• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اُردو کے بہی خواہوں کی سنجیدہ توجہ کیلئے چند باتیں

Updated: September 20, 2024, 1:36 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اگر ہم اردو زبان، ادب اور تہذیب کے شیدائی ہیں تو دیکھیں کہ ہم خود اردو الفاظ صحیح تناظر میں صحیح تلفظ کے ساتھ بولتے اور سمجھتے ہیں یا نہیں؟ اور اردو ہماری آئندہ نسلوں میں زندہ رہے گی یا نہیں؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ادھر کئی فون آئے کہ کچھ لوگوں  کو لفظ ’شاہی‘ ناپسند ہے اور وہ لفظ اکھاڑے کے ساتھ اس کا استعمال کرنا بند کر رہے ہیں ۔ میرا جواب تھا کہ شاہی خاندانوں  کو ملنے والی مراعات پہلے ہی ختم ہوچکی ہیں ۔ شاہی خاندانوں  میں  پنپنے والی سازشیں  تو اور پہلے دم توڑ چکی تھیں ۔ شاہی ٹکڑا بھی سب کو پسند نہیں ۔ اب اگر لفظ شاہی کا استعمال بھی متروک قرار دے دیا گیا تو کیا قباحت ہے؟ ہر شخص اپنی پسند کا لفظ استعمال کرنے کے لئے آزاد ہے۔ ہاں  اس پر بات کی جاسکتی ہے کہ کسی لفظ کو ترک کرنا یا کسی لفظ کو رائج کرنا آسان ہے کیا؟ آزاد ہندوستان میں  کئی بار آوازیں  اٹھیں ، تحریکیں  چلیں  کہ اُردو یا اُردو کے سہارے رائج ہونے والے عربی، فارسی اور ترکی الفاظ تج دیئے جائیں  اور ان کا متبادل استعمال کیا جائے۔ مثال بھی دی گئی کہ ’وایو‘ کے ہوتے ’ہوا‘ کے استعمال کی کیا ضرورت ہے لیکن جب انہیں  محسوس ہوا کہ صرف ’ہوا‘ تج دینے کا مطلب ہوا باز، ہوا پر گرہ لگانا، ہوا بندھنا، ہوا اکھڑنا، ہوا چھوڑنا، ہوا خواہ، ہوا خوری، ہوا خواہی، ہوا سے باتیں  کرنا جیسے اسماء، افعال یا محاروں  سے محروم ہوجانا ہے تو یہ آوازیں  دَبتی چلی گئیں ۔ صدیوں  کے لاشعوری عمل سے کوئی لفظ مختلف معنی اور صورتوں  میں  رائج ہوتا ہے اس کو ختم کرنا یا اس کو ختم کرنے کی شعوری کوشش کرنا چند روز یا چند افراد کے بس میں  نہیں ۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اگر ہم اردو زبان، ادب اور تہذیب کے شیدائی ہیں  تو دیکھیں  کہ ہم خود اردو الفاظ صحیح تناظر میں  صحیح تلفظ کے ساتھ بولتے اور سمجھتے ہیں  یا نہیں ؟ اور اردو ہمارے گھروں  میں ، ہمارے معاشرہ میں  یا ہماری آئندہ نسلوں  میں  زندہ رہے گی یا نہیں ؟
 جہاں  تک میرے مشاہدے اور آپ کے استفسار کا تعلق ہے میں  محسوس کرتا ہوں  کہ ہم دونوں  غیر ضروری سوالوں  میں  الجھ جاتے ہیں ۔ میرے پاس اکثر جو فون آتے ہیں  وہ کچھ اس مفہوم کے ہوتے ہیں : (۱) میرے گھر میں  اردو کی کتابیں  ہیں  مگر کوئی اردو پڑھنے والا نہیں  ہے۔ کسی سے کہئے کہ لے جائے۔ (۲) میرے گھر ایک عرصے سے اردو اخبار پڑھا جاتا تھا مگر اب کوئی اردو پڑھنے والا نہیں  ہے اس لئے اردو اخبار کی خریداری بند کر رہا ہوں ۔ (۳) میں  نے اپنے بیٹے، بیٹی، پوتے یا پوتی کا نام رکھا مگر محلے کے مولوی صاحب نے سنا تو کہا کہ یہ تو کوئی نام ہی نہیں  یا اس کے تو اچھے برے معنی ہی نہیں ۔ (۴) اردو کے اجتماعات (مشاعروں ، سمیناروں ، مجلسوں ) میں  شریک ہونے سے زبان درست ہوتی ہے نہ تفریح میسر ہوتی ہے تو ان میں  کیوں  شرکت کی جائے؟
