تعلیم کے بنیادی فلسفے پر توجہ دینے اور اسے بنیادی فلسفے سے مربوط کرنے کی کوشش کرنے کا موقع ہی نہیں ہے۔ اب توجہ مصنوعی ذہانت پر ہے۔ لوگ باگ اس پر بغلیں بھی بجا رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے تعلیم کا منظرنامہ غیر معمولی طور پر تبدیل ہوجائیگا، اور، اس پر تنقید بھی کررہے ہیں کہ اس کے سبب کئی ایسے مسائل پیدا ہوجائینگے جس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔ انہیں حل کرنا تو دور کی بات ہے۔
تعلیم کے بنیادی فلسفے پر توجہ دینے اور اسے بنیادی فلسفے سے مربوط کرنے کی کوشش کرنے کا موقع ہی نہیں ہے۔ اب توجہ مصنوعی ذہانت پر ہے۔ لوگ باگ اس پر بغلیں بھی بجا رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے تعلیم کا منظرنامہ غیر معمولی طور پر تبدیل ہوجائیگا، اور، اس پر تنقید بھی کررہے ہیں کہ اس کے سبب کئی ایسے مسائل پیدا ہوجائینگے جس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔ انہیں حل کرنا تو دور کی بات ہے۔
یہ بڑا مسئلہ ہے۔ شاید ترقی یافتہ ملکوں نے مصنوعی ذہانت، جسے اے آئی بھی کہا جاتا ہے، سے پیدا ہونے والے بحران کو حل کرنے کا منصوبہ بنالیا ہو۔ہم اُن سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ فراخدل ہونے کا مظاہرہ کریں اور اپنے منصوبے کے خدو خال ہم پر بھی واضح کریں ۔ ہم اُن سے معاہدے کرینگے مگر کب؟ جب اے آئی کے بحران سے جوجھنے لگیں گے۔ کسی بھی مسئلہ کو پہلے سے بھانپنے اور حفظ ماتقدم کے طور پر چند اقدام کے بارے میں سوچ کر رکھنا ہمارے طریقہ ٔ عمل کا حصہ نہیں ہے۔ ہم تب جاگتے ہیں جب دُنیا اپنے معمولات سے نمٹ لیتی ہے۔
اے آئی اگر بہت فائدہ مند ثابت ہوئی، جیسا کہ بہتوں کا خیال ہے، تو اس کا خیرمقدم کیا جائیگا۔ مگر، ایسا نہیں ہوا تو اس کے مضر اثرات سے تبھی نمٹا جاسکتا ہے جب ہم تعلیم کے بنیادی مقصد اور اساسی فلسفے کو ذہن نشین رکھتے ہوئے نظام تعلیم کو اُسی قالب میں ڈھالیں جس قالب میں اسے ہونا چاہئے۔ کوئی پرندہ پرواز میں کتنا ہی ماہر ہو، زمین پر لوَٹ کرآنے کی طاقت سنبھال کر رکھتا ہے تاکہ واپسی میں اسے دشواری نہ ہو۔ اگر اُس میں وہ طاقت نہیں ہے تو اس کی پرواز کسی کام کی نہیں ۔ یہی تعلیم کا حال ہے۔ ہماری پرواز چاہے جتنی اونچی ہو، چاہے جتنی جدید ہو، چاہے جتنی ہائی ٹیک ہو، بنیاد سے کٹ گئی تو اس کا بے فائدہ اور رائیگاں ہونا بالکل طے ہے۔ تعلیم نہ تو نوکریوں کیلئے ہے نہ ہی ڈگریوں کیلئے۔ تعلیم ذہن و دل کی نشوونما کیلئے ہے۔ انسانی سوجھ بوجھ میں اضافہ کیلئے ہے۔ حیات ِ انسانی کو کارآمد اور کارگر بنانے کیلئے ہے۔ اگر سب کچھ مشینوں کے حوالے کردیا گیا اور اساتذہ رہے نہ کلاس روم اور ہر طرف اے آئی ہی کا غلبہ رہا تو طالب علم کی ضرورت ہی کہاں رہ جائیگی، اے آئی تو اپنے مطلب کے طالب علم بھی پیدا کرلے گی اور اساتذہ بھی۔ ورچوئل اسکول بھی تعمیر کرلے گی اور نصاب بھی مرتب کرلے گی۔ امتحانات بھی لے لے گی۔ مصنوعی ذہانت کو فطری ذہانت کا دوست بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ اس بات کی کہ اُسے اِس قدر شہ ملے کہ فطری ذہانت کی دشمن بن جائے۔
یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹرکا مہا چناؤ
اسی لئے تعلیم گاہوں کو اس موضوع پر پہلے سے کہیں زیادہ گفتگو اور تبادلۂ خیال کی ضرورت ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’اے آئی کی مکمل اور حتمی شکل جو ہوگی وہ نسل ِانسانی کے خاتمے کا بگل بجا سکتی ہے۔‘‘ یہ بہت آگے کی منزل ہے۔ ہم اس سے پہلے کی منزل کی بات کررہے ہیں کہ اگر اے آئی کا بہت زیادہ عمل دخل شعبۂ تعلیم میں ہوا تو تعلیم کے خاتمے کا بگل بج جائیگا۔اس موضوع پر ماہرین میں تذبذب کی کیفیت ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اے آئی کس طرح اثر انداز ہوگی۔ چونکہ یہی علم نہیں ہے کہ کس طرح کے مسائل پیدا ہوں گے اس لئے حل کی بابت سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کررہا ہے۔ مگر مصیبت آجائیگی تب سوچ کر کیاکرلیا جائیگا؟ اس کی فکر پہلے سے ہونی چاہئے۔