• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جسٹس چندر چڈ ایسے نہیں ہوسکتے! (۲)

Updated: September 14, 2024, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اس واقعہ کو تین دن گزر جانے کے باوجود کہیں سے یہ سراغ نہیں مل رہا ہے کہ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کو مدعو کیا تھا یا وزیر اعظم نے چیف جسٹس پر ایک خاص موقع کی مناسبت سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اس واقعہ کو تین دن گزر جانے کے باوجود کہیں  سے یہ سراغ نہیں  مل رہا ہے کہ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کو مدعو کیا تھا یا وزیر اعظم نے چیف جسٹس پر ایک خاص موقع کی مناسبت سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ جو بھی ہو، لوگ اپنے اپنے طور پر قیاس آرائی کررہے ہیں  مگر ہمارا خیال ہے کہ یہ بات کبھی منظر عام پر نہیں  آسکے گی کہ کس نے کس کو بلایا۔ ویسے یہ جاننا اتنا ضروری بھی نہیں  ہے کیونکہ اس کی وجہ سے جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوچکا ہے۔ پہلی بار ایسی نظیر قائم ہوئی ہے کہ اس سے  بے شمار خدشات لاحق ہوگئے ہیں ۔ چونکہ چیف جسٹس آف انڈیا ملک کے عدلیہ کے سربراہِ اعلیٰ ہیں  اسلئے اُن کا عمل سپریم کورٹ کے ساتھی ججوں  اور نچلی عدالتوں  سے وابستہ ججوں  کیلئے ترغیب کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا کچھ عجب نہیں  کہ جن جج حضرات کے سیاستدانوں  سے تعلقات ہونگے وہ اُن کے منظر عام پر آنے سے فکرمند نہیں  ہونگے۔ یہ واقعہ اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ حالیہ برسوں  میں  کافی کچھ بدلا ہے۔ ۲۸؍ سابق ججوں  کا وی ایچ پی کی تقریب میں  شریک ہونا اس سلسلے کا تازہ واقعہ ہے جس سے بدلتے رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔ 
 سوشل میڈیا پر جہاں  بہت سے لوگوں  نے اس واقعہ کو ناپسند کیا وہیں  کئی افراد نے اس کا بھونڈا جواز پیش کیا کہ سابقہ حکومتوں  کے دور میں  افطار پارٹی میں  جج حضرات شریک ہوئے ہیں ۔ افطار پارٹی میں  شرکت کا ’’گھر پر ملاقات‘‘ سے موازنہ نہیں  کیا جاسکتا۔ اول الذکر ایسی تقریب ہوتی ہے جس میں  حکمراں  جماعت ہی نہیں  اپوزیشن کے لوگ بھی مدعو کئے جاتے ہیں ، پارٹی کارکنان اور لیڈران کے علاوہ بہت سی اہم شخصیات موجود ہوتی ہیں ۔ یہ ایک طرح کا سماجی جلسہ ہوتا ہے جبکہ زیر بحث معاملہ بالکل ذاتی نوعیت کا ہے۔ افطار پارٹی کسی ہال میں  ہوتی ہے، یہاں  چیف جسٹس کا دولت کدہ تھا۔ بہرکیف، یہ واقعہ ایسا نہیں  کہ بھلا دیا جائے مگر اسے یاد رکھنے سےبہتر ہوگا کہ عدلیہ میں  اپنے اعتبار کو برقرار رکھا جائے، اُس کی حفاظت کی جائے اور یہ بھروسہ رکھا جائے کہ وزیر اعظم سے گھر پر ملاقات کے باوجود چیف جسٹس اپنی سبکدوشی تک جن مقدمات کی سماعت کرینگے اُن میں  وہی فیصلہ سنائینگے جو قانون کی رو سے سنایا جانا چاہئے۔ بالفاظ دیگر، وہ اپنے فیصلوں  میں  کسی روُ رعایت سے کام نہیں  لیں  گے۔ ہماری رائے ہے کہ اس ملاقات سے نہ تو مقدمات پر اثر پڑے گا نہ ہی چیف جسٹس اس مزاج کے ہیں  کہ ریٹائرمنٹ بینفٹ کی فکر کریں  یا سبکدوشی کے بعد بڑا عہدہ حاصل کرنے سے دلچسپی رکھیں ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ اوربیدار ذہن شخصیت ہیں  جن کے والد بھی اُسی منصب اعلیٰ پر فائز رہ چکے ہیں  چنانچہ ڈی وائی چندر چڈ اپنی وراثت کی عظمت کو برقرار رکھنے کے فرض سے غافل نہیں  ہوسکتے۔ اُن کیلئے سبکدوشی کے بعد کا کوئی بھی عہدہ اتنا عظیم نہیں  ہوسکتا جتنی کہ یہ وراثت ہے۔
 

یہ بھی پڑھئےجسٹس چندر چڈ ایسے نہیں ہوسکتے

جسٹس موصوف کے والد سابق جسٹس وائی وی چندرچڈ ملک کے ۱۶؍ ویں  چیف جسٹس تھے جنہوں  نے ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۵ء تک سات سال اس منصب اعلیٰ کو رونق بخشی۔ اپنے دور میں  اُنہوں  نے حکمراں  جماعت کے دباؤ کو کبھی قبول نہیں  کیا ۔ وہ اپنے نظریات کے پکے تھے، عدلیہ کی حفاظت کو فرض اولیں  سمجھتے تھے۔ سنا ہے کہ ایک آدھ بار تو اُن کے مواخذہ کی بھی باتیں  ہونے لگی تھیں  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK