موجودہ دور کی زندگی کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جتنی آسان ہوگئی ہے اتنی ہی مشکل بھی ہے اور جتنی آرام دہ ہے اتنی ہی تکلیف دہ بھی۔ نئی ایجادات کا سوچا سمجھا اور سنبھلا ہوا استعمال نئی ایجادات کو فائدہ مند بناتا ہے اور بے طرح استعمال انہیں مضر اور مہلک بناتا ہے۔
موجودہ دور کی زندگی کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جتنی آسان ہوگئی ہے اتنی ہی مشکل بھی ہے اور جتنی آرام دہ ہے اتنی ہی تکلیف دہ بھی۔ نئی ایجادات کا سوچا سمجھا اور سنبھلا ہوا استعمال نئی ایجادات کو فائدہ مند بناتا ہے اور بے طرح استعمال انہیں مضر اور مہلک بناتا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نئی ایجادات کا پرجوش استقبال کرتے ہیں ، اس پر جتنا خرچ آئے قرض لے کر بھی اپنا ’’شوق‘‘ پورا کرتے ہیں مگر اشیاء کا احتیاط کے ساتھ استعمال ہم نے نہیں سیکھا۔ سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ ترقی یافتہ ممالک پہلے ماحول بناتے ہیں ، لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں ، مفید کو مضر نہ بنایا جاسکے اس کی پیش بندی کرتے ہیں مگر ہم اتنے اتاؤلے ہو جاتے ہیں کہ استعمال پہلے شروع کرتے ہیں اور آداب استعمال کی فکر بعد میں بھی نہیں کرتے۔ کیا عوام اور کیا اہل اقتدار، انہیں رکنا نہیں آتا انہیں چلنا نہیں آتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال موٹر گاڑیوں کی ہے۔ سڑکیں دو کوڑی کی اور گاڑیاں کروڑوں کی۔ جیب اور بینک کھاتہ خالی ہو تب بھی گاڑی خریدی جا سکتی ہے۔ قسطیں اور فراٹے بھرتے رہئے۔
یہ بھی پڑھئے:ہڈا اور شیلجا : کتنی حقیقت کتنا افسانہ؟
آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ سڑک حادثات میں ہندوستان نمبر ون ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا جب کہیں نہ کہیں سے چھوٹے بڑے کسی حادثے کی خبر نہ ملتی ہو۔ ایک اندازے کے مطابق ان حادثات میں سالانہ ڈھائی لاکھ لوگ جان گنوا بیٹھتے ہیں ۔ سڑک حادثات میں اتنی ہلاکتیں کسی بھی ملک میں نہیں ہوتیں ۔ آبادی کے اعتبار سے دیگر ملکوں کا فیصد یا اوسط کم زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ اعدادوشمار مختلف رپورٹوں میں مختلف ہوتے ہیں مگر یہ طے ہے اور ہم خود اس کے شاہد ہیں کہ ہمارے یہاں لاپروائی، تیز رفتاری، اصولوں کی خلاف ورزی، سڑکوں کی بدحالی اور گاڑیوں کی بہتات نے ڈھیر سارے مسائل پیدا کردیئے ہیں ۔ ان میں اوور اسپیڈنگ ایسا رجحان ہے کہ اس پر قابو پانے میں ٹریفک کے اہلکار ناکام ہیں ۔ اس کیلئے ہندوستان میں بننے والی اور درآمد ہونے والی موٹر گاڑیوں ہی میں اسپیڈ لمٹ طے ہو تو تیز رفتاری کے جوش کو ماند کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو گاڑی چلانے والوں کی تربیت اور ذہن سازی کی فکر کرنی چاہئے جس کا موثر نظم اتنے حادثات کے باوجود دکھائی نہیں دیتا۔ یہ فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ قانون کا خوف دلانے سے زیادہ ضروری قانون کی پاسداری کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ ہم یہ جذبہ پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے قانون کو سخت سے سخت تر کرتے رہتے ہیں ۔ خلاف ورزی کی جرأت جب تک رہے گی قانون کو بالادستی حاصل نہیں ہوسکتی۔ قانون پر چلنے کے معاملے میں ہندوستانی گاڑی بان نہایت پھسڈی واقع ہوئے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جان بوجھ کر قانون توڑنے اور ٹریفک اہلکار کو جل دینے میں بہادری محسوس کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ سی سی ٹی وی اور اسپیشل کیمروں سے صرف اتنا فرق پڑتا ہے کہ گاڑی چلانے والا کیمرے کے ’’احترام‘‘ میں تھوڑی دور اور تھوڑی دیر کیلئے رفتار کم کرلیتا ہے۔