• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک عہد اپنے آپ سے

Updated: September 15, 2024, 1:40 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اِس دور کو کتابوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جن کا ذاتی کتب خانہ ہے اور جو کتابوں کے معاملے میں باذوق ہیں ۔ بقیہ تمام کو نہ تو کتابوں سے کچھ لینا دینا ہے نہ ہی اُن میں موجود اُس علم سے جو اسلوب ِ زندگی کو معیار عطا کرنے اور فلسفہ ٔ حیات کو سمجھ کر سمجھانے کیلئے ازحد ضروری ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اِس دور کو کتابوں  سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ بہت کم لوگ ہوں  گے جن کا ذاتی کتب خانہ ہے اور جو کتابوں  کے معاملے میں  باذوق ہیں ۔ بقیہ تمام کو نہ تو کتابوں  سے کچھ لینا دینا ہے نہ ہی اُن میں  موجود اُس علم سے جو اسلوب ِ زندگی کو معیار عطا کرنے اور فلسفہ ٔ حیات کو سمجھ کر سمجھانے کیلئے ازحد ضروری ہے۔
 جب مطالعہ کا ذوق ہی ناپید ہے تو کس بنیاد پر اُمید کی جائے کہ لوگوں  کے گھروں  میں  سیرت النبیؐ پر مبنی کتابیں  ہوں  گی، وہ خود بھی اُن سے استفادہ کرتے ہوں  گے اور اپنی نئی نسل کو تلقین بھی کرتے ہوں  گے کہ وہ اُن کا مطالعہ کریں  اور کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں ؟ سننے اور پڑھنے اور فرق ہوتا ہے۔ جو لوگ کتابیں  نہیں  پڑھتے، کہہ سکتے ہیں  کہ ہم علماء کے بیانات سنتے ہیں ۔ جب سے ویڈیو پر تقریریں  سننے کی سہولت عام ہوئی ہے، اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں  کہ وہی کافی ہے جبکہ ایسا نہیں  ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی کو سامنے رکھئے اور غور کیجئے کہ اکثر اوقات سنی ہوئی بات ذہن سے محو ہوجاتی ہے، کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ جو سنا تھا وہ ادھورا یاد رہا۔ اتنا ہی نہیں ، سنی ہوئی بات کو دوبارہ سننا آسان نہیں  کہ جہاں  سنا تھا پتہ نہیں  وہ ذریعہ (مثلاً ویڈیو) اب بھی وہاں  موجود ہے یا نہیں ۔ اس کے برخلاف لکھی ہوئی اور پڑھی ہوئی بات نہ صرف یہ کہ یاد رہتی ہے بلکہ اُسے دوبارہ بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اُس کا جتنا حصہ یاد نہیں  اُتنے حصےکو ازسرنو پڑھا جاسکتا ہے۔ کلام پاک میں  رب العالمین نے سودا کرنے کے باب میں  حکم دیا کہ جو طے کرلو اُسے لکھ لیا کرو۔ یہ نہیں  کہا کہ جو طے کیا وہ کہہ دیا کرو اور چار سننے والوں  کو جمع کرلیا کرو۔ فرمایا کہ لکھ لیا کرو۔ اس لئے کہ لکھا ہوا سند ہے جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور حسب ضرورت دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے اور بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔بہت سی تحریروں  میں  کتابوں  کے حوالے موجود ہوتے ہیں  چنانچہ لکھا ہوتا ہے کہ جو بات بیان کی گئی وہ فلاں  کتاب کے فلاں  صفحے پر موجود ہے جو فلاں  مطبع سے فلاں  سن میں  شائع ہوئی تھی اور اُس کے مصنف فلاں  ہیں ۔آج کے دور کا ناظر و سامع کیا ایسا کوئی حوالہ دے سکتا ہے کہ فلاں  ویڈیو میں  سنا تھا؟ تب سوال آئے گا کہ کون سا ویڈیو؟ وہ کہاں  محفوظ ہے؟ اُس میں  کہاں  وہ بات کہی گئی جو اَب بیان کی جارہی ہے؟ ہم پڑھنے اور سننے کے باب میں  بہت سی باتیں  لکھ سکتے ہیں  مگر اشارتاً جو عرض کیا ہے اُسے کافی سمجھتے ہوئے اس حوالے سے کہنا یہ ہے کہ گھروں  میں  جس طرح کلام پاک کا نسخہ ہوتا ہے اُسی طرح سیرت اور احادیث کی کتابیں  بھی لازماً ہونی چاہئیں  اور اگر روزانہ نہیں  تو ہفتے میں  ایک بار ان کتابوں  کے چند صفحات ضرور پڑھنے چاہئیں ۔ سیرت کا مطالعہ انہماک چاہتا ہے۔ انہماک سے مطالعہ کیا جائے تو پڑھی ہوئی باتیں  یاد رہتی ہیں  اور اعادہ کے ذریعہ اُنہیں  پختہ کیا جاسکتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: جسٹس چندر چڈ ایسے نہیں ہوسکتے! (۲)

 سیرت کی کتابوں  کا مطالعہ کیوں  ضروری ہے؟ اس لئے کہ کلام پاک میں  جو احکامات آئے ہیں ، حضور پاکؐ نے اُن پر عمل کرکے دکھایا، اس طرح اپنے ایک ایک عمل سے قیامت تک کے انسانوں  کی رہنمائی فرمائی کہ زندگی ایسے گزرنی چاہئے۔ کتب ِ سیرت کے بار بار مطالعہ سے زندگی گزارنے کا سلیقہ ہی میسر نہیں  آتا حضورؐ کا طرزِ فکر، طرز عمل، تدبر، حکمت عملی، گویا ہر بات سمجھنے میں  مدد ملتی ہے۔ کاش ہم عہد کریں  کہ اس ۱۲؍ ربیع الاول کو سیرت کی کوئی ایک کتاب ضرور لے آئینگے۔ 

urdu books Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK