ہمارے معاشرہ میں لڑکیاں کریئر نہیں بناتیں، نہیں بناسکتیں یا نہیں بنا پاتی ہیں اور لڑکےچونکہ تعلیم ہی میں محدود دلچسپی لیتے ہیں اس لئے بہت کم ہوتے ہیں جو کریئر کے موڑ تک پہنچتے ہیں اور باقاعدہ کریئر بناتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 29, 2024, 2:57 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہمارے معاشرہ میں لڑکیاں کریئر نہیں بناتیں، نہیں بناسکتیں یا نہیں بنا پاتی ہیں اور لڑکےچونکہ تعلیم ہی میں محدود دلچسپی لیتے ہیں اس لئے بہت کم ہوتے ہیں جو کریئر کے موڑ تک پہنچتے ہیں اور باقاعدہ کریئر بناتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں لڑکیاں کریئر نہیں بناتیں ، نہیں بنا سکتیں یا نہیں بنا پاتی ہیں اور لڑکے چونکہ تعلیم ہی میں محدود دلچسپی لیتے ہیں اس لئے بہت کم ہوتے ہیں جو کریئر کے موڑ تک پہنچتے ہیں اور باقاعدہ کریئر بناتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اعلیٰ یا درمیانی درجہ کے عہدوں پر، خواہ وہ سرکاری محکموں کے عہدے ہوں یا نجی اداروں کے، ملم یا تو دکھائی نہیں دیتے یا ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ آبادی کے تناسب کا تقاضا ہے کہ کسی بھی دفتر کے ملازمین میں ۲۰؍ فیصد مسلمان ہوں ۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ملک میں کوئی ایسا دفتر ہوگا جس میں مسلم ملازمین کی تعداد وطن عزیز میں مسلمانوں کی آبادی کے متناسب ہو۔ بااثر بننے کیلئے اس صورت ِ حال میں غیر معمولی تبدیلی ضروری ہے۔ خوشگوار تبدیلی یہ ہوگی کہ مسلم نوجوان اعلیٰ مناصب پر فائز ہوں مگر یہ ہوگا کیسے جب پڑھائی لکھائی میں سنجیدہ اور محنتی ہونے نیزاعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود لڑکیاں کریئر بنانے کی دوڑ میں شامل ہی نہ ہوتی ہوں اور لڑکے اس فکر سے بالکل آزاد ہوں ؟
یہ بھی پڑھئے: موٹر گاڑیاں اور سڑک حادثات
یہ تبھی ہوگا جب کریئر بنانے کے معاملہ میں لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور لڑکوں کو کریئر بنانے کی اہمیت اور افادیت کے نقطۂ نظر سے بیدار کرتے ہوئے اُن میں ذمہ داری کا احساس پیدا کیا جائے۔ چھوٹاموٹاریستوراں کھول لینے، دکان سنبھال لینے، خود روزگار (سیلف اِمپلائمنٹ) اپنا لینے یا ایسا ہی کوئی دوسرا تجارتی شغل اختیار کر لینے سے، جس سے آپ طاقت حاصل کرتے ہوئے نظر نہ آتے ہوں ، مسلمانوں کی بے اثری کم نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ وہ بااثری میں تبدیل ہو۔ بااثر ہونے کیلئے صرف کریئر بنانا ہی کافی نہیں ، ہر محاذ پر خود کو ثابت بھی کرنا ہوگا مگر فی الحال ہمارا موضوع کریئر سازی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اکثر اوقات سیاست کے پیدا کردہ مسائل میں اُلجھ کر اپنی ساری توانائی وہیں صرف کرنے لگتے ہیں اور بہت سے دوسرے کام جو اُتنے ہی اہم ہیں ، بالائے طاق رہ جاتے ہیں جبکہ تعلیم، روزگار، صحت ، معیارِ زندگی، ربط ِ باہمی اور ملک کے دیگر فرقوں سے برادرانہ تعلق میں پہل اور اس میں مضبوطی ایسے ضروری کام ہیں جنہیں ایک دن کیلئے بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا خواہ سیاست کا پیدا کردہ کوئی مسئلہ کتنا ہی پریشان کن کیوں نہ ہو۔ کریئر کے انتخاب میں بھی نوجوانوں کو ایسے متبادلات کی طرف راغب کرنا ضروری ہے جن کے ذریعہ وہ صرف ملازمت نہ کریں بلکہ اُنہیں خدمت کے مواقع بھی حاصل ہوں تاکہ روزانہ کی بنیاد پر عوام سے رابطہ او راپنے حسن عمل سے اُنہیں متاثر کرنا ممکن ہو۔ اس کیلئے نوجوانوں کو نئے دور کے اُن علوم سے بہرہ مند ہونے کیلئے آمادہ کرنا چاہئے جن کا طوطی بول رہا ہے مثلاً اے آئی یا ڈیٹا سے متعلق اُمور یا سائنسی تحقیق تاکہ بڑے اداروں کے بڑے مناصب پر اُن کی تقرری عمل میں آئے اور دُنیا اُن کی پیش رفتوں کے بارے میں جانے کہ کس طرح وہ نازش ملک و ملت بنے ہوئے ہیں ۔ یہ سب ممکن ہے اگر قوم تین نکات پر سرگرم ہو: (۱) لڑکیاں جو پڑھ رہی ہیں ، کریئر سازی کیلئے اُن کی حوصلہ افزائی ہو خواہ وہ والدین کے پاس ہوں یا شادی کے بعد اپنے سسرال میں (۲) لڑکے جو پڑھ نہیں رہے ہیں اُنہیں پڑھنے پر آمادہ کیا جائے اور (۳) لڑکے اور لڑکیاں دونوں ،ایسے ہدف سامنے رکھیں جن سےاُن کی پزیرائی ہو اور یہ پزیرائی ملت کا سرمایۂ افتخار بنے۔