 مندرجہ بالا استفسار کی پہلی دوسری قسم کے بارے میں  بس یہی پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ نوبت آئی کیوں ؟ جس کے گھر کتابوں  کا ذخیرہ ہے مگر اردو پڑھنے والے نہیں  ہیں  اس نے اپنے گھر والوں  میں  علمی میراث کو سنبھالنے کا جذبہ کیوں  نہیں  جگایا؟ جذبہ ہو تو اردو پڑھنے لکھنے کے لئے دس پندرہ دن بہت ہیں ۔ اس مدت میں  جہل کو علم بنا کر پیش کرنے والے نہ سہی، اردو حرف و لفظ شناس تو پیدا کئے ہی جاسکتے ہیں  جو مطالعہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں  کو بڑھاتے رہیں ۔ اردو میں  خاص طور سے اردو شاعری میں  تو ’اُمی ّ شاعروں ‘ کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ ہمارے یہاں د و قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک ناخواندہ لوگ اور دوسرے اردو نہ جاننے والے خواندہ یا تعلیم یافتہ لوگ۔ دونوں  کو حرف شناس بنایا جاسکتا ہے مگر اردو کے سلسلے میں  سازشیں  اور اشتعال انگیزیاں  تو بہت ہیں ، تعمیری کوششیں  بہت کم ہیں ۔ اردو کے گلے پر کند چھری رکھنے والوں  کو ’محسن اردو‘ کا لقب دیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ اچھا تو ہو نہیں  سکتا۔
 جو اردو نہیں  جانتا وہ اپنے بیٹے کا نام کتاب الرحمٰن‘ بھی رکھ سکتا ہے۔ ایسی مثالیں  بھی ہیں  لہٰذا محلے کے مولوی صاحب اگر اصلاح کرتے ہیں  تو صحیح کرتے ہیں ۔ استفسار کی چوتھی صورت یا قسم کے بارے میں  یہ کہنا درست ہے کہ علمی ادبی کام غیر علمی افراد کریں  گے یا غیر علمی افراد کی نگرانی میں  کرینگے تو یہی ہوگا جو ان دنوں  ہورہا ہے۔ ایک زمانے میں  علمی ادبی اجتماع سیکڑوں  کتابوں  کے مطالعے کا حاصل ہوا کرتا تھا، اب دو چار اچھی باتیں  جو ذہن میں  رہ گئی ہیں  ان کو بھی بھلا دینے کا باعث ہوتی ہیں ۔ ایسے میں  یہ سوال درست ہے کہ زبان و تہذیب سے دور رکھنے یا اپنے مفاد یا شہرت کو مقدم رکھنے کے مقصد سے منعقد کئے گئے اجتماعات میں  کیوں  شرکت کی جائے۔ جہاں  تک پڑھنے والے ختم ہوجانے کے سبب اردو اخبار نہ خریدنے کا سوال ہے تو جس گھر میں  اردو پڑھنے والے نہ ہوں  مگر مالی حالت اچھی ہو ایسے گھر اُن خاندانوں  میں  اخبار جاری کروا سکتے ہیں  جہاں  اردو پڑھنے والے موجود ہیں  مگر مالی حالت اچھی نہ ہونے کے سبب اخبار نہیں  خرید سکتے۔ 
 اسی طرح صرف دس یا پندرہ دن کے کیمپ یا کورس کے ذریعہ ان لوگوں  کو اردو سکھائی جاسکتی ہے جو کوئی زبان نہیں  جانتے یا دوسری کوئی زبان تو جانتے ہیں  مگر اُردو نہیں  جانتے۔ مگر عملاً ہو کیا رہا ہے؟ اردو کے فروغ کے لئے قائم کئے گئے ادارے اردو کشی میں  مبتلا ہیں ۔ جنہوں  نے زندگی بھر ڈھنگ کی چار سطر نہیں  لکھی وہ سینئر ادیب، شاعر اور صحافی کے طور پر خود کو متعارف کرا رہے ہیں ۔ خوشامد کا حوصلہ اور مہارت رکھنے والوں  کو انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ اس لئے وہ تمام افراد اردو دشمن کہے جانے کے مستحق ہیں  جو چھوٹی رقم اور بڑے حربے استعمال کرکے مسند ِصدارت یا ہر اسٹیج پر نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کانا پھوسی اور سازشیں  کرتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے : بہار میں آئندہ اسمبلی انتخاب اور تیجسوی کی یاترا

 انہیں  بتایا جانا چاہئے کہ جو بات ذہن نشین کئے جانے کی ہے وہ یہ ہے کہ جس زبان کی اپنی فرہنگ نہیں  وہ ادھوری اور جو فرہنگ تلفظ نہیں  بتاتی وہ لایعنی ہے کیونکہ ایک ہی لفظ کے اعراب میں  تغیر ہونےپر معنی بدلتے جاتے ہیں ۔ اسی طرح تلفظ سے ناواقفیت کی بنا پر دوسرے معنی کا کوئی ہم شکل لفظ کسی دوسرے معنی میں  استعمال ہونے والے لفظ کے ساتھ استعمال ہونے پر کور ذوقی کا ثبوت بن جاتا ہے۔ اس کور ذوقی کا ثبوت اگر کوئی ایسا شخص دے رہا ہے جو زبان کی ترویج و اشاعت میں  حصہ لے رہا ہے تو مستحسن ہے لیکن اس کور ذوقی کا مظاہرہ شوق و شہرت کے ماروں  کے ذریعہ کیا جا رہا ہے تو برا ہے کہ ان کی کوتاہیوں  کو اردو کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK