• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بی جے پی اور جموں

Updated: September 03, 2024, 1:56 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اگر آرٹیکل ۳۷۰؍ کابے اثر کیا جانا اور جموں کشمیر کا مرکزی علاقہ قرار دیا جانا بہت اچھا کام تھا، جس کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کئی بارخود ہی اپنی پیٹھ ٹھونکی، تو جموں کشمیر میں الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی کی کامیابی کا امکان چہار سو‘ روشن ہونا چاہئے تھا۔ کیا ایسا ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اگر آرٹیکل ۳۷۰؍ کابے اثر کیا جانا اور جموں  کشمیر کا مرکزی علاقہ قرار دیا جانا بہت اچھا کام تھا، جس کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کئی بارخود ہی اپنی پیٹھ ٹھونکی، تو جموں  کشمیر میں  الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی کی کامیابی کا امکان چہار سو‘  روشن ہونا چاہئے تھا۔ کیا ایسا ہے؟ پارٹی خود بھی جانتی ہے کہ مذکورہ دو اقدامات کے پس پشت اُس کا حقیقی مقصد کیا تھا اور اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اُس کا حقیقی سبب کیا ہے۔ اس سے قبل لوک سبھا الیکشن میں  بی جے پی نے کشمیر سے کسی کو ٹکٹ نہیں  دیا۔ تاریخی کارنامہ انجام دینے کے بعد اُسے الیکشن میں  بھنانے کی کوشش تک نہ کرنے کے دو ہی اسباب سمجھ میں  آتے ہیں ۔ اول: جس چیز کو بی جے پی نے کارنامہ باور کرایا، وہ کارنامہ نہیں  ہے۔ دوئم: اُسے عوام کی ناراضگی کا احساس ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ہجومی تشدد+بلڈوزر کارروائی = کیا؟

 اس احساس پر عوام کی جانب سے وقتاً فوقتاً مہر بھی لگتی رہی ہے۔ مگر یہ سب نسبتاً پرانی باتیں  ہوگئی ہیں ۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ جموں  میں  بی جے پی کو اپنی ہی پارٹی کارکنان کی ناراضگی کا سامنا ہے۔ پارٹی نے ۲۶؍ اگست سے ٹکٹوں  کی تقسیم شروع کی اور موصولہ خبریں  شاہد ہیں  کہ پہلے ہی دن سے کارکنان میں  ناراضگی ہے۔ ڈیکن ہیرالڈ کی ایک خبر کے مطابق جموں  کے مضافاتی علاقو ں اور دیگر کئی ضلعوں  میں  پارٹی لیڈر اور کارکنان برہم دکھائی دیئے۔ انہوں  نے احتجاج بھی کیا۔
  یاد رہنا چاہئے کہ ان کا یہ احتجاج اپنی ہی پارٹی کے خلاف ہے۔ اس کا نوٹس لیتے ہوئے ہائی کمان نے مرکزی وزراء سمیت اہم لیڈروں  کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ ناراضگی سے ہونے والے نقصان کی تلافی کریں ، لوگوں  کو سمجھائیں ۔ رام بان اور پادر ناگ سینی حلقوں  سے اس کے دو لیڈروں  نے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ دو حلقے اُن ۲۴؍ حلقوں  میں  شامل ہیں  جہاں  پہلے مرحلے کی پولنگ (۱۸؍ ستمبر کو) ہونی ہے۔ سامبا ضلع کے صدر کشمیر سنگھ کا استعفےٰ بھی اس معاملے میں  بہت اہم ہے۔ استعفےٰ سے پہلے تک وہ بی جے پی سے ۴۲؍ سال سے وابستہ تھے۔ انہوں  نے پارٹی کی بنیادی رُکنیت سے علاحدگی اختیار کی اور ’’ذاتی وجوہات‘‘ کی بناء پر استعفے نہیں  دیا بلکہ ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دیئے جانے پر برہم ہوئے جو نیشنل کانفرنس سے آیا ہے۔ قارئین جانتے ہیں  کہ یہ پہلا موقع نہیں  ہے جب دیگر پارٹیوں  کے لوگوں  کو اپنی صف میں  شامل کرکے بی جے پی نے اُنہیں  نوازا۔ ٹکٹ دینے سے لے کر وزیر اور ریاستو ں میں  وزیراعلیٰ بنادینے تک کی کئی مثالیں  بآسانی پیش کی جاسکتی ہیں  مگر تب کی بات اور تھی، اب کی بات اور ہے۔ کل تک لوگ خاموش رہتے تھے۔ اب ناراضگی کا اظہار کرنے لگے ہیں ۔
  جیسا کہ عرض کیا گیا، جب ۳۷۰؍ کا بے اثر کیا جانا اور جموں  کشمیر کا مرکزی علاقہ بنادیا جانا ’’برہم استر‘‘ تھا تو یہ صورت حال کیوں  پیش آرہی ہے؟ اتنے  بڑے کارنامے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پارٹی کو ہر حلقے میں  اپنی جیت کا یقین ہوتا اور اسے دوسری پارٹیوں  کے آئے لوگوں  کو موقع دینے کی ضرورت نہ پیش آتی۔ اس صورت میں  پارٹی اپنے ہی کارکنان کو نوازتی مگر وہ پارٹی جو یوپی اور ایم پی جیسی بڑی ریاستوں  میں بڑی سے بڑی ناراضگی اور مخالفت کا ہنس کر مقابلہ کرتی آئی ہے، جموں  میں  خود کو اس طرح پھنسا ہوا پائیگی یہ اُس نے کبھی سوچا نہ ہوگا۔اس پر اگر وہ الیکشن ہار گئی تو کیا ہوگا یہ سوال اُسے پریشان کررہا ہوگا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK