فلسطین کا ذکر ہوتا ہے، بالخصوص ۷؍ اکتوبر ۲۳ء کے بعد غز ہ کے حالات کا، تو اسرائیل، امریکہ، اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس، چین، سعودی، ایران وغیرہ ہی کا نام زبان پر آتا ہے۔ شاذونادر بھی ایسا نہیں ہوا کہ کیوبا کا نام آیا ہو جبکہ کیوبا فلسطین کے کسی بھی غمخوارسے بڑا غمگسار ہے۔
فلسطین کا ذکر ہوتا ہے، بالخصوص ۷؍ اکتوبر ۲۳ء کے بعد غز ہ کے حالات کا، تو اسرائیل، امریکہ، اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس، چین، سعودی، ایران وغیرہ ہی کا نام زبان پر آتا ہے۔ شاذونادر بھی ایسا نہیں ہوا کہ کیوبا کا نام آیا ہو جبکہ کیوبا فلسطین کے کسی بھی غمخوارسے بڑا غمگسار ہے۔ دوستی اور ہمدردی کی یہ روایت بہت پرانی، کم وبیش پچاس سال پر محیط ہے۔ یہ وہی کیوبا ہے جس نے نازی جرمنی میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر یہودیوں کیلئے اُن کے اپنے وطن کے مطالبے کا ساتھ دیا تھا مگر عالم عرب پر اسرائیل کے مسلط کئے جانے کے بعد کے حالات میں اُسی کیوبا نے حکومت ِ اسرائیل اور اس کی پشت پناہی میں صہیونیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور تب ہی سے یہ ملک فلسطین کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے۔ چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پڑوسی ملکوں نے فلسطین کا اِتنا ساتھ نہیں دیا جتنا غزہ سے تقریباً گیارہ ہزار کلومیٹر دور واقع کیوبا نے دیا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کیوبا اُس درد کو جانتا ہے اور اپنے دل میں محسوس کرتا ہے جس سے اہل فلسطین گزرتے رہے اور اب بھی گزر رہے ہیں ۔ درد کے اسی رشتے کے تحت ۱۹۷۴ء میں جب تحریک ِ فلسطین کے قدآور رہنما یاسر عرفات نے کیوبا کا دورہ کیا تھا تب وہاں کے وزیر اعظم فیڈل کاسٹرو نے اُن کا پُرتپاک خیرمقدم کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: افسوسناک بہرائچ فساد
اس سے قبل ۱۹۵۹ء میں فیڈل کاسٹرو کے بھائی راؤل کاسٹرو اور مشہور انقلابی لیڈر چے گوارا نے سرزمین ِ غزہ پر قدم رکھا تھا تب اُن کا بھی اُتنے ہی تپاک سے استقبال کیا گیا تھا۔ اس پس منظر میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ فلسطین اور کیوبا کے درمیان درد کے رشتے کے تحت قائم ہونے والے تعلقات کی تاریخ چھ سات دہائیوں پر محیط ہے۔ کیوبا کئی طریقوں سے فلسطین کیلئے دست ِ تعاون دراز رکھتا ہے۔ سفارتی طریقے سے فلسطین کے جائز مطالبات کی حمایت تو اپنی جگہ مسلّم ہے ہی، کیوبا تعلیمی اور سماجی اُمور میں بھی اہل فلسطین کی مدد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔ ۱۹۸۲ء سے اب تک فلسطین کے سیکڑوں طلبہ ہر سال بغرض تعلیم کیوبا کا رُخ کرتے ہیں اور کیوبن حکومت کی اسکالرشپ پر میڈیسن، انجینئرنگ اور دیگر شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ۲۰۱۶ء میں ۹۰؍ سال کی عمر میں انتقال کرنے والے کاسٹرو اپنی آخری سانس تک فلسطین دوستی کا ثبوت دیتے رہے۔ یہی روایت آج بھی برقرار ہے لہٰذا آپ نے چند روز قبل اِس اخبار میں وہ خبر پڑھی ہوگی جس میں بتایا گیا تھا کہ ہوانا میں جب اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ریلی نکالی گئی تو مظاہرین کی قیادت خود کیوبا کے صدر میگل ڈیاز کینل کررہے تھے جبکہ وزیر اعظم مینوئل میریرو اُن کے ساتھ تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی ملک کا سربراہ کسی ریلی یا مظاہرہ کا حصہ بنے یا اُس کی قیادت کرے۔ یہ کیوبا ہی کرسکتا تھا اور اسی نے کیا۔ اس موقع پر خطاب میں کیوبن صدر نے فلسطینی عوام کی خود مختاری اور آزادی کے مطالبہ کی حمایت اور غزہ میں جاری قتل عام کی مذمت کی۔ اس سے قبل، جب جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت ِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تب کیوبا بھی مقدمہ دائر کرنے والوں میں شامل تھا۔
دُنیا کے اکثر ممالک چاہے جتنے دُہرے معیار کو ملحوظ رکھیں ، چند ممالک فلسطینی عوام کے دکھ درد میں شریک ہیں اور جس کسی درجے میں اُن کی مدد کرسکتے ہیں ، کررہے ہیں ۔ ان محبان ِ فلسطین کی ستائش کی جانی چاہئے۔