• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تعلیم اُن کی جو گھر سے بے گھر ہوئے!

Updated: October 20, 2024, 4:50 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

دُنیا میں جنگوں کے سبب یا بھکمری، قدرتی آفات اور بیماریوں یا وباء کے سبب جب لوگ باگ اپنے گھروں کو، علاقوں کو حتیٰ کہ ملکوں کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوتے ہیں تو جوق در جوق جن پناہ گاہوں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں وہاں اُنہیں پناہ گزینوں کی حیثیت سے بود و باش اختیار کرنی پڑتی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 دُنیا میں  جنگوں  کے سبب یا بھکمری، قدرتی آفات اور بیماریوں  یا وباء کے سبب جب لوگ باگ اپنے گھروں  کو، علاقوں  کو حتیٰ کہ ملکوں  کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوتے ہیں  تو جوق در جوق جن پناہ گاہوں  کی طرف رواں  دواں  ہوتے ہیں وہاں  اُنہیں  پناہ گزینوں  کی حیثیت سے بود و باش اختیار کرنی پڑتی ہے۔ ان میں  اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں  کی ہوتی ہے جو اپنے گھرو ں کو کبھی واپس نہیں  جاپاتے۔ پناہ گاہ ہی اُن کی مستقل سکونت کا مقام قرار پاتی ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں  کو واپس نہیں  جا پاتے اُن میں  سے اکثر کیمپوں  میں  رہتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں  ۶۶؍ لاکھ لوگ کیمپوں  میں  رہتے ہیں ۔ خاندان کے خاندان جب ایسی مستقل بن جانے والی عارضی جگہوں  پر مقیم ہوتے ہیں  تو انہیں  کیسے کیسے مسائل سے جوجھنا پڑتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں  ہے۔ انہی مسائل میں  بچوں  کی تعلیم کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ بچے بالکل اُسی طرح سے اِس دُنیا کے باشندے اور شہری ہیں  جس طرح ہمارے اور آپ کے بچے اپنے ملک کے باشندے اور اِس ملک کے شہری ہونے کے ساتھ ساتھ دُنیا کے باشندے اور شہری ہیں ۔ جس طرح ہمارے آپ کے بچوں  کی پڑھائی لکھائی ضروری ہے اُسی طرح پناہ گزیں  کیمپوں  میں  رہنے والے بچوں  کی تعلیم ضروری ہے۔ جو ایجنسیاں  ان کیمپوں  کی دیکھ بھال کرتی ہیں  وہ کیمپ کے اندر خاطرخواہ انتظامات کرتی ہیں ۔ ان میں  شفا خانوں  اور اسکولوں  کا نظام بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر اتنے مخدوش ماحول میں  وہ کتنی پڑھائی کرپاتے ہوں  گے یہ کہنا مشکل ہےمگر اندازہ تو ہوتا ہے کیونکہ جب کسی اسکول میں  بہت کم سہولتیں  ہوں  اور اساتذہ کی تعداد بھی بہت کم ہو تو وہاں  کا معیار تعلیم بلند نہیں  ہوسکتا تو کس بنیاد پر یہ توقع کی جائے کہ پناہ گزیں  کیمپوں  کے اسکولوں  میں  دی جانے والی تعلیم اس قابل ہوتی ہوگی کہ ان میں  پڑھنے والے طلبہ بہتر طریقے سے زیور تعلیم سے آراستہ ہوں ؟ 

یہ بھی پڑھئے:محبان ِ فلسطین

 اسی لئے اقوام متحدہ کے فنڈ میں  چھوٹی بڑی رقم کے ذریعہ شرکت کرنی چاہئے تاکہ وہ بچے جن سے ہم واقف نہیں  ہیں ، جن سے ہماری کوئی شناسائی نہیں  ہے، جنہیں  ہم کبھی دیکھ پائیں  اس کا بھی امکان نہیں  ہے، مگر انسانیت کارشتہ اور درد کا رشتہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اُنہیں  اِس دُنیا کا بہتر شہری بننے میں  دست تعاون جس قدر بھی دراز ہوسکتا ہے، کیا جائے۔وہ تمام لوگ جو بہتر تعلیم سے آراستہ ہوئے اور جس کے سبب اُن کی معاشی حالت مستحکم ہے، اُنہیں  تین سطحوں  پر ’’پے بیک‘‘ کی پالیسی پر عمل کرنا چاہئے۔ ایک تو یہ کہ اپنے گھر اور خاندان کے بچوں  کی تعلیم پر ہر ممکن توجہ دی جائے۔ دوسرا اپنے ملک کے غریب طلبہ کی مدد کیلئے کچھ نہ کچھ کیا جائے۔ اور، تیسرا یہ کہ وہ تمام لوگ جو جنگوں  کے سبب یا کسی اور وجہ سے پناہ گزیں  کیمپوں  میں  رہنے پر مجبور ہیں  اُن کی صحت اور تعلیم کی فکر کی جائے۔اکثر لوگ اتنا نہیں  سوچتے بلکہ اپنے خاندان بھی نہیں ، صرف اپنے گھر کے بچوں  کی تعلیم کا انتظام کرتے ہیں  اور اسی کو اپنی مجموعی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔ اگر ہمیں  دور دیس کے لوگوں  کی جان و مال کی پروا ہے تو اُن کی تعلیم و تربیت کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ ہمارا نظریہ اتنا محدود نہیں  ہوسکتا کہ صرف اپنی فکر کریں  اور دُنیا کی جانب سے بے فکر ہوجائیں ۔ ہوسکتا ہے انہیں  مصیبت زدہ لوگوں  میں  ایسے افراد بھی پیدا ہوں  جو پوری انسانیت کیلئے کارآمد بن جائیں ۔ ان پر خرچ کرنا تو فال نیک ثابت ہوگا!

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK