ہجومی تشدد کی وارداتوں کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج کے وہ عناصر جو دہشت پھیلانے پر مامور ہیں یا مامور کئے گئے ہیں ، نچلا بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ توقع کرنا فضول ہے کہ انہیں عقل آجائیگی، قانون کا خوف انہیں اپنی سرگرمی سے باز آنے پر مجبور کردیگا یا مرکزی و ریاستی حکومتیں ایسے واقعات کو روکنے میں سختی سے کام لیں گی۔
ہجومی تشدد کی وارداتوں کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج کے وہ عناصر جو دہشت پھیلانے پر مامور ہیں یا مامور کئے گئے ہیں ، نچلا بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ یہ توقع کرنا فضول ہے کہ انہیں عقل آجائیگی، قانون کا خوف انہیں اپنی سرگرمی سے باز آنے پر مجبور کردیگا یا مرکزی و ریاستی حکومتیں ایسے واقعات کو روکنے میں سختی سے کام لیں گی۔ اب تک جتنے واقعات ہوئے ہیں اُن میں پولیس کا رول تو دکھائی نہیں دیتا کہ اُس نے تشدد کو برپا ہونے سے روک دیا مگر شرپسند عناصر کی سرگرمی حد سے متجاوز ضرور دکھائی دیتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ عناصر ایک خاص مشن پر ہیں اور اسے انجام دے کر رہتے ہیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ عناصر ملک کے تقریباً ہر گوشے میں ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایسی وارداتیں محض ایک علاقے یا ریاست میں نہیں ہوئی ہیں ،یہ کئی علاقوں اور ریاستوں میں ہوئی ہیں ۔ ۲۰۱۵ء میں دادری کے مقام پر ہجومی تشدد میں ۵۱؍ سالہ محمد اخلاق کے قتل کے بعد سے ایک طویل فہرست ہے ایک جیسی وارداتوں کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک علاقے یا ریاست کا مسئلہ نہیں ہے۔ اسے سوچے سمجھنے اورمنظم انداز میں برپا کیا جارہا ہے اور روکنے کی شاید خواہش ہی نہیں ہے۔
اس سلسلے میں اہل اقتدار کو مورد الزام ٹھہرانا مقصد نہیں مگر اُن کی خاموشی خود ہی کئی راز کھول دیتی ہے۔ یہ اگر پشت پناہی نہیں تو چشم پوشی ضرور ہے۔ دونوں کا ایک جیسا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ انہیں لازم و ملزوم بھی کہا جاسکتا ہے کہ جس کی پشت پناہی کی جارہی تھی اُسے بچانے کیلئے جرم سے چشم پوشی بھی کی جارہی ہے۔ مگر جان سے جانے والا تو جاچکا ہوتا ہے۔ اُس کے اہل خانہ جب تک جئیں گے اُس کی عدم موجودگی کے خلاء کو محسوس کرتے رہیں گے۔ اگر فوت ہونے والا شخص اپنے گھر کا اکیلا کمانے والا تھا تو پورا خاندان بے یار و مددگار ہو جاتا ہے۔ کس پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ بھی مشکل ہے۔ یہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ ستم یہ ہے کہ چند ایک وارداتوں پر اس نوع کا تشدد رُک نہیں گیا۔ ۲۰۱۵ء سے یہ سلسلہ کچھ اس طرح جاری ہے کہ رُکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: یوم اساتذہ کیسے منایا جائے
ہجومی تشدد کو تو روکا نہیں جاسکا، بلڈوزر کارروائی جاری کردی گئی۔ ہجومی تشدد کے معاملے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعات اُن عناصر کا کیادھرا ہوتے ہیں جن کے پاس کام نہیں ہے یا جو تشدد کی راہ پر گامزن ہوگئے یاکردیئے گئے۔ مگر بلڈوزر کارروائی تو ذمہ دار، بااختیار اور قانون کے محافظ افراد اور اداروں کی کارگزاری ہے جو دیدہ دلیری کے ساتھ جاری ہے۔ ہر کارروائی یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ جن ارباب اختیار نے اس کا حکم دیا ہے اُنہیں عدالتی نظام کا پاس لحاظ نہیں ہے۔ ملک کی تاریخ میں عدالت کے استحقاق کو اس طرح کبھی چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
ہجومی تشدد اور بلڈوزر کارروائی میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی واردات کم پڑھے لکھے اور بے روزگار افراد کاکیا دھرا ہوتا ہے جنہوں نے خود کو گئورکشک ڈکلیئر کررکھا ہے تو دوسری نوع کے واقعات اُن افراد اور اداروں کی کارگزاری ہے جن سے عوامی مفادات کے تحفظ کی اُمید کی جاتی ہے۔ جو بھی ہو، ہجومی تشدد جاری رہنے اور بلڈوزر کارروائی پر روک نہ لگنے کا نتیجہ ہے کہ سماج میں قانون کا خوف بھی متاثر ہے اور قانون کا احترام بھی۔ یہ ہمیں بڑے نقصان کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔n