ٹرمپ کی باقاعدہ تاجپوشی ۲۰؍ جنوری کو ہوگی مگر نو منتخب صدر کا جیسا ہاؤ بھاؤ ہے اُس سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کا آغاز اُسی وقت کرلیا جب اُنہوں نے فتح کیلئے درکار ۲۷۰؍ الیکٹورل کالج ووٹ کا عدد پار کرلیا تھا۔
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 1:37 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ٹرمپ کی باقاعدہ تاجپوشی ۲۰؍ جنوری کو ہوگی مگر نو منتخب صدر کا جیسا ہاؤ بھاؤ ہے اُس سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کا آغاز اُسی وقت کرلیا جب اُنہوں نے فتح کیلئے درکار ۲۷۰؍ الیکٹورل کالج ووٹ کا عدد پار کرلیا تھا۔
ٹرمپ کی باقاعدہ تاجپوشی ۲۰؍ جنوری کو ہوگی مگر نو منتخب صدر کا جیسا ہاؤ بھاؤ ہے اُس سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی صدارت کا آغاز اُسی وقت کرلیا جب اُنہوں نے فتح کیلئے درکار ۲۷۰؍ الیکٹورل کالج ووٹ کا عدد پار کرلیا تھا۔ ٹرمپ کیلئے یہ کامیابی اس لئے بھی بڑی ہے کہ اُنہوں نے اپنی مدمقابل کملا ہیرس کو کافی پیچھے چھوڑا ہے۔ اس اعتبار سے وہ ماہرین اور مبصرین بھی غلط ثابت ہوئے جو دونوں اُمیدواروں کے بیچ کانٹے کی ٹکر بتا رہے تھے۔ ٹرمپ نے ۲۹۵؍ الیکٹورل ووٹ حاصل کئے جبکہ نائب صدر، ہندوستانی نژاد کملا ہیرس نے ۲۲۶۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان اتنا بڑا فرق ہوگا۔
امریکہ کے اولین صدر جارج واشنگٹن نے ۳۰؍ اپریل ۱۷۸۹ء کو اپنے عہدہ کا حلف لیا تھا۔ تب سے لے کر ۲۰۰۹ء میں بارک اوبامہ کے صدر بننے تک امریکہ کو دو صدیوں (۲۲۰؍ سال) کا طویل عرصہ درکار ہوا تب کہیں جاکر اس عہدۂ جلیلہ پر سفید فاموں کی اجارہ داری ختم ہوئی اور پہلا سیاہ فام (افریقی امریکی) صدر حلف لے سکا۔ اگر نسلی امتیاز کی کڑی ۲۲۰؍ سال بعد پہلی مرتبہ ٹوٹی تھی تو صنفی امتیاز کی کڑی ۲۳۵؍ سال بعد بھی نہیں ٹوٹی ہے۔ اہل امریکہ نے کملا ہیرس کا انتخاب کیا ہوتا تو بات دوسری ہوتی۔ دُنیا بھر کی خواتین کیلئے یہ مژدۂ جانفزا ہوتا۔ دُنیا بھر میں حقوق نسواں کے علمبرداروں کیلئے خوشی کا موقع ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ کملا ہیرس ہار گئیں ۔ کسی کو علم نہیں کہ کوئی خاتون اب کب امریکی صدر بن پائے گی۔
یہ بھی پڑھئے :ہیرس کا ہارنا افسوسناک
مسئلہ یہی ہے۔ طویل عرصے سے خواتین کو بااختیار بنانے اور اُنہیں مواقع دینے کی باتیں تو کی جاتی ہیں مگر موقع دینے کا موقع آتا ہے تو لوگ موقع سے کھسک جاتے ہیں ۔ مغرب میں بہت کم خواتین ہیں جنہیں اپنے ملک کی قیادت اور سربراہی نصیب ہوئی ہے۔ مغربی ملکوں سے بہتر برصغیر کے ممالک ہیں ۔ اِس خطۂ ارض کے ملکوں نے خواتین کی سربراہی قبول ہی نہیں کی، بار بار موقع بھی دیا مثال کے طور پر پہلے سیلون ( جو بعد میں سری لنکا کہلایا) میں بندرا نائیکے تین بار وزیر اعظم منتخب کی گئیں (وہ وزیر اعظم منتخب ہونے والی دُنیا کی اولین خاتون بھی تھیں )، اُن کے بعد سری لنکا ہی کی چندریکا کمارا تنگا کو یہ موقع ملا، ہندوستان میں اندرا گاندھی کو دو مرتبہ وزیر اعظم اور پرتبھا تائی پاٹل کو صدر جمہوریہ بننے کا موقع ملا، پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ وزیر ا عظم بنیں ۔
خواتین پر کتنا بھروسہ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۵؍ ملکوں کی فہرست میں صرف ۷۰؍ (۳۶؍ فیصد) ایسے ہیں جہاں خواتین سربراہ ہوئی ہیں ۔ امریکہ، روس اور چین اپنی طویل تاریخ کے باوجود کسی خاتون کو سربراہ ِ مملکت منتخب نہیں کرسکے۔ امریکی کانگریس کیلئے اب تک ۱۲؍ ہزار ۳۴۸؍ اراکین منتخب ہوئے، جن میں صرف ۳۵۹؍ نام خواتین کے ہیں ۔ یہاں نائب صدر کے عہدے تک پہنچنا تو ممکن ہوا ہے (کملا ہیرس اولین نائب صدر ہیں ) مگر صدر بننے کا اعزاز نہیں ملا ہے جبکہ امریکہ کی ۳۴؍ کروڑ کی مجموعی آبادی میں خواتین ۱۶ء۸۶؍ کروڑ ہیں ۔ صدر بننا تو دور کی بات، امریکہ کی کسی خاتون کو وہاں کے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے کا بھی موقع نہیں ملا ہے۔
ہندوستان میں ستمبر ۲۰۲۷ء میں یہ اعزاز جسٹس ناگ رتنا کو مل سکتا ہے۔