے کہ گردن عوام ہی کی پھنستی ہے۔
موجودہ دور میں شرح سود کے بڑھنے اور سرمائے کے لوَٹ کر ترقی یافتہ ملکوں کی طرف جانے سے ترقی پزیر ملکوں کیلئے بڑے مشکل حالات پیدا ہوگئے ہیں ۔ اس کی وجہ سے یہ ممالک اضافی شرح سود پر قرض لے رہے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ قرض جتنا لیا جاتا ہے اُس میں سود کی رقم اُسی شرح سے جمع ہوتی ہے اور پھر یہ پہاڑ بن جاتی ہے۔ ایسے کئی پہاڑ دُنیا کی مختلف حکومتوں کو ڈراؤنے معلوم ہونے لگے ہیں ۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے حکومتیں ٹیکسوں کی وصولی میں کافی سخت ہوجاتی ہیں اور جب جب ممکن ہوتا ہے، تب تب ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے ٹیکس عائد کرتی ہیں ۔ عالمی بینک کی رپورٹ برائے عالمی قرض ۲۰۲۳ء میں بتایا گیا تھا کہ ترقی پزید ملکوں نے دوران ِ سال اتنا سود ادا کیا ہے جتنا ۲۰؍ سال میں نہیں کیا تھا ۔ اس کی وجہ سے کئی ملکوں کو صحت، تعلیم اور ماحولیات جیسے شعبوں کا بجٹ کم کرنا پڑا۔اس سے ثابت ہے کہ نقصان عوام ہی کا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ بندی کی قرارداد
مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی بینک کی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسوسی ایشن (آئی ڈی اے) سے حاصل کئے گئے قرض پر ادا کیا جانے والا سود ۳۴؍ ارب ڈالر کے برابر تھا۔ اب سے دس سال پہلے جتنی رقم بطور سود ادا کی جاتی تھی یہ اُس کا چار گنا زیادہ ہے۔ہندوستان پر بھی قرض کا بوجھ کم نہیں ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ حکومتوں پر قرض دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک بیرونی ایجنسیوں اور بینکوں سے لیا ہوا قرض، اور دوسرا اندرونی ایجنسیوں اور بینکوں سے لیا ہوا قرض۔ سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ ہماری مرکزی حکومت کو بھی سود کی ادائیگی کے سخت امتحان سے گزرنا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ۲۰۲۴ء میں مرکز کو ۱۱؍ سے ۱۲؍ فیصد زیادہ سود ادا کرنا پڑیگا۔ اس کیلئے جو تخمینہ پیش کیا گیا ہے وہ ۱۰ء۸۰؍ لاکھ کروڑ روپے کا ہے۔ یہ اتنی رقم ہے کہ عام آدمی اسے کاغذ پر لکھنا چاہے تو کتنے عدد ہوں گے یہ سوچ کر ہی بے ہوش ہونے لگے گا۔
قرض سے نجات پانے کیلئے جو اقدامات ضروری ہیں وہ چونکہ محنت طلب ہیں ، ان کیلئے صحیح پالیسیاں درکار ہوں گی اور ایک وقت کے بعد ہی ان کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس لئے اکثر حکومتیں شارٹ کٹ کا سہارا لیتی ہیں جو کہ اندرونی یا بیرونی قرض کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ حکومتیں اس لئے بھی قرض لینے کے معاملے میں فراخدل ہیں کہ کتنا قرض لیا جارہا ہے اور قرض کا بوجھ کتنا ہوگیا ہے یہ محض مٹھی بھر لوگوں ہی کے علم میں رہتا ہے۔ عام لوگ اس سے غافل رہتے ہیں اس لئے حکومتوں کو اپنی مرضی چلانے کی عادت ہوجاتی ہے جو دراصل مرضی نہیں مرض ہے۔ سود کی لعنت نے قرضـو ں کو زیادہ پریشانی کا باعث بنا دیا ہے۔