Updated: August 24, 2024, 1:28 PM IST
| Mumbai
چھتر پور میں جو ہوا وہ اُن واقعات کی توسیع ہے جن میں کسی کو ملزم قرار دے کر اُس کا مکان منہدم کردیا جاتا ہے۔ ’’نئے بھارت‘‘ میں جاری ہونے والی یہ نئی سیاست اُترپردیش سے شروع ہوئی جس کے وزیر اعلیٰ کو بلڈوزر بابا کہا جانے لگا اور اس طریقۂ انصاف کی تشہیر کیلئے انتخابی جلسوں کے باہر بلڈوزر کھڑا کیا گیا۔
چھتر پور میں جو ہوا وہ اُن واقعات کی توسیع ہے جن میں کسی کو ملزم قرار دے کر اُس کا مکان منہدم کردیا جاتا ہے۔ ’’نئے بھارت‘‘ میں جاری ہونے والی یہ نئی سیاست اُترپردیش سے شروع ہوئی جس کے وزیر اعلیٰ کو بلڈوزر بابا کہا جانے لگا اور اس طریقۂ انصاف کی تشہیر کیلئے انتخابی جلسوں کے باہر بلڈوزر کھڑا کیا گیا۔ اس نئے طریقۂ انصاف میں حکام جج اور عدالت کو درمیان میں لائے بغیر اپنی مرضی سے الزام عائد کرتے ہیں ، اپنی ہی مرضی سے ملزم کو مجرم قرار دے کر فیصلہ سناتے اور یہ سزا تجویز کرتے ہیں کہ ملزم کے مکان پر بُل ڈوزر چلا دیا جائے۔
آناً فاناً بلڈوزر چل جاتا ہے اور ملزم بے یارومددگار اپنے مکان کو کسی نوٹس کے بغیر منہدم ہوتا ہوا دیکھتا ہے، کچھ کر نہیں پاتا۔ وہ اور اُس کے اہل خانہ چھت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ فرض کرلیا جائے کہ جس کے مکان پر بلڈوزر چلا وہی مجرم بھی تھا تب بھی سزا دینے کا اختیار حکومت کو نہیں عدالت کو ہوتا ہے۔ ایسے ہر معاملے میں حکومت کا جواز یہ ہوتا ہے کہ مکان غیر قانونی تھا جبکہ عدالتی طور طریقے سے کام کیا جائے تو غیر قانونی تعمیرات کو بھی پہلے نوٹس دیا جاتا ہے اس کے بعد کارروائی کی جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے شہر چھتر پور میں محض اس الزام کے تحت کہ بابا رام گیری مہاراج کی اشتعال انگیزی کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا، حکام نے کئی مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلا دیا۔ ان میں حاجی شہزاد کا مکان بھی تھا جو کانگریس کے ضلع نائب صدر رہے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے:بدلاپورکے بعد کچھ بدلے گا؟
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کون سا قانون اس قسم کے انہدام کی اجازت دیتا ہے۔ یہ کچھ اور نہیں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے اور مخالفین کو بلاوجہ سبق سکھانے کی کوشش ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عموماً مسلمانوں ہی کے مکانات پر کارروائی ہوتی ہے۔ اس کی شروعات اترپردیش سے ہوئی تھی پھر یہ وبا مدھیہ پردیش میں بھی پھیلی مگر یہیں تک بھی محدود نہیں رہی۔ بلڈوزر چلا کر سبق سکھانے کے واقعات ہریانہ، آسام، دہلی اور اتراکھنڈ میں بھی ہوچکے ہیں ۔انہدام کے جوش جنوں میں یہ بھی ہوا ہے کہ مدھیہ پردیش کے شہر کھرگون میں ایک ایسی بیوہ کا مکان منہدم کردیا گیا جسے متعلقہ مکان پردھان منتری آواس یوجنا میں ملا تھا۔
یہ سراسر زیادتی، حق تلفی اور قانون شکنی ہے جس کے خلاف ایمنیسٹی انٹرنیشنل بھی اپنی رپورٹ دے چکا ہے۔ اس سال کے اوائل میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے دو رپورٹیں جاری کی تھیں جن میں سے ایک کا عنوان تھا: ’’اگر تم نے آواز اُٹھائی تو تمہارا مکان توڑ دیا جائیگا‘‘۔ اس ادارہ کی سکریٹری جنرل اگنس کلامرڈ نے کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کی املاک کا غیر قانونی انہدام جسے بلڈوزر کا انصاف کہا جاتا ہے، سفاکانہ ، بے رحمانہ اور چونکانے والا ہے۔ مکینوں کو بے گھر کردینا اور اُن کی املاک کو توڑ پھوڑ دینا غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔ یہ خاندانوں کو برباد کرنے والی حرکت ہے جسے فوری طور پر روکنا چاہئے۔‘‘ مگر ایمنیسٹی کی نہیں سنی گئی۔
کہنے کی ضرورت نہیں کہ انہدامی کارروائی اتنی جلدی عمل میں لائی جاتی ہے کہ متاثرہ خاندان عدالت سے رجوع کرکے اسٹے آرڈر حاصل کرنا چاہے تو اس کے پاس یہ موقع بھی نہیں رہتا۔ وقت کے ساتھ بڑھتے جانے والے انہدامی کارروائی کے واقعات پر روک ضروری ہے اور یہ کارِ خیر سپریم کورٹ ہی کرسکتا ہے۔