بہتر امکانات کی تلاش میں کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ بہت سے ملکوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہےمگر اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ موضوع بحث بن رہا ہے کیونکہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
EPAPER
Updated: October 07, 2024, 1:53 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
بہتر امکانات کی تلاش میں کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ بہت سے ملکوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہےمگر اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ موضوع بحث بن رہا ہے کیونکہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
بہتر امکانات کی تلاش میں کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ بہت سے ملکوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہےمگر اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ موضوع بحث بن رہا ہے کیونکہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس باب میں ہندوستان زیادہ توجہ کا مرکز بن گیا ہے کیونکہ دُنیا میں جتنے بھی لوگ اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر کسی دوسرے ملک میں بود و باش اختیا رکرتے ہیں اُن میں ہندوستانیو ں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق چین اور برطانیہ کے بعد ہندوستان تیسرا ملک ہے جہاں کے کروڑ پتی اپنے وطن سے بے وفائی کررہے ہیں ۔ بعض دیگر رپورٹوں میں ہندوستان کو نمبر وَن بھی قرار دیا جاچکا ہے۔
ہم دیگر ملکوں کی بات نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے ملک کی بات کرنا چاہیں گے کیونکہ ہم ایسے ملک کو اپنی ترقی اور خوشحالی کیلئے صلاحیت کی بھی ضرورت ہے اور دولت کی بھی۔ ہم اس رجحان کو خوش آئند نہیں کہہ سکتے کیونکہ جانے والوں کے ساتھ صلاحیتیں بھی چلی جاتی ہیں اور دولت بھی۔ مرکزی حکومت کو ہجرت کرنے والوں کی تعداد اور ملک سے باہر جانے والی دولت پر فکرمند ہونا چاہئے۔ اسے ملک کو بتانا بھی چاہئے کہ وہ کیا مجبوری ہے جو اُنہیں اپنی سرزمین سے رشتہ توڑنے اور غیر ملکوں کی سرزمین سے رشتہ جوڑنے کیلئے بے چین کررہی ہے؟ یہاں اس وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ غیر ملکوں کا رُخ کرنے والوں میں ایسا کوئی نہیں جو متوسط یا نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ سب دولتمند لوگ ہیں جو یہا ں کمائی ہوئی دولت کو یہاں چھوڑ کر تو جانے سے رہے لہٰذا ساری دولت لے کر پرائے ملکوں کا بھلا کررہے ہیں اور اپنے وطن کا نقصان۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۳ء میں ۵۱۰۰؍ ہندوستانی دولتمندوں نے ہجرت کی۔ اس سے قبل ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان ۲۳؍ ہزار کروڑ پتیوں نے یہ قدم اُٹھایا تھا۔ یہ طرفہ تماشا ہی ہے کہ ایک طرف حکمراں جماعت وطن پرستی کو سیاسی نعرہ بناتی ہے اور دوسری طرف اتنی بڑی تعداد میں ہمارے اپنے لوگ دیگر ملکوں کی شہریت حاصل کرتے ہیں ۔ وجوہات جو بھی ہوں ہم ان وجوہات کو نہیں مانتے، ہم یہ مانتے ہیں کہ کوئی وجہ اتنی طاقتور نہیں ہوسکتی کہ انسان اپنا وطن چھوڑ دے۔ اگر کسی کے سامنے مسائل ہیں تو اُن کا حل تلاش کیا جانا چاہئے بلکہ اپنے مسائل کے حل کی فکر کرتے ہوئے اپنے ہموطنوں کے مسائل سے بھی دلچسپی رکھنی چاہئے، ایک ملک میں رہنے والوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔اپنی محنت، صلاحیت اور دولت سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کرنا ہی سچی وطن دوستی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: والدین کی تعلیمی وابستگی
جانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اِس ملک سے کمائی ہوئی اُن کی دولت پر اُن لوگوں کا بھی حق ہے جو اُن کے حصے میں چلی جانے والی دولت کے کسی نہ کسی درجے میں شراکت دار ہیں کہ اگر آپ کسی کمپنی کے مالک تھے اور آپ کی بنائی ہوئی مصنوع ہندوستانی صارفین نے خریدی تھی تو یہ اُن صارفین کا تعاون تھا جس نے آپ کو دولتمند بنایا چنانچہ آپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ یکطرفہ فیصلہ کرکے یہاں کی دولت کو دوسرے ملکوں میں لے جائیں ۔اگر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں تو یہ لازمی ہے کہ غیر ملکوں میں رہتے ہوئے اپنے ملک کے لوگوں کی خیرخواہی اور اُنہیں مواقع فراہم کرنے کی فکر کریں ۔ اُس صورت میں وہ تھوڑا بہت حق ادا کرسکیں گے۔