امریکی صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس کا ہارنا افسوسناک ہے جن کی فتح امریکی خواتین کیلئے مژدۂ جانفزا ہوسکتی تھی او راس کے نتیجہ میں امریکہ کو اولین خاتون صدر مل سکتی تھی۔
EPAPER
Updated: November 07, 2024, 12:56 PM IST | Washington
امریکی صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس کا ہارنا افسوسناک ہے جن کی فتح امریکی خواتین کیلئے مژدۂ جانفزا ہوسکتی تھی او راس کے نتیجہ میں امریکہ کو اولین خاتون صدر مل سکتی تھی۔
امریکی صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس کا ہارنا افسوسناک ہے جن کی فتح امریکی خواتین کیلئے مژدۂ جانفزا ہوسکتی تھی او راس کے نتیجہ میں امریکہ کو اولین خاتون صدر مل سکتی تھی۔ اس کے برخلاف ایک ایسے لیڈر کو، وہ بھی اکثریت کے ساتھ، منتخب کرلیا گیا جس نے ۲۰۲۰ء کے انتخابی نتائج کو خاموشی سے یا پُروقار طریقے سے قبول نہیں کیا تھا۔ سب کو یاد ہے کہ جب نتائج جو بائیڈن کے حق میں آئے تھے، تب ٹرمپ کے حامی امریکی پارلیمنٹ ہاؤس پر چڑھ دوڑے تھے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ آخر الذکر تحویل اقتدار کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ بعد میں بھی اُنہوں نے انتخابی عمل پر یہ کہتے ہوئے سوالیہ نشان لگایا کہ نتائج کو متاثر کیا گیا ہے۔
جمہوریت میں ہار جانے والے کو ہار مان لینی پڑتی ہے اور پُروقار طریقے سے اقتدار سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ ٹرمپ کی لغت میں ہار یا پُروقار طریقہ یا شائستگی یا متانت جیسے الفاظ ہیں ہی نہیں۔ اپنی انتخابی مہمات کے دوران بھی انہوں نے کئی قابل اعتراض بیانات دیئے جن میں مدمقابل کملا ہیرس کے خلاف ذاتی حملے بھی شامل تھے۔ مثلاً اُنہوں نے کملا ہیرس کی بابت کہا کہ وہ نامعقول (کریزی) اور ذہنی طور پر معذور (میٹلی ڈِس ایبلڈ) ہیں جو عالمی لیڈروں کے ہاتھوں کا کھلونا (پلے ٹوائے) بن سکتی ہیں۔ اپنے سیاسی و انتخابی حریف کیلئے ایسے الفاظ کا استعمال امریکی صدارتی انتخابات کے شایان شان نہیں تھا مگر نہ تو اُنہوں نے اسے غلطی جانا نہ ہی اُن کے حامیوں نے اس کا بُرا مانا۔ اب جو نتائج ظاہر ہوئے ہیں تو لگتا ہے کہ امریکی عوام نے بھی ان قابل اعتراض الفاظ کی گرفت ضروری نہیں سمجھی۔
یہ بھی پڑھئے: مدارس کے دفاع کا اہم عدالتی فیصلہ
کملا ہیرس ہرگز نہ ہارتیں اگر امریکی عوام اُن کے نام پر مہر لگا کر پہلی خاتون کو امریکی صدارت کا اعزاز بخشتے۔ کملا ہیرس کی انتخابی مہم بہت طاقتور نہیں تھی، پھر تاخیر سے اُمیدواری ملنا بھی اُن کیلئے زحمت بنا مگر پورے انتخابی ماحول پر ٹرمپ نے جس طرح خود کو حاوی کرلیا تھا، کملا ہیرس ویسا نہیں کرپائیں۔ٹرمپ نے ضرورت سے زیادہ خود اعتماد شخصیت کے طور پر رائے دہندگان کو متاثر کیا، کملا ہیرس نائب صدر رہنے کے باوجود ایسا نقش قائم کرنے میں ناکام رہیں۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اُنہیں عربی النسل رائے دہندگان نے بھی ووٹ نہیں دیا کیونکہ غزہ جنگ کے بارے میں اُن کے نظریات واضح نہیں تھے۔ اُنہیں اسرائیل نواز لوگوں نے بھی ووٹ نہیں دیا کیونکہ اُنہیں اسرائیل کی ہر طرح مدد کرنے والا نہیں سمجھا گیا۔ اس کی بہت بڑی وجہ موجودہ صدر جو بائیڈن کی قطعی غیر واضح مشرق وسطیٰ پالیسی تھی۔ وہ جنگ رُکوا سکتے تھے مگر روکنے سے اُنہیں دلچسپی نہیں تھی۔ بائیڈن کی ’’روس یوکرین ‘‘ پالیسی سے بھی عوام ناخوش تھے۔
ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ماحول بنایا اور امریکہ فرسٹ کے اپنے نعرہ کو نئی زندگی عطا کرکے غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرنے اور اس طرح قوم پرستانہ جذبات اُبھارنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ کملا ایسے کئی موضوعات پر دوٹوک نظریہ کا اظہار نہیں کرپائیں۔اُن کا اصرار اسقاط حمل سے متعلق موضوع پر تھا جو ووٹرس کیلئے قابل اعتناء نہیں تھا۔ وہ بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی سے خود کو الگ نہیں کرسکیں۔ اُن کی ہار صرف اُن کیلئے لمحہ ٔ فکریہ نہیں، اُن کی پارٹی کیلئے بھی ہے جس کا غیر جانبدار ریاستوں (سوئنگ اسٹیٹس) میں کچھ جادو نہیں چلا۔